کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں

جمہوریت کے کچھ خاص تقاضے ہوتے ہیں مگر خواہشات کے بے لگام گھوڑے اپنی مرضی اور منشا سے چلتے ہیں۔ انہیں کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوکنے ہی کی جرأت کر پاتا ہے۔ خواہشات جتنی بے قابو ہوتی ہیں انسان کو اتنا ہی خوفزدہ بھی رکھتی ہیں، پھر اسی خوف کو بے اثر کرنے کے لیے نت نئی حسرتوں کے در کھولے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہماری مروجہ سیاست میں سیاست دانوں کی زندگی کاپہیہ چلتا ہے۔
جمہوریت کا حسن ایک شخص‘ ایک ووٹ اور ایک امیدوار‘ ایک حلقہ ہے مگر ہمارے سیاست دانوں پر ہار کاخوف اس قدر غالب آ چکا ہے اور طاقت کے گھوڑے کی سواری کی خواہش اس قدر بے قابو ہوتی ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو‘ دو، تین‘ تین حلقوں سے الیکشن کے دنگل میں اترتے ہیں اور بعض سیاست دان تو ایسے ہیں جو پانچ سے سات حلقوں سے انتخابی میدان میں اترنے کو بھی معیوب نہیں سمجھتے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ ہار گئے اور ان کی جگہ کوئی اور منتخب ہو جائے تو ان کی پارٹی اور ذاتی مقبولیت میں کمی آ جائے گی جبکہ یہ ان کے کیریئر پر بھی دھبہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان خوفزدہ رہتے ہیں اورایک سے زائد حلقوں سے امیدوار بن کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
الیکشن کی آمد آمد ہے اور کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو چکے ہیں۔ میاں نوازشریف، بلاول بھٹو، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، چودھری پرویز الٰہی، شہباز شریف، مریم نواز، شیخ رشید، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک سمیت درجنوں سیاستدان ایک سے زائد حلقوں میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں انہیں ہار سے اس قدر ڈر کیوں لگتا ہے؟ صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑتے ہوئے ان کے ہاتھ پیر کیوں پھول جاتے ہیں؟ کوئی عام سیاسی رہنما ایسا کرے تو سمجھ میں آتا ہے مگر جو ''مقبول ترین‘‘ ہونے کے دعویدار ہوں‘ ان کو ایسا کرنا زیب نہیں دیتا۔ ان سیاستدانوں کو آخر کس بات سے ڈر لگتا ہے؟ کوئی ہے جو جواب دے سکے؟ قومی خزانے کے بے دریغ ضیاع کا حساب کون دے گا؟ آخر ہمارے سیاستدانوں کے اپنے رویے جمہوری کیوں نہیں ہیں؟
بھارت بھی ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا۔ 1996ء تک وہاں دو سے زائد حلقوں میں الیکشن لڑنے کی آزادی تھی مگر پھر قانون سازی کی گئی اور الیکشن ایکٹ 1951ء کے سیکشن 33 میں ترمیم کر کے زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ بھارت کے عوام اور الیکشن کمیشن اس پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں نریندر مودی نے دو حلقوں سے الیکشن لڑا تو اس پر اپوزیشن کی جانب سے خوب واویلا کیا گیا۔ عوام نے جی بھی کر ان پر تنقید کے نشتر چلائے۔ کچھ لوگ پٹیشن لے کر بھارتی سپریم کورٹ بھی چلے گئے کہ دو حلقوں سے الیکشن لڑنا جمہوریت کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی نہیں‘ الیکشن کمیشن آف انڈیا اپنی حکومت کو پانچ بار یہ تجویز دے چکا ہے کہ اب دوبارہ قانون سازی کی جائے اور دو کے بجائے صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر قانون بنا دیا جائے کہ ضمنی الیکشن کا خرچہ دو حلقوں سے جیتنے والا امیدوار اٹھائے گا۔ گو کہ ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور یہ ایک تجویز ہی ہے مگر ہمارے ہاں تو اس قسم کی کوئی تجویز بھی آج تک سامنے نہیں آئی۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم جمہوری اقدار پر عمل پیرا ہونے کا سوچتے تک نہیں۔ نجانے ہمیں اس بات کا افسوس کیوں نہیں کہ ہم اسی سبب باقی ماندہ دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ صرف بھارت ہی نہیں‘ جرمنی، امریکہ اور جاپان میں بھی اس قسم کا قانون موجود ہے جبکہ انگلینڈ، کینیڈا، فرانس، آسٹریلیا اور روس میں سیاستدان کوئی قانونی بندش نہ ہونے کے باوجود اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک ہی حلقے سے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ کاش! ہمارے سیاستدان بھی ایسی سوچ کے حامل ہوتے۔ کاش! انہیں یہ ادراک ہوتا کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ کا ش! اتنی سے بات انہیں سمجھ آ سکتی۔
