عوام کا سچا اور اصل ہیرو

اٹھارہویں صدی کے برطانوی سائنسدان Michael Faraday کا قول ہے: سچا ہیرو وہ ہوتا ہے جو ا پنے غصے اور نفرت پر فتح حاصل کرتا ہے۔ مولانا رومی کا ماننا ہے کہ انسان اپنے غصے، نفرت اور ضد پر قابو نہ پا کر تباہ ہو جاتا ہے۔ غصہ نامرادی کا پہلا زینہ ہے اور ضد تباہی کی پہلی سیڑھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی غصے، نفرت اور ضد پر مدار کیا‘ پاش پاش ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے غصے اور ضد کے ہاتھوں اپنی زندگی ہی گنوا بیٹھے۔ میاں نواز شریف نے اسی سبب تین حکومتیں گنوائیں اور اب عمران خان بھی غصے اور نفرت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر گزرتا دن انہیں سیاست اور حکومت سے دور کر رہا ہے مگر ستم یہ ہے کہ وہ ضد کی بانسری بجانا بند نہیں کر رہے۔
سیاست اَنا کی ضد ہے۔ سیاست کو سیاست سمجھا جائے تو انا اپنی موت آپ مر جاتی ہے اور اگر انا کی حاکمیت قائم ہو جائے تو سیاست کہیں کی نہیں رہتی۔ اتنی سی بات ہے جو ہمارے سیاستدان سمجھ نہیں پاتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو آفرز کی گئیں کہ وہ غصہ پی جائیں اورکچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جائیں۔ متعدد عرب ممالک ان کی مہمان نوازی کے خواہش مند تھے مگر وہ نہیں مانے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انا نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔کوئی مانے یا نہ مانے‘ بھٹو صاحب کی پھانسی کا ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوا مگر اس سے پیپلزپارٹی کی سیاست بھی آدھی رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی ایک بار بھی پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکی‘ نہ ہی وفاق میں سادہ اکثریت حاصل کر سکی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو حکومتیں بنائیں‘ دونوں اتحادی حکومتیں تھیں۔ 2008ء میں بھی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی ضد چھوڑ دیتے تو شاید آج ملک کی معیشت اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا نقشہ مختلف ہوتا۔ میاں نواز شریف دو بار غصے، نفرت اور ضد کا شکار ہوئے۔ دونوں بار انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا، مقدمات کا سامنا اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی مگر دونوں دفعہ انہوں نے حکمت اور سیاسی فہم و فراست سے کام لیا۔ حالات کی شدت کا ادراک کرکے وہ ملک سے باہر چلے گئے اور جیسے ہی ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا‘ واپس آکر وہ دوبارہ سیاست میں فعال ہو گئے۔ اگر میاں نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چلتے تو کیا آج چوتھی بار وزیراعظم بننے کی ریس میں شامل ہوتے؟ کیا انہیں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کی واحد وجہ سمجھا جاتا؟ میاں نواز شریف کی سیاست میں واپسی اس بات کی گواہی ہے کہ انا اور ضد کی قربانی دینے سے برا وقت ٹل جاتا ہے اور اگر انا اور ضد قائم رہیں تو مشکلات بڑھتی رہتی ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ایک فرمان کا مفہوم ہے: ''اگر ایسے دورِ اقتدار کا سامنا ہو جس سے انصاف کی امید نہ ہو تو تلخ حالات سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے‘‘۔ کاش! اتنی سے بات ذوالفقار علی بھٹو سمجھ سکتے اور اب عمران خان غصے، نفرت اور ضد کو ترک کرکے آگے بڑھنے کی سعی کریں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے حلقے بانی پی ٹی آئی کے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے اہل نہیں ہو سکیں گے اور جب تک وہ جیل میں رہیں گے‘ ان کی جماعت کی مشکلات دوچند ہوتی رہیں گی۔ نو مئی سے پہلے‘ اور بعد میں بھی کچھ دوستوں نے انہیں مشور ہ دیا تھا کہ وہ بیرونِ ملک چلے جائیں تاکہ حالات کی کشتی بھنور سے نکل سکے مگر وہ نہیں مانے۔ یہ مشور ہ کچھ کاروباری شخصیات نے انہیں دیا تھاکہ اگر وہ رضامند ہوں تو عرب ممالک اور مقتدر حلقوں کو اس بابت قائل کیا جا سکتا ہے مگر ان کی انا نے انہیں ایسا کرنے روک دیا۔
سب جانتے ہیں کہ ملک بھر میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز کر رہی ہے، پیپلز پارٹی جلسے کرنے میں مگن ہے مگر پی ٹی آئی میدان میں نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان عدالتی معاملا ت میں مصروف ہیں اور انتخابی مہم کے لیے دستیاب نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اتنے مقبول ہیں کہ جلسے جلوس کر سکیں؟ شہر شہر جاکر پارٹی ورکرز کو متحرک اور عوام کو ووٹ ڈالنے پر قائل کر سکیں؟ اگر وہ ا یسا کر سکتے ہیں تو کر کیوں نہیں رہے؟ اور اگر نہیں کر سکتے تو پھر یہ ذمہ داریاں کون نبھائے گا؟ چند روز قبل پی ٹی آئی نے ڈیجیٹل جلسے کا اہتمام کیا۔ انٹرنیٹ سروس سست ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قریب چالیس لاکھ لوگوں نے اس جلسے میں شرکت کی۔ کیا آج کے جدید دور میں ڈیجیٹل جلسے روایتی جلسوں کا متبادل ثابت ہو سکتے ہیں؟ کیا اس سے مؤثر ابلاغ یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ اور کیا ووٹرز کو قائل اور مائل کیا جا سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ڈیجیٹل جلسے روایتی جلسوں کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ لوگوں تک اپنا پیغام ضرور پہنچایا جا سکتا ہے مگر اصل امتحان انتخابی حلقوں جا کر میں ورکرز اور ووٹرز کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ بھی حلقوں کی سیاست سے آشنا ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ کارنر میٹنگز کتنی کارآمد ہوتی ہیں۔ ووٹرزکے گلے شکوے دور کرنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے امیدوار اور ووٹر کے درمیان رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور ووٹر الیکشن کے دن بہرصورت ووٹ ڈالنے جاتا ہے۔ ڈیجیٹل کمپین کی اہمیت اپنی جگہ مگر روایتی طریقوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کو شکوہ ہے کہ انہیں انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع نہیں دیے جا رہے اور اس لیے وہ بار بار لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضا کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو الیکشن کمیشن خاموش کیوں ہے؟ وہ نگران حکومتوں کی جواب طلبی کیوں نہیں کر رہا؟ وہ پولیس کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں جاری کر رہا؟ پشاور ہائیکورٹ کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے بھی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں مگر ان کے احکامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کوئی ہے جو ان سوالات کا جواب دے سکے؟ وہ لوگ جو سنگین مقدمات میں ملوث نہیں‘ انہیں کھلا سیاسی میدان ملنا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت پر سوالات نہ اٹھ سکیں۔
آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس نہج پر کیسے پہنچی؟ اور اس کا جواب ہے کہ خان صاحب کے غصے، نفرت اور ضد نے پی ٹی آئی کو پاتال میں گرایا۔ اگر بانی پی ٹی آئی مسند اقتدار سے الگ ہونے کے بعد مثبت سیاست کرتے اور ایک کے بعد ایک سیاسی غلطی نہ دہراتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایسی صورت میں وہ ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہوتے اور ان کی جماعت کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہ روک پاتا۔ کاش! وہ سائفر پر پروپیگنڈا نہ کرتے، پی ٹی آئی کے 135 ایم این ایز سے استعفے نہ دلاتے، اداروں کے خلاف بیانیہ نہ بناتے، وفاقی حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ نہ کرتے، میر صادق، میر جعفر اور غداری کے القابات نہ بانٹتے پھرتے، سوشل میڈیا پر منفی ٹرینڈز نہ چلواتے، اہم تعیناتی کو متنازع نہ بناتے، لانگ مارچ نہ کرتے، سانحہ وزیرآباد کے بعد خواہ مخواہ الزامات نہ لگاتے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں زبردستی تحلیل نہ کراتے، پولیس اور رینجر کے مقابلے پر نہ اترتے اور سب سے بڑھ کر‘ اپنی مبینہ گرفتاری کی صورت میں ملکی اداروں کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی نہ کرتے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خان صاحب کا غصہ ان کی شخصیت پر حاوی ہو گیا اور وہ غلطی پر غلطی کرتے رہے۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ کاش! انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا ہوتا۔ کاش! وہ وقتی طور پر غصے، نفر ت اور ضد پر قابو پا لیتے تو آج وہ عوام کے سچے اور اصل ہیرو ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں