کاش ! ایسا نہ ہوتا

سیاست دان کی پہلی اور آخری محبت اس کی سیاست ہوتی ہے۔ عہدِ جوانی میں یہ محبت معلم کی طرح ہوتی ہے، درمیانی عمر میں معاون کا کا م کرتی ہے اور ضعیفی میں راحت بخشتی ہے۔ عمران خان بھی سیاست دان ہیں مگر ان کا معاملہ الٹ محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں سیاست ان کے لیے راحت نہیں رہی۔ دسمبر کی آخری سرد رات‘ آگ کے الاؤ کے قریب بیٹھ کر میں نے 2023ء کی تلخیوں، تکلیفوں اور دکھوں کے بارے سوچا تو سوچتا ہی رہ گیا۔ آنسوئوں کی ایسی جھڑی لگی کہ جیسے آنکھیں درد کا نوحہ کہہ رہی ہوں۔ الفاظ قلب کی گہرائیوں سے ایسے پھوٹ پڑے جیسے آتش دان سے آگ کے شعلے لپک رہے ہوں۔ خدایا! ہم ایک ہی سال میں کتنے برس پیچھے چلے گئے۔ سیاست دانوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی اپنے ہاتھوں سے لٹا دی۔ انا، گھمنڈ اور غصہ جیت گئے۔ دانائی، حکمت اور صبر ہار گئے۔ شعور کے حصے میں رسوائی آئی اور ضد کو پذیرائی ملی۔ ہم بطور قوم بے نقاب ہو گئے اور سیاسی تقسیم نے گالیوں کو تمغہ بنا دیا۔
آج 2024ء کی پہلی صبح ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے‘ الیکشن کے تمام مرحلے بخیر و عافیت طے ہوں تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آج جس نہج پر ہیں‘ اس میں قصور کس کا ہے؟ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کیوں ہو رہی ہے؟ جمہوریت ناکامی کے دہانے پر کیوں کھڑی ہے؟ سرکاری ادارے بے بس کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟ پارلیمانی نظام کی راہ میں رکاوٹیں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ عدالتی فیصلوں بارے شکوک و شبہات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ملک کی معیشت تباہی کا منظر کیوں پیش کر رہی ہے؟ مہنگائی اور بے روزگاری کیوں بے لگام ہو رہی ہے؟ روپے کی بے قدری کی وجوہات کیا ہیں اور صنعتوں کی تباہی کا کون ذمہ دار ہے؟ زراعت کا شعبہ آج بھی بدحال کیوں ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر پاتال سے کیوں لگے ہوئے ہیں؟ کیا کوئی ہے جو ذہن کے پردے پر نمودار ہونے والے ان سوالوں کے جواب دے سکے؟ کیا کوئی ہے جو اس تباہی و بربادی میں اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کر سکے؟ کیا کوئی ہے جو اندھیرے میں پہلی شمع روشن کر سکے؟ کیا کوئی ہے جو ملک کو مزید تباہی کی طرف لڑھکنے سے روک سکے؟
یہ کم و بیش وہی سوال ہیں جو گزشتہ سال کے پہلے روز بھی ہمارے سامنے تھے۔ اُس وقت بھی ایک امید تھی کہ وقت بدلے گا‘ اچھے دن آئیں گے۔ ہم بھی ترقی کی ڈگر پر گامزن ہوں گے، مگر افسوس! صد افسوس! ایک اور سال ضائع ہوگیا۔ آج پوری قوم کو لسانی، سیاسی اور معاشی انتہاپسندی کا سامنا ہے۔ ہم سیاسی طور پرتقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں۔ اچھے اور برے سے بے نیاز ہیں۔ غلط کو بھانپ سکتے ہیں نہ صحیح کو پرکھ سکتے ہیں۔ ہمیں تاریکی کی وحشتوں کا احساس ہے نہ روشنی کی اہمیت کا اندازہ۔ ہمیں پھول کی خوشبو سے کوئی لگاؤ ہے نہ کانٹو ں کی چبھن کا احساس۔ ہماری حالت عجیب وغریب ہو چکی ہے۔ ہم ملک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو عزیز رکھتے ہیں اور وطن کی مٹی سے بڑھ کر پیار اپنے اپنے سیاسی رہنمائوں سے کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے سے سیاسی طور پر نفرت کرنے لگے ہیں‘ ہم نے سیاسی اختلاف کو ذاتی مخالف کا نام دے دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب معاشرے میں مسلکی تفریق بہت بڑھ گئی تھی اور سماجی تعلقات کا دار و مدار اسی بنیاد پر ہوتا تھا مگر اب سیاسی تقسیم کی جڑیں اس سے بھی زیادہ گہری ہو چکی ہیں۔ ہم نے اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو چن رکھا ہے اور ان کے خلاف کوئی بات بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ سیاسی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے کہ علمی مباحثہ بھی لڑائی جھگڑے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یقین مانیں! ہم معیشت کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں، کاروباری حالات بھی بہتر ہو سکتے ہیں، روپے کی گراوٹ کا خاتمہ بھی ممکن ہے، برآمدات بھی بڑھ سکتی ہیں اور تجارتی خسارے میں توازن بھی قائم ہو سکتا ہے، آئی ٹی کا شعبہ بھی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے اور مہنگائی کا قلع قمع بھی ہو جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ سیاسی تقسیم اور اندھی تقلید کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ بطور قوم یہ ہمارا سب سے بڑا امتحان ہے۔ اگر ہم نے سیاسی تقسیم کا راستہ روک لیا تو سب کچھ ممکن ہے لیکن اگر سیاسی تقسیم کے سائے مزید گہرے ہو گئے تو حالات کو ٹھیک کرنے کی کنجی ہاتھ سے پھسل جائے گی۔
کا ش! گزرے برس سیاسی جماعتیں، سیاست دان اور فیصلہ ساز پہاڑ جیسی غلطیاں نہ کرتے۔ کاش! کسی طرح ہم 2022ء اور 2023ء کے سیاسی انتشار سے محفوظ رہتے تو آج ہمیں ان حالات کا سامنا نہ ہوتا۔ اگر عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوکر خاموشی سے گھر بیٹھ جاتے تو آج شاید دو تہائی اکثریت حاصل کرکے دوبارہ وزیراعظم بن چکے ہوتے۔ اگرعمران خان سائفر پر سیاسی کھیل نہ کھیلتے تو آج ان کے سیاسی مخالفین کو کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوتا۔ اگر بانی پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے اپنے 135 ممبرز سے استعفے نہ دلواتے تو آج شاید مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ اگر خان صاحب حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ نہ کرتے تو آج ان پر سینکڑوں مقدمات نہ ہوتے۔ اگر خان صاحب اہم تعیناتی کو متنازع بنانے کے لیے اسلام آباد کا رخ نہ کرتے تو شاید جیل ان کا مقدر نہ ہوتی۔ اگر وزیرآباد واقعے کے بعد ہوشمندی کا مظاہرہ کیا جاتا تو شاید پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتی۔صرف 2022ء ہی نہیں‘ پی ٹی آئی نے 2023ء میں بھی نہایت غیر دانشمندانہ فیصلے کیے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ کوئی خان صاحب سے پوچھے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کی انہیں کیا ضرورت تھی اور اس سے کیا حاصل ہوا؟ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقینا آج سیاسی فضا بالکل مختلف ہوتی۔ جب عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں عدالت کے حکم پر پولیس اور رینجرز گرفتار کرنے آئے تھے تو وہ انسانی ڈھال بنانے کے بجائے گرفتاری دے دیتے تو کیا جانا تھا؟ کاش! پی ٹی آئی ورکرز انسانی ڈھال کا کام کرتے ہوئے پولیس کے مقابلے پر نہ آتے، پولیس پر پتھراؤ نہ کرتے۔ کاش ! نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پُرتشدد واقعات رونما نہ ہوتے، جی ایچ کیو پر حملہ نہ ہوتا اور کورکمانڈر کا گھر جلایا نہ جاتا۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے اکابرین پارٹی کو خیرباد نہ کہتے۔ آج انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ بھی ملتی اور جلسے جلوس کرنے کی اجازت بھی ہوتی۔ امیدوار بہ آسانی کاغذات جمع کرواتے اور ایم پی او کے تحت گرفتاریاں بھی نہ ہوتیں۔
سرِدست صورتحال یہ ہے کہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی، حماد اظہر، علی امین گنڈاپور، مراد سعید، شیخ رشید، عثمان ڈار کی والدہ، اعظم سواتی، زلفی بخاری، مونس الٰہی، قاسم سوری اور فردوس شمیم نقوی سمیت پی ٹی آئی کے بیسیوں امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں۔ اب یقینا پی ٹی آئی کے امیدوار اپیلوں میں جائیں گے مگر ایک بات طے ہے اگر نو مئی کا سانحہ نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت یہ دشواریاں دیکھنے کو نہ ملتیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت الیکشن لڑنے سے پہلے ہی انتخابات جیت چکے ہوتے اور حکومت بنانے کی تیاریوں میں مشغول ہوتے مگر اب وقت کا پہیہ آگے بڑھ چکا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلے منظر نامے میں پی ٹی آئی کہیں نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں