میاں نواز شریف سے ایک ملاقات

دھند، سموگ اور سردی میں لپٹی صبح کتنی ویران ہوتی ہے اس کا اندازہ مجھے دو روز قبل رائیونڈ روڑ سے جاتی امرا جاتے ہوئے ہوا۔ سٹرکوں پر سناٹا تھا مگر جاتی امرا کی رونقیں بحال تھیں۔ لوگ اندر جانے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے تھے مگر مجھے کسی مہربان نے اشارہ کیا اور میں بہ آسانی جاتی امرا کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو گیا۔ مجھے میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا تھا جس پر میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ جس کمرے میں مجھے بٹھایا گیا وہاں کوئی نہیں تھا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ میں نے گھڑی پر ٹائم دیکھا کہ شاید میں وقت سے پہلے آ گیا ہوں لیکن ایسا نہیں تھا۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ باقی صحافی حضرات کہاں رہ گئے ہیں‘ اچانک میری نظر مریم نواز صاحبہ پر پڑی جو دو‘ تین خواتین سے بات چیت کر رہی تھیں۔ مجھے ایک لمحے کے لیے لگا کہ شاید وہ اندر آئیں گی مگر وہ باہر کی جانب چلی گئیں۔ کمرے میں گہرے نیلے رنگ کے صوفے پڑے تھے جو ہر آنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ سامنے دیوار پر میاں شریف مرحوم کی تصویر آویزاں تھی اور اس کے نیچے تین تصویریں اور بھی لگی ہوئی تھیں جو دور سے پہچانی نہیں جا رہی تھیں۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ میاں نواز شریف کمرے میں داخل ہو گئے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور لبوں پر مسکراہٹ۔ میاں صاحب نے اپنے ہاتھوں سے قہوہ کپ میں انڈیلا اور میری جانب بڑھا دیا۔ اس کے بعد سوال جواب کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اگلے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
میں نے پہلا سوال پوچھا: آپ کے بارے میں لاڈلا ہونے کا تاثر کیوں بڑھ رہا ہے؟ دو ماہ میں آپ کے سارے مقدمات ختم ہو گئے‘ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں جس طرح آپ کی بریت ہوئی اور جس طرح سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کو ختم کیا ہے‘ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے‘ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو بہرصورت چوتھی بار وزیراعظم بنایا جائے گا؟ میاں صاحب سلاد کھانے میں مگن تھے‘ انہوں نے پلیٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور گویا ہوئے: پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ وزیراعظم کون ہو گا۔ میں کمانِ حکومت خود سنبھالوں گا یا شہباز شریف یا پھر کوئی اور۔ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے‘ میں محض چوتھی بار وزیراعظم کا لیبل لگوانے کے لیے اقتدار کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہتا۔ میرے کچھ تحفظات ہیں اور جب تک وہ دور نہیں ہوتے‘ میں وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نہیں ہوں۔ میں میاں نوازشریف کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ میں نے پوچھا: آپ کے خدشات کیا ہیں؟ بولے: ہماری سیاست کا ماضی بہت تلخ ہے‘ آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا‘ اسے کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اگر میں اپنی تینوں حکومتوں کی مدت پوری کر لیتا تو آج پاکستان کے یہ حالات نہ ہوتے۔ آج عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، مہنگائی بے قابو ہے، بے روزگاری عام ہے اور معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ 2018ء میں ہماری حکومت ختم ہوئی تو ملکی قرضہ چوبیس ہزار ارب تھا جو اب ساٹھ ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ ڈالر 104 روپے کا تھا مگر اب 282 روپے کا ہو چکا ہے۔ آپ خود بتائیں‘ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ اگلی حکومت صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے‘ اگر اسے کام کرنے دیا جائے‘ اس کے خلاف 126 دن کے دھرنے نہ ہوں‘ کراچی، لاہور اور فیصل آباد سمیت بڑے شہروں کو بند نہ کیا جائے‘ تما م ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور عدالتیں کسی وزیراعظم کو گھر نہ بھیجیں۔ اگر ادارے آئینی حدود میں رہنے کی گارنٹی دیں گے تبھی میں وزیراعظم بنوں گا۔ میں ملک کی معاشی مشکلات کم کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے اداروں کا تعاون ناگزیر ہے۔
میں نے اگلا سوال کرنا چاہا تو میاں صاحب نے ٹوک دیا۔ کہنے لگے: اپنے سوال کے پہلے حصے کا جواب بھی سن لیں۔ میں کسی کا لاڈلا نہیں ہوں‘ میری چالیس سال کی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ مجھ پر تو یہ الزام لگتا ہے کہ میری کسی سے نہیں بنتی‘ میں کسی کا لاڈلا کیسے ہو سکتا ہوں؟ آپ خود بتائیے‘ کیا کسی شخص کو تاحیات نااہل کرنا ناانصافی نہیں؟ میر ا قصور کیا تھا؟ مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر کیوں نکالا گیا؟ کیا اس ''جرم‘‘ میں مَیں تاحیات نااہل رہوں؟ کیا میرے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ کیا آئین مجھے تحفظ نہیں دیتا؟ کیا آئین کے مطابق فیئر ٹرائل میرا حق نہیں؟ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس بنا کر اس وقت کی نیب، عدلیہ اور مقتدرہ نے میری عزت اچھالی تھی‘ اب اللہ نے انصاف کیا ہے۔ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں کسی کے دباؤ میں نہیں۔ میں اپنا غم بھول چکا ہوں‘ مجھے اب عوا م اور ملک کی فکر ہے۔ میں نے کہا: ایک وقت تھا کہ آپ ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر تھے مگر اب یوں لگتا ہے آپ کا وقت گزر چکا ہے‘ مقبولت کے بغیر آپ الیکشن کیسے جیتیں گے؟ میاں صاحب بولے: عوام کو انصاف کرنا ہو گا‘ میری تینوں حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ پی ٹی آئی کی حکومت سے کریں اور پھر ہمیں ووٹ دیں۔ میں نے پوری دیانت داری اور محنت سے کام کیا۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا‘ بجلی کے نئے کارخانے لگائے‘ موٹرویز بنائیں اور مہنگائی کو لگام ڈال کر رکھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی کیا کارکردگی تھی؟ سوائے اپوزیشن کو جیلوں میں رکھنے کے‘ انہوں نے کیا کیا ہے؟
میاں نواز شریف خاموش ہوئے تو میں نے اگلا سوال پوچھا: جیلوں میں تو پی ٹی آئی کے لوگ بھی ہیں‘ انہیں الیکشن لڑنے تک کی آزادی نہیں ہے‘ لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی‘ ان کے امیدوارو ں کے کاغذات مسترد ہو رہے ہیں‘ کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟ میاں صاحب کے چہرے کا اضطراب بڑھ گیا‘ انہوں نے کہا: ہم نے کسی کو جیل میں نہیں ڈالا‘ یہ سب ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیا میں نے انہیں کہا تھا کہ سائفر پر غلط بیانی کریں؟ میں نے کہا تھا کہ توشہ خانہ سے حاصل ہونے والی آمدن اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کریں؟ میں نے کہا تھا کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں ختم کریں؟ میں نے کہا تھا کہ نو مئی کو جی ایچ کیو اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کریں؟ جو کچھ انہوں نے کیا‘ اب اسے بھگتیں۔ میں نے سوال دہرایا: مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن متنازع ہو رہا ہے‘ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور تاثر یہ ہے کہ یہ سب کچھ آپ کو وزیراعظم بنانے کے لیے ہو رہا ہے‘ اپنے مخالفین کو جیل میں ڈال کر آپ وزیراعظم بن بھی گئے تو کیا فائدہ؟ میاں نواز شریف قدرے غصے سے بولے: میں اور مریم نواز بھی تو 2018ء کے الیکشن کے دوران جیل میں تھے‘ ہماری پارٹی بھی توڑی گئی تھی اور امیدواروں کو آخری وقت میں الیکشن سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ آپ بتائیں‘ وہ سب کس کے لیے کیا جا رہا تھا؟ میں نے کہا: ظاہری بات ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے‘ مگر سوال پھر وہی ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ کیا وہ گزشتہ الیکشن کا بدلہ ہے؟ آپ پاکستان کے سب سے سینئر سیاستدان ہیں‘ آپ کو پی ٹی آئی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ میاں نواز شریف کے چہرے پر سنجیدگی کے آثار بڑھ گئے‘ کہنے لگے: میں ذاتی طور پر ملک میں سیاسی انتشار نہیں چاہتا‘ میری خواہش ہے کہ اگلی حکومت سیاسی لڑائیاں لڑنے کے بجائے ملک کے منہ زور مسائل پر توجہ دے مگر کیا گارنٹی ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین جیل سے باہر آکر افراتفری نہیں پھیلائیں گے؟ دھرنے اور لانگ مارچ نہیں کریں گے؟ اگر ایسا ہوا تو ملک کو بہت نقصان ہو گا۔ میں نے پوچھا: الیکشن کے بعد مریم نواز وفاق میں جائیں گی یا وزیراعلیٰ پنجاب کی امیدوار ہوں گی؟ میاں نواز شریف نے کہا: اس سوال کا جواب دینا قبل از وقت ہو گا مگر ایک بات میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں...
اس کے ساتھ ہی میرے موبائل فون کا الارم بجنے لگا اورمیں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے نیم خوابی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھا‘ میں اپنے بیڈ روم میں تھا اور میاں نواز شریف سے خواب میں ملاقات کر رہا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں