ہیمو بقال اور پی ٹی آئی

مرہٹوں کے سب سے کامیاب سپہ سالار باجی راؤ کا مشہور مقولہ ہے: ''ہر جنگ کا نتیجہ تلواروں سے نہیں نکلتا۔ تلوار سے زیادہ دھار چلانے والے کی سوچ میں ہونی چاہیے‘‘۔ ضد، غصہ اور بے صبری اگر حکمت، ہوش اور فہم و فراست پر غلبہ پا لیں تو شکست یقینی ہو جاتی ہے۔ بہادری اور حماقت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا اور کبھی کبھی چھوٹی سی غلطی عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔ پانی پت کی دوسری لڑائی 1556ء میں سوریوں کے جنرل ہیمو بقال اور مغلوں کے سپہ سالار بیرم خان کے مابین لڑی گئی۔ ہیمو بقال کے پاس بیرم خان سے دگنی فوج تھی‘ توپ خانہ، ہاتھی اور گھڑسوار بھی زیادہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ طاقت کے زعم میں مبتلا ہو گیا اور اسے اپنی جیت یقینی نظر آنے لگی۔ نومبرکے مہینے میں پانی پت کا میدان سجا۔ ہیمو بقال بغیر کسی حفاظتی ڈھال کے‘ ہاتھی پر سوار ہو گیا۔ جنگ شروع ہوئی تو سوریوں کی فوج نے مغل سپاہیوں کو دن میں تارے دکھا دیے مگر پھر ایک مغل تیر انداز نے ہاتھی پر بیٹھے ہیمو پر نشانہ لگایا۔ تیر ہیمو کی آنکھ پر لگا اور آر پار ہوگیا۔ وہ بے ہوش ہو کر ہاتھی سے نیچے گر پڑا۔ اس کی فوج میں بددلی پھیل گئی اور وہ تتر بتر ہو کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلی۔ ہیمو کو گرفتار کر کے شہنشاہِ ہند جلال الدین محمد اکبر کے سامنے پیش کیا گیا۔ اکبر ہیمو کو معاف کر دینا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ سناتا‘ بیرم خان نے آگے بڑھ کرہیمو کا سر قلم کر دیا۔ ہیمو بقال کی موت نے ثابت کر دیا کہ حفاظتی ڈھال کے بغیر ہاتھی پر سوار ہونا سراسر ایک حماقت تھی۔ اسے جذبات کے بجائے ہوش اور ضدکی جگہ دانائی سے کام لینا چاہیے تھا۔ ہیمو اپنی چھوٹی سی غلطی کے باعث جیتی ہوئی جنگ ہار گیا۔ اگر وہ یہ غلطی نہ کرتا تو تاریخ شاید اسے شیر شاہ سوری کی طرح ایک عظیم جرنیل کے طور پر یاد رکھتی۔
پاکستان کی تاریخ بھی ہیمو بقالوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں کی غلطیوں کی وجہ سے معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچی، غیر ملکی قرضوں میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوا، مہنگائی اور بیروزگاری کا گراف بلند ہوا، غریب اور متوسط طبقے کا جینا محال ہو گیا۔ ستم بالا ستم یہ کہ ہم نے سات دہائیوں بعد بھی کچھ نہیں سیکھا۔ جو غلطیاں ہم نے پہلے دس سالوں میں کیں‘ وہی غلطیاں آج بھی دہرا رہے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کی جنگ نے ملک کو بدحال کر دیا ہے۔ کرسی اور اختیار کے خمار نے حکمرانوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک چھین لی ہے۔ کون جانے ملک کے حالا ت کب تک بدحالی کا شکار رہیں گے، کون جانے زراعت اور صنعتوں کی سانسیں کب بحال ہوں گی اور کون جانے کہ اس ملک کو سیاسی، معاشرتی اور معاشی استحکام کب نصیب ہو گا۔ ایک کے بعد ایک غلطی‘ آخر کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ آخر کب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے بجائے رینگنے پر مجبور رہیں گے؟
اس میں کیا شبہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے جاری سیاسی اضطراب نے معاشی بے چینی کو بڑھاوا دیا ہے۔ بے یقینی اور اضطراب کا ایک صحرا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ الیکشن آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت‘ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی تنقید اور مخالفین فیصلے کو سراہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں عدالت سے انصاف کی امید تھی مگر ایسا نہیں ہو سکا‘ ہم الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے اور آزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کودیکھنے کے دو زاویے ہیں۔ اول: اگر قانونی توضیحات اور الیکشن کمیشن کے موقف کو دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے لیکن اگر دوسری جانب اس فیصلے کی ٹائمنگ کو دیکھا جائے تو اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے‘ ایسے وقت پر جب پولنگ ڈے میں چار ہفتوں سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے‘ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لینے سے پورا الیکشن متنازع ہو جائے گا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تحریک انصاف جتنی بڑی سیاسی جماعت ہے‘ وہ اتنی ہی زیادہ سیاسی غلطیاں کیوں کرتی ہے؟ پی ٹی آئی میں اتنے زیادہ ہیمو بقال کیوں ہیں؟ یہ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے عقل اور شعور سے کام کیوں نہیں لیتے؟ یہ آئین اور قانون کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟ پی ٹی آئی کے اکابرین فیصلہ کرتے وقت انجام کی پروا کیوں نہیں کرتے؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جماعت اسلامی کوسوا‘ باقی کسی بھی سیاسی جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام‘ اس حمام میں سبھی جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ پی ٹی آئی سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے موجودہ انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی گزشتہ انتخابات کی طرح سمجھا اور الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرایا۔ دو سال میں دو بار الیکشن کرائے اور دونوں بار عجلت سے کام لیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پی ٹی آئی کو اتنی جلدی کس بات کی تھی؟ اس نے لاپروائی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ چلیں2021ء میں نہ سہی‘ 2023ء میں ہی ڈھنگ سے الیکشن کرا لیے جاتے۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس بار پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور حالات نارمل نہیں ہیں۔ ایسے وقت پر‘ جب الیکشن کمیشن سمیت اداروں کے ساتھ مخاصمت عروج پر ہو‘ کسی طور بھی لاپروائی نہیں برتی جا سکتی مگر اتنی سی بات بھی پی ٹی آئی کے اکابرین کو سمجھ نہیں آسکی۔ سب کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر الیکشن نہیں سلیکشن کی۔ عمران خان نے گوہر خان کو نامزد کیا اور وہ بلامقابلہ پارٹی چیئرمین بن گئے۔ اگر رسمی طور پر ہی سہی‘ ڈھنگ سے انٹرا پارٹی الیکشن کرا لیے جاتے تو اس میں کیا مضائقہ تھا؟ عمران خان کے نامزد نمائندے کے سامنے اکبر ایس بابر یا کوئی بھی پارٹی ورکر کیسے جیت سکتا تھا؟ پس پردہ جو بھی ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی غلطی اور عجلت کے باعث یہ دن دیکھنے کو ملا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے مگر دوسری جانب عام انتخابات کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی کوئی حیثیت نہیں۔ سپریم کورٹ معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھتی تو شاید الیکشن متنازع ہونے سے بچ جاتے۔ پی ٹی آئی کو جرمانہ کیا جا سکتا تھا، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی دوبارہ ہدایت کی جا سکتی تھی اور زیادہ سے زیادہ‘ چیئرمین پی ٹی آئی کو وقتی طور پر عہدے سے الگ کیا جا سکتا تھا۔ مگر انتخابی نشان واپس لینے سے پورا الیکشن ہی متنازع ہو جائے گا۔ اب پی ٹی آئی ایک نیا بیانیہ بنائے گی اور عدلیہ کے فیصلے کی دھول اُڑائے گی۔ ججز پر الزامات کا سلسلہ ابھی سے شروع گیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں کی جا رہی ہیں۔ انتخابی نشان واپس لینے سے اَن پڑھ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے میں بہت دقت پیش آئے گی۔ پی ٹی آئی نامی جماعت کا پارلیمانی وجود ختم جائے گا اور جیتنے والے امیدوار اسمبلیوں میں آزاد متصور ہوں گے، وہ وزیراعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں پارٹی پالیسی کی پابندی کے مجاز نہیں ہوں گے جبکہ بجٹ سیشن، اعتما د اور عدم اعتماد کی تحاریک کے دوران بھی اپنی مرضی سے ووٹ ڈالیں گے‘ پارٹی ڈسپلن کی شق ان پر لاگو نہیں ہو گی۔ سب سے بڑھ کر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی انہیں نہیں ملیں گی کیونکہ قانون کے مطابق مخصوص نشستیں صرف ایک نشان پر الیکشن لڑنے والی رجسٹرڈ پارٹی ہی کو مل سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر‘ الیکشن سے قبل ہی پی ٹی آئی اگلی حکومت بنانے کی ریس سے باہر ہو گئی ہے جو کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو عدالتِ عظمیٰ کو اپنے فیصلے کے مضمرات پر ضرور سوچ بچار کرنی چاہیے تاکہ الیکشن متنازع ہونے سے بچ جائے۔ اس و قت سوال ہار‘ جیت کا نہیں بلکہ الیکشن کی شفافیت کا ہے۔ اگر پی ٹی آئی میں ہیمو بقالوں کی کمی نہیں تو عدلیہ کو بیرم خان کی طرح نہیں بلکہ جلال الدین اکبر کی طرح سوچنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں