ملک کی فکر کریں

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ کی الجھنیں مختلف ہیں اور عوام کا دکھ درد بالکل الگ۔ اربابِ بست و کشاد کو پی ٹی آئی کے چیئرمین کے مقدمات کی فکر ہے، میاں نواز شریف کی واپسی اس وقت ان کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے اور الیکشن میں التوا پر پہروں سوچ بچار کی جا رہی ہے جبکہ عوام کی تکالیف اور ہیں۔ انہیں معیشت کی بدحالی کھائے جا رہی ہے، مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے، روٹی‘ کپڑا اور مکان کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ اس بار عوام کے ساتھ جو شدید ظلم ہوا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ہی جھٹکے میں بجلی اتنی مہنگی ہو گئی کہ متوسط طبقے اور مڈل کلاس کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ آتش فشاں جو کافی عرصے سے دہک رہا تھا‘ اچانک پھٹ پڑا۔ اب شہر‘ شہر احتجاج ہو رہا ہے، لوگ گرڈ سٹیشنز اور بجلی کے ترسیلی محکموں کے دفاتر کا گھیراؤ کر رہے ہیں، سٹرکیں بند کی جا رہی ہیں اور بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ خاکم بدہن! صورتحال سول نافرمانی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات کا تدارک کیسے کیا جائے گا؟ کیا نگران حکومت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا مقابلہ کر سکے؟ چھوٹے چھوٹے مظاہروں کو بڑی احتجاجی تحریک میں ڈھلنے سے روک سکے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا نگران حکومت کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دے سکے؟ زیادہ نہیں تو کم از کم تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ہی ٹیکسز کے گرداب سے نکال لیا جائے‘ اس میں کیا قباحت ہے؟
مڈل کلاس اور غریب طبقے کا خیال کس کو ہے؟ سب کی نظریں تو پی ٹی آئی کے چیئرمین پر لگی ہوئی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا معطل کر دی ہے۔ انہیں ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کے عوض اس کیس میں رہائی کا پروانہ دے دیا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ اٹک جیل سے انہیں رہا کیا جائے گا یا نہیں؟ اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے انہیں سائفر گمشدگی کیس میں اٹک جیل ہی میں زیرِ حراست رکھنے اور آج (بدھ) کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل ہوئی ہے‘ قانونی ماہرین کے مطابق‘ ان کی نااہلی تاحال برقرار ہے اور وہ تب ختم ہو گی جب اپیل کا فیصلہ آئے گا۔ اگر وہ اپیل میں بری ہو گئے تو عملی سیاست میں حصہ لے سکیں گے اور اگر بریت نہیں ہوتی تو پھر پانچ سال تک نااہلی کی سزا برقرار رہے گی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اب اگر کسی اور کیس میں انہیں سزا نہیں سنائی جاتی تو نااہلی کی یہ سزا گھر بیٹھ کر کاٹنا پڑے گی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز، رہنما اور کپتان کی فیملی کے افراد اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے خوش ہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ جب خان صاحب کو عدالتی فیصلے بارے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ملے جلے ردِعمل کا اظہار کیا۔ وہ خوش بھی تھے اور نہیں بھی۔ اس کے بعد ان کی اہلیہ اور ہمشیرہ نے انہیں مبارکباد دی تو وہ مسکرا دیے۔
سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور عدالتِ عظمیٰ پر بھی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کو ڈکٹیٹ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض سیاسی بیان ہے‘ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ سزا معطلی کا فیصلہ جلد بازی میں سنایا گیا ہے‘ ایون فیلڈ کیس میں میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفد ر کی سزا دو ماہ‘ چار دن کے بعد معطل کی گئی تھی۔ وہ 15 جولائی 2018ء کو گرفتار ہوئے تھے اور 29 ستمبر کو انہیں رہائی ملی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں مقدمات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال کی سزا ہوئی اور میاں نواز شریف کو گیارہ سال جبکہ مریم نواز کو سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالتی فیصلوں کے مطابق سات سال سے کم سزا والے مجرموں کو ضمانت مل جاتی ہے اور سزا بھی معطل ہو جاتی ہے مگر سات سال سے زیادہ سزا والے مجرموں کی ضمانت یا سزا کی معطلی ذرا پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس قسم کے کیسز کو تفصیل میں سنا جاتا ہے اور پھر ہی کوئی فیصلہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میاں نواز شریف کی سزا معطل ہونے میں وقت لگ گیا۔ ہاں البتہ! دیگر عوامل کو بھی مائنس نہیں کیا جاسکتا۔ اُن دنوں جو ماحول بنا ہوا تھا اور جس طرح مقدمات کی غیر سیاسی افراد پیروی کرتے تھے‘ وہ ایک الگ کہانی ہے اور اب سامنے آ چکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل سے رہا کیا جائے گا یا نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ سردست ایسا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ سائفر کیس میں وہ پہلے ہی گرفتار ہیں، نو مئی کے مقدمات اور القادر ٹرسٹ کیس میں بھی ان کی گرفتاری متوقع ہے اس لیے فوری رہائی کے امکانات کم ہیں۔ جیل سے رہائی کے لیے ان سبھی مقدمات میں ضمانت لینا پڑ ے گی‘ ورنہ وہ اٹک جیل میں ہی رہیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی اور گرفتاری‘ اب اربابِ حل و عقد کا یہی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ مہنگائی ہے‘ اسے سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس ہوشربا مہنگائی میں اسے ریلیف دیا جائے۔ بجلی کی قیمتیں کم کی جائیں اور پٹرول‘ ڈیزل کی گرانی کے عذاب سے بچایا جائے۔ کھانے پینے کی اشیا سستی ہوں تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو بجلی کے بلوں کا ایشو اب بہت سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ ایسے ہی بل جلاتے رہے تو سول نافرمانی کی صورتحال پیدا ہو جائے گی جو نگرا ن حکومت کے لیے دردِ سر بن جائے گی۔ اس لیے نگرا ن حکومت کو چاہیے کہ وہ جامع پالیسی بنائے کیونکہ یہ ایک‘ دو ماہ کی بات نہیں ہے۔ بجلی کے شعبے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سرکلر ڈیٹ پچیس ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، تقسیم کار کمپنیوں کا خسارہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، بجلی چوری کی روک تھام کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ جتنی کرپشن اس محکمے میں ہے اور جتنا سالانہ بنیادوں پر ان محکموں کو نقصان ہوتا ہے‘ اس کا سارا خمیازہ عوام کو براہِ راست بھگتنا پڑتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کہتے ہیں کہ گزشتہ سال بجلی کے محکموں کے ایک لاکھ 89 ہزار ملازمین نے 8 ارب 19کروڑ روپے کی بجلی مفت استعمال کی جبکہ سرکاری ملازمین نے ایک سال میں 34 کروڑ 46 لاکھ یونٹس سے زائد بجلی مفت استعمال کی۔ بدانتظامی کے باعث گزشتہ 15ماہ میں 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ دوسری طرف تقسیم کار کمپنیوں کاخسارہ آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ پیسکو کا خسارہ 154 ارب 50 کروڑ روپے، میپکو کا خسارہ 75 ارب، لیسکو کا خسارہ 72 ارب اور آئیسکو کا خسارہ 21 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ حکومت کب اصلاحات کی جانب قدم بڑھائے گی؟ کب مفت بجلی کی سہولت بند کی جائے گی؟ کب اشرافیہ سے بجلی کے بلوں کی وصولی کی جائے گی؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ تیس برس میں اصلاحات کیوں نہ کی گئیں؟ سرکلرڈیٹ کو خطرناک حد تک کیوں بڑھنے دیا گیا؟ تقسیم کار کمپنیوں کا خسارہ کیوں نہ روکا گیا؟ ڈسٹری بیوشن لائنوں کو اَپ گریڈ کیوں نہ کیا گیا؟ حکومتوں کی نااہلی کی سزا عوام کیوں بھگتیں؟ بجلی چوری کا ملبہ اُن افراد پر کیوں ڈالا جاتا ہے جو پورا بل ادا کرتے ہیں؟ اب بھی وقت ہے کہ حکومت عوام کی فکر کرے اور آئی ایم ایف سے اس معاملے پر مذاکرات کیے جائیں۔ اگر حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے جس کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہو گا۔ خدارا! ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں