انقلاب ایسے نہیں آتے!

شہنشاہِ ہندوستان جلال الدین محمد اکبر کا قول ہے: بغاوت وہ دروازہ ہے جو ایک بار کھل جائے تو نسلوں کا خون بہا کر بھی بند نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور کے خلاف بغاوت اور جنگ کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جس نے بھی اس قسم کی کوشش کی‘ اس نے منہ کی کھائی۔ جذبات کے اپنے رنگ ہوتے ہیں مگر طاقت کے اصول الگ ہوتے ہیں۔ جنگیں اگر محض جذبات، غصے اور نفرت سے جیتی جاتیں تو دنیا میں کوئی بغاوت ناکام نہ ہوتی۔ جنگ جیتنے کا ایک ہی فارمولا ہے‘ وہ یہ کہ بہرصورت اپنی قوت میں اضافہ کیا جائے۔
1191ء میں ترائن کی پہلی جنگ ہوئی۔ شہاب الدین غوری کے پاس چند ہزار سپاہی تھے اور پرتھوی راج چوہان کے ساتھ لاکھوں کی فوج تھی۔ دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ راجپوتوں کی فوج نے دیکھتے ہی دیکھتے شہاب الدین غوری کے لشکر کو کچل ڈالا۔ خود شہباب الدین غوری کو زخمی حالت میں میدانِ جنگ سے فرار ہونا پڑا۔ مغلوں کے پہلے چھ بادشاہوں میں سب سے کمزور حکومت ہمایوں کی تھی۔ اس کے بھائیوں نے جب بھی بغاوت کی انہیں بری طرح شکست ہوئی کیونکہ یہ جنگ طاقت کے اصولوں کے مطابق نہیں تھی۔ اکبر کے بھائیوں نے متعدد بار بغاوت کی مگر ہمیشہ ہار ان کا مقدر ٹھہری۔ اکبر کے خلاف بیرم خان کی بغاوت بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ یہی نہیں‘ جلال الدین محمد اکبر کا بیٹا جہانگیر بھی دو بار شاہی فوج سے ٹکرایا مگر ہمیشہ نامراد رہا۔ اکبر کے بعد جہانگیر کو اقتدار سنبھالے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس کے بڑے بیٹے خسرو نے لاہور میں بغاوت کر دی۔ جہانگیر کو پتا چلا تو وہ فوج لے کر لاہور پہنچ گیا۔ خسرو کے ساتھی شاہی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ جہانگیر نے خسرو کو معاف کر دیا اور اسے لے کر کابل چلا گیا لیکن خسرو نے وہاں جا کر بھی بغاوت کر دی جس کے بعد جہانگیر نے اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر اسے اندھا کر دیا۔ اس کے بعد بھی بغاوت کا راستہ بند نہیں ہوا اور جہانگیر کے باقی دونوں بیٹوں نے بھی شاہی فوجوں کے خلاف بغاوت کر دی جو ناکام ٹھہری۔ ملکہ نور جہاں کی وجہ سے جہانگیر کے اپنے سب سے وفادار جنرل مہابت خان سے اختلافات پیدا ہو گئے مگر جہانگیر کی فوج نے اسے بھی پسپا کر دیا۔ شاہجہان مسندِ اقتدار پر بیٹھا تو اس کے چاروں بیٹے باہم دست و گریباں تھے۔ شاہجہان کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے جب ہندوستان کی حکومت سنبھالی تو دارا شکوہ سمیت اپنے تینوں بھائیوں کو قتل کرا دیا اور شاہجہان کو قید خانے میں ڈال دیا۔ جلد ہی اورنگزیب نے بھی وہ دن دیکھا جب اس کے بیٹے اکبر نے راجپوتو ں کے ساتھ مل کر باپ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا مگر یہ بغاوت بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر Sir Josiah Child نے 1681ء میں بنگال کے نواب شائستہ خان کے خلاف جنگ چھیڑی۔ نواب شائستہ ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب کا بھانجا تھا۔ معروف تاریخ دان وِلیم ڈلریمپل (William Dalrymple) اپنی کتاب The Anarchy: The Relentless Rise of the East India Company میں لکھتا ہے کہ مغل فوج نے برطانوی سپاہیوں کو مکھیوں کی طرح مارا، ان کے کارخانے تباہ کر دیے، کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا اور پھر انگریزوں کو بنگال بدر کر دیا۔ اس ذلت آمیز شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو سمجھ آ گئی کہ اس سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے۔ کمپنی نے نہ صرف مغل بادشاہ سے معافی مانگی بلکہ بھکاریوں کی طرح زمین پر لیٹ کر فیکٹریوں کی واپسی کے لیے التجائیں بھی کیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مخالف کی طاقت کا اندازہ ہونے کے باوجود اس سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ جنگ چھیڑنا آسان ہے مگر اس کی بھاری قیمت کوئی کوئی ادا کرتا ہے۔ ویسے تو دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا مگر یہ دانائی نہیں کہ آپ سر کی ٹکر سے پہاڑ گرانے کا خواب دیکھیں۔ پہاڑ وہیں رہے گا مگر آپ کی جان چلی جائے گی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی چائلڈز وار کے بعد وقتی طور پر پیچھے ہٹ گئی مگر اگلی بار جب وہ مغلوں پر حملہ آور ہوئی تو فتح اس کا مقدر ٹھہری۔
بسا اوقات مخالف کی طاقت سے متعلق غلط اندازہ وقتی طور پر بڑے نقصان کا سبب بنتا ہے مگر دانشمندانہ حکمتِ عملی نقصان کے ازالے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے تدارک کے حوالے سے بھی راہیں آسان کر دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست سے لڑائی ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوتی ہے اور کوئی بھی ریاست کے خلاف زیادہ دیر تک ٹھہرا نہیں رہ سکتا۔ صرف عمران خان ہی نہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی جب جب ریاست اور مقتدر حلقوں کے سامنے آئے‘ زیادہ دیر تک کھڑے نہیں ہو سکے۔ بھٹو صاحب کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی، بینظیر بھٹو کو دو اور میاں نواز شریف کو تین حکومتیں چھوڑنا پڑیں۔ اس لڑائی میں ہر بار نقصان سیاست دانوں ہی کو اٹھانا پڑا۔ اگرچہ ہر بار انہوں نے اپنی اس ذاتی لڑائی کو سویلین بالا دستی کے خوشنما نعرے سے ڈھکنے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ نعرہ درست نہیں بلکہ سیاستدانوں کی جدوجہد بہت کمزور اور کھوکھلی ہوتی ہے، وہ کبھی بھی جمہوری جدوجہد مل کر نہیں کرتے۔ جو پارٹی بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتی ہے وہ اپوزیشن کے دنوں میں لگائے گئے نعرے بھول جاتی ہے۔ ایوانِ اقتدار میں اسے سویلین بالادستی یاد رہتی ہے نہ آئین کی پامالی۔ بنیادی انسانی حقوق کی فکر ہوتی ہے نہ جمہوری اقدار کی پروا۔ حکمران وہی کچھ کرتے ہیں جو اپنا اقتدار بچانے اور اسے طول دینے کے لیے انہیں سوٹ کرتا ہے۔
سویلین بالادستی کی جدوجہد میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بغیر کامیابی ناممکن ہے مگر ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہی مسئلہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ایوب خان کو سیاستدانوں ہی نے مضبوط کیا تھا، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے بازو بھی یہی مفاد پرست سیاستدان بنے تھے۔ زیادہ دور مت جائیں‘ (ق) لیگ کو گرانے کے لیے پیپلزپارٹی نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا۔ میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے عمران خان استعمال ہوئے اور عمران خان کو نکالنے کے لیے پی ڈ ی ایم اور پیپلزپارٹی نے کندھا فراہم کیا۔
پی ٹی آئی کا المیہ یہ رہا کہ اس نے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلقات استوار نہیں رکھے اور اکیلے ہی لڑائی شروع کر دی۔ اس غیر ضروری لڑائی نے ملک کو سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکارکیا، سڑکیں اور شاہراہیں بند ہوئیں، معیشت جمود کا شکار ہوئی، کاروبار ی سرگرمیاں متاثر ہوئیں، روپیہ گراوٹ کا شکار ہوا، قومی اسمبلی سے 135 ارکان نے استعفے دیے، حکومت گرانے کیلئے دھرنے اور لانگ مارچ کیے گئے، قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر، میر صادق اور غدار کہا گیا، پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل کر دی گئیں اور سب سے بڑھ کر‘ 9 مئی کو پُرتشدد واقعات ہوئے، لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس جلایا گیا، جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا اور متعدد شہروں میں شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ پی ٹی آئی نے سیاسی جدوجہد کے نام پر انتشار کو ہوا دی۔ تبدیلی اور انقلاب کے نام پر اَنا، غصے اور ہٹ دھرمی کو فروغ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی سسٹم کے لیے ناقابل قبول ہو گئی۔ اس لیے اسے لیول پلینگ فیلڈ مل رہی ہے نہ جلسے جلوس کرنے کی آزادی ہے۔ تمام قابلِ ذکر رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو چکے۔ سوال یہ ہے کہ بغیر تیاری کے مقتدر حلقوں سے نبرد آزما ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر کوئی سیاسی جدوجہد کرنا تھی تو سیاسی جماعتوں کی جانب ہاتھ کیوں نہیں بڑھایا گیا۔ کیا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو معلوم نہیں کہ ملک کو آئینی، سیاسی اور معاشی بحرانوں سے تمام سیاسی جماعتیں مل کر ہی نکال سکتی ہیں۔ یہ کام کسی ایک پارٹی کے بس کا نہیں ہے۔ انقلاب اور بغاوت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ نجانے کیوں پی ٹی آئی یہ فرق جاننے سے قاصر رہی۔ اسے پتا ہی نہیں تھا کہ انقلاب ایسے نہیں آتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں