وقت کا وار بہت خطرناک اور بھیانک ہوتا ہے۔ جب بھی یہ وار چلتا ہے‘ سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ کسی کی راہیں بدلتی ہیں اور کسی کا سفر رائیگاں جاتا ہے۔ کوئی فتح کی منزلوں کا راہی ٹھہرتا ہے اور کوئی شکست کے کھنڈروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کوئی خوشیوں کا دامن تھام لیتا ہے اور کوئی درد کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔ کسی روح کو تسکین و قرار ملتا ہے اور کسی کے سر پر فنا کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ عباس تابش یاد آتے ہیں:
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
وہی انداز، وہی طریقے اور وہی وارداتیں! وقت کا کھیل جاری رہتا ہے مگر کردار بدل جاتے ہیں۔ وار کرنے والے اور وار سہنے والے ایک سے نہیں رہتے۔ جب بھی الیکشن قریب آتا ہے ہمارے سیاستدانو ں کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے تو ہر الیکشن دوسرے سے مختلف ہوتا ہے مگر گزشتہ سات سالوں میں جو کچھ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا اب وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاناما کیس میں جس طرح میاں نواز شریف کی عزت اچھالی گئی‘ چور اور ڈاکو کے نعرے لگائے گئے‘ آج ویسی ہی رسوائی کا نشانہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو بنایا جا رہا ہے۔ پاناما کے ہنگامے کے طرح اب توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس کی دُھول اڑ رہی ہے اور اس دُھول میں بانی پی ٹی آئی پوری طرح اَٹے دکھائی دیتے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ پاناما کے ''فتح یاب‘‘ عمران خان کو بھی چند ہی سالوں میں کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہو گا۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پر جس طرح الزامات کی بوچھاڑ کی گئی اور عدالتوں میں دھکے کھانا پڑے‘ ویسا ہی کچھ عمران خان کی اہلیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور میاں نواز شریف کے خلاف پریس کانفرنسیں کرائی جاتی تھیں۔ آج عمران خان کی پارٹی زیر عتاب ہے۔ ہر دن سیاستدان پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ رہے اور عمران خان کے خلاف پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) سے شیر کا نشان واپس لے لیا گیا تھا اور ان کے امیدوار آزاد تصور کیے گئے تھے۔ حالیہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے۔ ان کے پا س ''بلے‘‘ کا انتخابی نشان نہیں ہے اور ان کے امیداوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑر ہے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف اور مریم نواز پابندِ سلاسل تھے اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلانے سے قاصر تھے۔ آج عمران خان‘ پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت ٹاپ کی لیڈر شپ جیل میں ہے اور الیکشن کی دوڑ سے باہر۔ چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کے سارے اکابرین ایک ایک کرکے گرفتار ہو رہے تھے اور آج پی ٹی آئی کے زعما سلاخوں کے پیچھے ہیں یا پھر مفرور ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں عمران خان پر ''لاڈلا‘‘ اور ''سلیکٹڈ‘‘ ہونے کی چھاپ لگائی جا رہی تھی اور اب میاں نواز شریف کو انہی القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ یہ سب وقت کا پھیر ہے مگر ستم یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ جب اپنے مخالف سیاست دانوں کوگرانے کے لیے اپنا کندھا پیش کرتے ہیں تو انہیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کل کو وہ خود بھی اس کا شکار ہوں گے۔ جو گڑھا وہ سیاسی دشمنوں کے لیے کھود رہے ہیں‘ اس میں عنقریب وہ خود بھی گریں گے۔ قدرت کا قانون ہے کہ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے۔ کیکر کے درخت پر آم نہیں اُگتے۔ مومن خاں مومنؔ کا شعر ملاحظہ کریں:
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو! آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
شیخ سعدی کا قول ہے ''کانٹوں کے بیوپاری کے لیے پھولوں کی اہمیت نہیں ہوتی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں تعلقات ذاتی نوعیت کے نہیں ہوتے‘ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ ہماری سیاست کا یہی چلن ہے۔ اگر ہمارے سیاست دانوں میں رتی برابر بھی شعور اور معاملہ فہمی ہو تو یہ ایک دوسرے کے خلاف کبھی استعمال نہ ہوں۔ یہ دشمن کا گھر جلتا دیکھ کر تالی بجاتے ہیں اور اپنے گھر میں لگی آگ دیکھ کر واویلا کرنے لگتے ہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ ایک چھوٹی سی غلطی ٹھنڈی چھاؤں کو کڑی دھوپ میں تبدیل کر دیتی ہے اور ایک ذرا سی ضرورت تیز دھوپ میں بھی سائبان کا اہتمام کر لیتی ہے۔ پاکستانی عوام کی یہ بڑی خوبی ہے کہ یہ مرے ہوئے کو مزید نہیں مارتے بلکہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینے کے بجائے سہارا دیتے ہیں۔ جولائی 2017ء میں میاں نواز شریف کو نکالا گیا تو عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا‘ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بے حد مقبول ہوا۔ تمام تر مخالفت اور غیر جمہوری حربوں کے باوجود 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ گرانے والے چاہ کر بھی میاں نواز شریف کو گرا نہ سکے۔ عام انتخابات کے پینتالیس دن بعد ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ عوام نے ایسا ہی معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی رکھا ہے۔ 9 اپریل 2022ء تک عمران خان وزیراعظم ہونے کے باوجود ملک کے غیر مقبول ترین سیاستدان تھے۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مقبولیت میں سب سے آگے تھی مگر جیسے ہی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور انہوں نے سائفر کا بیانیہ بنایا، عوام عمران خان کے ہمرکاب بن گئے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ بانی پی ٹی آئی کی مقبولت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے لیڈران پارٹی چھوڑ گئے مگر پارٹی کے پاس امیداروں کی کمی نہیں ہوئی۔ عمران خان کو سزا ہو گئی اور وہ جیل چلے گئے مگر پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا مگر جیت کی امید اب بھی باقی ہے کیونکہ عوام کی بڑی تعداد آج بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔
آٹھ فروری کو پی ٹی آئی کے نامزد آزاد امیدوار الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر اس سے قبل بطور جماعت پی ٹی آئی کو اپنا اندازِ گفتگو بدلنا ہو گا۔ ماضی کی غلطیوں کو سدھارے بنا آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک کو بہت نقصان ہو گا۔ اس طرح شاید پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار الیکشن تو جیت جائیں مگر ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔ سیاسی تنائو اور تصادم کی کیفیت برقرار رہے گی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور ملکی معیشت پاتال میں گر جائے گی۔ مہنگائی بے لگام ہو گی اور بیروزگاری کنٹرول سے باہر ہو جائے گی۔ اس لیے بانی پی ٹی آئی نو مئی کی غلطی تسلیم کریں، سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں سے اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کریں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر الزامات لگانا بند کریں، اپنی جماعت کو منظم کریں اور کسی متحرک سیاستدان کو پارٹی کی کمان سنبھالنے دیں۔ اگر سیاسی کشیدگی میں کمی آ گئی تو پی ٹی آئی کے امیدواروں کی جیت کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اگر حالات ویسے ہی رہے جیسے گزشتہ دو سال سے چل رہے ہیں تو پھر ''دلی دور است‘‘والا معاملہ درپیش ہو گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پی ٹی آئی اقتدار سے دور ہوتی جائے گی اور اس کی مقبولیت کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ ووٹر کو متحرک کرنا اور اسے پولنگ سٹیشن تک لانا ہی اصل کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن ڈے کی منصوبہ بندی کون اور کیسے کرے گا ؟ یہی اس وقت پی ٹی آئی کا اصل امتحان ہے۔ کیا پی ٹی آئی بطور جماعت اس امتحان میں پاس ہو سکے گی؟