ایسا نہیں کہ پہلی بار سیاستدان ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چار حلقو ں سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور عمران خان بھی اس دوڑ میں شامل رہے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں میاں نوازشریف نے دو اور عمران خان نے پانچ حلقوں میں قسمت آزمائی کی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان ایک بار پھر پانچ حلقوں سے میدان میں اترے تھے اور شہبازشریف نے چار حلقوں سے الیکشن لڑا تھا۔ میاں شہباز شریف صرف لاہور ہی سے جیت سکے تھے مگر عمران خان پانچوں سیٹیں جیت گئے تھے اور پھر انہیں چار حلقے چھوڑنا پڑے تھے۔ سب سے بڑا مذاق 2022ء میں دیکھنے کو ملا جب عمران خان نے ممبر قومی اسمبلی ہونے کے باوجود آٹھ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارا قانون اس پر بھی قدغن نہیں لگاتا کہ آپ اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود اسی اسمبلی کا انتخاب کسی اور حلقے سے نہیں لڑ سکتے۔ نجانے ہمارے سیاست دان اس بابت قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟ ویسے اسے سادگی کی انتہا ہی کہیں گے کہ جو قانونی قدغن نہ ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ انہی سے ہم قانون سازی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سے لے کر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے لے کر جے یو آئی (ایف) تک سبھی سیاسی جماعتیں اس حمام میں یکساں ہیں۔
کس کو قاتل میں کہوں‘ کس کو مسیحا سمجھوں
اگرچہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے بے شمار معاملات پر عدلیہ کی جانب سے دخل اندازی کی گئی حتیٰ کہ سوموٹو نوٹس بھی لیے گئے مگر یہ معاملہ قومی خزانے کے بے دریغ استعمال اور مفادِ عامہ کے دائرۂ کار میں آنے کے باوجود ابھی تک اوجھل ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے سیاستدانوں کو ذرا سا بھی ادراک نہیں کہ ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے اور نقصان ملکی خزانے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ چلیں‘ اسی معاملے کو مروجہ ضابطے کے تحت دیکھتے ہیں۔ دو‘ تین حلقوں سے الیکشن لڑنے کی آزادی ہماری سیاسی جماعتوں میں تمام لیڈران کو یکساں میسر نہیں ہوتی بلکہ صرف سیاسی جماعت کے بڑے لیڈر ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن ایک سے زائد حلقوں سے امیدوار بن سکتے ہیں تو ان کی پارٹی کے دیگر امیدوار کیوں نہیں؟ ویسے تو ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈر اگر اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو یہ سہولت باقیوں کو کیوں نہیں دی جاتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک حلقے میں الیکشن پہ قومی خزانے سے لگ بھگ تین کروڑ روپے سے زائد کا خرچ ہوتا ہے اور امیدواران الیکشن میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کا تو حساب ہی نہیں ہے۔ ہر بار عام انتخابات کے بعد بیس سے تیس حلقوں میں صرف اسی وجہ سے ضمنی الیکشن ہوتے اور اربوں روپے ضائع ہو جاتے ہیں۔ دو‘ دو حلقوں میں امیدوار ہونے سے امیدواروں کو خود بھی اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کس حلقے میں انہوں نے کیا وعدہ کرنا ہے۔ کہاں ہسپتال بنانا ہے اور کہاں کالج۔ کہاں یونیورسٹی بنانی ہے اور کہاں سڑکوں کا جال بچھانا ہے۔ سیاستدانوں کے اس عمل سے ووٹر بھی کنفیوز رہتا ہے۔ اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ امیدوار جیت کر یہ حلقہ اپنے پاس رکھے گا بھی یا نہیں۔ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ اس شخص کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔ اس حوالے سے کرپشن کا تاثر بھی ابھرتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ذاتی فائدے اور نقصان سے بالاتر ہوکر سیاستدانوں کو ملک و قوم کا سوچناچاہیے۔ انہیں اس بابت ضرور قانون سازی کرنی چاہیے اور ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے کی ممانعت ہونی چاہیے۔ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور بار بار قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا ازالہ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگر اب بھی ہوش سے کام نہ لیا تو اس سے ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں