ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

عربی کی ایک کہاوت کا مفہوم ہے کہ جب بُرا وقت چل رہا ہو تو اونٹ پر بیٹھے انسان کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ان دنوں پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پہلے عمران خان پارٹی کے چیئرمین نہ رہے اور اب بلے کے نشان کا حصول مشکل نظر آ رہا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے عبوری ریلیف دیا ہے مگر... ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
سرِ دست پی ٹی آئی کے تین بڑے مسائل ہیں اور تینوں کا حل عدالتوں کے پاس ہے۔ دو مسئلے وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائیں گے مگر تیسرا مسئلہ کیسے حل ہو گا‘ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اول: بلے کا نشان۔ دوم: لیول پلیئنگ فیلڈ۔ سوم: بانی پی ٹی آئی کا الیکشن میں حصہ لینا۔ الیکشن کمیشن نے چند روز قبل پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیے تھے اور اس کے نتیجے میں بلے کا نشان پارٹی سے واپس لے لیا تھا۔ پی ٹی آئی درخواست لے کر پشاور ہائیکورٹ گئی اور پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر کے حتمی فیصلہ آنے تک بلے کا نشان پی ٹی آئی کو واپس کر دیا۔ پشاور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ''الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے، یہاں تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے، اگر کل کو عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا تو پھر کیا ہو گا؟ اگر پارٹی سے اس کا نشان ہی واپس لے لیا جائے تو کیا رہ جاتا ہے‘‘۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عبوری طور پر بلے کا نشان بحال ہونے سے پی ٹی آئی کو بہت بڑا ریلیف ملا ہے اور اگر فیصلہ اس کے حق میں نہ آتا تو پی ٹی آئی کا بہت نقصان ہو جاتا اور بطور پارٹی اس کا وجو د خطرے میں پڑ جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ریلیف حتمی ہے یا عبوری۔ یہ واضح رہے کہ عدالت کے عبوری حکم میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوا ہے‘ کالعدم نہیں۔ عدالتی چھٹیوں کے بعد دو رکنی بینچ اس کیس کی باقاعدہ سماعت کرے گا اور الیکشن کمیشن کے وکیل اور اٹارنی جنرل کو بھی دلائل کا موقع دیا جائے گا۔ پشاور ہائیکورٹ کے جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں پڑھا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جب عدالت میں الیکشن کمیشن کے دلائل سنے جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ حالات بدل جائیں کیونکہ جس طرح پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن ہوا وہ قانون کے مطابق نہیں تھا‘ اس میں بہت سے سقم ہیں۔ پی ٹی آئی نے غیر محتاط رویہ اختیار کیا جو اسے ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب حالات کا ستم اور بادِ مخالف عروج پر ہو تو لاپروائی برتنا خود اپنے ساتھ ناانصافی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کی کشتی بھنور سے نکلے گی یا نہیں‘ اس کا انحصار عدالت کے حتمی فیصلے پر ہے۔ اگر حتمی فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آتا ہے تو اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دیتی ہے اور بلے کا نشان بحال نہیں ہوتا تو تحریک انصاف کی پارلیمانی قوت بالکل ختم ہو کر رہ جائے گی۔ بلے کا نشان پی ٹی آئی کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں شرحِ خواندگی کم ہے اور شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں حالات زیادہ دگرگوں ہیں۔ لوگ بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام پڑھنے کے بجائے نشان دیکھ کر ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ ووٹر گھر سے فیصلہ کر کے آتے ہیں کہ انہوں نے کس نشان پر مہر لگانی ہے۔ ویسے بھی جب کوئی شخص امیدوار کا نام نہ پڑھ سکتا ہو تو وہ نشان دیکھ کر ہی مہر لگاتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے پاس بلے کا نشان نہ ہوا تو لاکھوں ووٹرز پریشان ہو جائیں گے اور پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ اگر کسی نہ کسی طرح پی ٹی آئی یہ مرحلہ عبور کر لیتی ہے تو بھی اس کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔
پارٹی نشان الاٹ نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ نہیں ملے گا کیونکہ قانون کے مطابق ریزرو سیٹیں صرف رجسٹرڈ اور ایک نشان پر الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعت ہی کو مل سکتی ہیں۔ اس طرح ووٹ حاصل کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں ضائع ہو جائیں گی اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں بھی اسے کوئی مخصوص سیٹ نہیں ملے گی۔ یہی نہیں‘ مارچ میں جب سینیٹ کے الیکشن ہوں گے تو سینیٹ میں بھی پی ٹی آئی کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ وہاںبھی پی ٹی آئی کی نمائندگی کم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کے نقصان کا سلسلہ یہیں پر ہی نہیں رکے گا۔ پارلیمانی نظام میں تحریک انصاف کا بطور جماعت وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار اسمبلیوں میں آزاد حیثیت سے بیٹھیں گے۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے انتخابات میں وہ جس کو مرضی ووٹ دیں‘ وہ ہر قسم کے ضوابط و قوانین سے ماورا ہوں گے اور ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن سے انحراف کی کارروائی بھی نہیں ہو سکے گی۔ بجٹ کی منظوری کے دوران بھی اراکینِ اسمبلی اپنی منشا کے مطابق ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔ اعتماد کا ووٹ اور عدم اتحادکی تحریک کے وقت بھی وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹنگ کے مجاز ہوں گے۔ پارٹی ان سے قانونی طور پر جواب طلب کر سکے گی اور نہ ہی آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت کوئی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔
اگر یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تو پی ٹی آئی عملی طور پر میدانِ سیاست میں ختم ہو جائے گی۔اس لیے پی ٹی آئی کے لیے ضروری ہے کہ بلے کے نشان کے لیے اپنی قانونی جنگ جاری رکھے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کراتے وقت قانونی تقاضوں پورے کیوں نہیں کیے؟ عجلت میں الیکشن کیوں کرائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی الیکشن کے لیے کاغذاتِ نامزدگی دیے گئے نہ کاغذات وصول کیے گئے، ووٹر لسٹیں چھپیں نہ ہی ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بانی چیئرمین نے بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی چیئرمین نامزد کیا اور سب بلامقابلہ جیت گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ الیکشن کے مراحل پورے کر لیے جاتے تو کیا ہو جانا تھا؟ اگر تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج پی ٹی آئی کا ووٹر اتنا پریشان نہ ہوتا۔
پی ٹی آئی کا دوسرا بڑا مسئلہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے مگر ابھی تک تحریک انصاف کے اعتراضات کم نہیں ہوئے۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دے دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس درخواست پر کیا کارروائی ہوتی ہے۔ الیکشن شیڈول آنے کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ سب جماعتوں کو ملنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو بھی جلسے جلوس اور ریلیوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے تاکہ لو گ آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ لیں سکیں۔ پی ٹی آئی پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ تھوڑی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ اس بار بھی اس نے بہت واویلا کیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوارں کے کاغذاتِ نامزدگی چھینے جا رہے ہیں اور انہیں کاغذات جمع کرانے سے روکا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس سے مختلف تھی۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے پی ٹی آئی کی طرف سے سب سے زیاد ہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کا تیسرا مسئلہ بانی چیئرمین کا انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ وہ ہر صورت الیکشن میں حصہ لیں۔ سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی گئی ہے کہ توشہ خانہ کیس میں دی گئی تین سال کی سزا کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل فیصلہ دیا تھا کہ سزا معطل ہو سکتی ہے‘ فیصلہ نہیں۔ اپیل پر فیصلہ برقرار رہتا ہے یا پھر کالعدم ہوتا ہے‘ یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ اس وقت جو صورتحال ہے‘ اس کے پیشِ نظر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس بار پی ٹی آئی کو الیکشن عمران خان کے بغیر ہی لڑنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں