اَت خدا دا ویر

ویسے تو پانی پت کی تینوں لڑائیاں ہی برصغیر کی تاریخ میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں مگر دوسری لڑائی کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں براہ راست بادشاہ شریک نہیں ہوئے۔ 1556ء میں لڑا گیا پانی پت کا دوسرا معرکہ سوریوں کے جنرل ہیموں بقال اور مغلوں کے سپہ سالار بیرم خان کے مابین لڑا گیا۔ ہیموں بقال لگ بھگ دو لاکھ فوج لے کر آگرہ سے نکلا اور اس نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ اس کی اطلاع بیرم خان‘ جو اس وقت اکبر کی کفالت کر رہا تھا‘ کو ہوئی تو وہ فوج لے کر دہلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ دونوں فوجوں کا پانی پت کے مقام پر آمنا سامنا ہوا۔ ہیموں بقال کے پاس بیرم خان سے دگنی فوج تھی۔ توپ خانہ، ہاتھی اور گھڑ سوار بھی زیادہ تھے اس لیے ہیموں بقال کو اپنی جیت یقینی نظر آ رہی تھی۔ اس جنگ سے چند ہفتے قبل ہیموں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بہت بڑا سیلاب آ رہا ہے جس میں اس کا ہاتھی ڈوب رہا ہے اور ایک مغل سپاہی اس کی گردن میں زنجیر ڈال کر اس کو گھسیٹ رہا ہے۔ ہیموں بقال نے یہ خواب اپنے نجومیوں، دانشوروں اور درباریوں کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کومغل فوج سے شکست ہو گی لیکن ہیموں بقال نہیں مانا۔ اس نے کہا کہ میری تعبیر یہ ہے کہ حقیقی زندگی میں میرے ساتھ اس خواب کے الٹ ہو گا اور میں فتح یاب ہوں گا۔ جنگ شروع ہونے سے دو دن پہلے پانی پت کے میدان میں طوفان آ گیا اور زوروں کی بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے ہیموں بقال کا ایک ہاتھی ہلاک ہو گیا۔ یہ وہی ہاتھی تھا جس پر بیٹھ کر ہیموں نے میدانِ جنگ میں جانا تھا۔ اسے ایک بار پھر سمجھایا گیا کہ وہ جنگ سے گریز کرے کیونکہ یوں ہاتھی کا مرنا بہت بڑا اشارہ ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے مگر ہیموں نے کسی کی بھی بات نہ سنی۔ وہ اپنی ضد پر اڑا رہا کیونکہ اسے بھی شیر شاہ سوری کی طرح مغل فوجوں کو ہرا کر پورے ہندوستان پر قبضہ کرنا تھا۔ ہیموں بقال کے خواب اس کی آنکھوں سے بڑے تھے، وہ ہر صورت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکمت و دانائی اور فہم و فراست کہیں پیچھے رہ گئی اور ضد، بے صبری اور جذبات اس پہ حاوی ہو گئے۔ نومبر 1556ء میں پانی پت کا میدان سجا۔ سوریوں کی فوج نے مغل فوج کو دن میں تارے دکھا دیے مگر پھر ایک مغل تیر انداز نے ہاتھی پر بیٹھے ہیموں پر نشانہ لگایا۔ تیر ہیموں کی آنکھ پر لگا اور آر پار ہو گیا۔ وہ بے ہوش ہو کر ہاتھی سے گر پڑا۔ اس کی فوج میں بددلی پھیل گئی اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگ گئی۔ ہیموں کو گرفتار کرکے شہنشاہ اکبر کے سامنے لایا گیا جہاں بیرم خان نے ہیموں کا سر قلم کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہیموں بقال اپنے مشیروں کی بات مان لیتا تو کیا اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا؟ اگر وہ جذبات کے بجائے ہوش اور ضد کی جگہ دانائی سے کام لیتا تو پھر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا؟ اگر وہ خواب کی تعبیر کو اپنی خواہش کی نظر سے نہ دیکھتا تو مغل فوج فتح مند ہو سکتی تھی؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہیموں بقال کو اس کی ضد لے ڈوبی۔ ملکی سیاست پر اس واقعے کا انطباق کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ تصادم سے گریز کا مشورہ دینے والے بہت تھے مگر کچھ لوگوں کو ان کی ضد اور انا لے ڈوبی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کے معاملے پر ''کھیلنے‘‘ کا فیصلہ کیا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے اسے جلسوں میں نہ لہرائیں، اسے صحافیوں کو مت دکھائیں، سائفر پر بیانیہ نہ بنائیں، سائفر کی کاپی گھر مت لے کر جائیں (جسے بعدازاں انہوں نے گم کردیا) اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں بگاڑ مت پیدا کریں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ الٹا نصیحتیں کرنے والوں سے بدظن ہو گئے اور انہیں اپنا مخالف سمجھنے لگے۔ اب انہیں سائفر گمشدگی کیس کا سامنا ہے۔ وہ اسی کیس میں جیل میں قید ہیں۔ ایف آئی اے نے چالان میں انہیں قصوروار ٹھہرایا ہے۔ چند دنوں میں ان پر فردِ جرم عائد کر جائے گی اور پھر ہوسکتا ہے انہیں ایک ماہ میں سزا بھی سنا دی جائے۔ اس کیس میں دو سال سے چودہ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ دیکھئے عدالت کس نتیجے پر پہنچتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کا اپنا پرنسپل سیکرٹری ہی ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے۔ اگر اس وقت خان صاحب اپنے ساتھیوں، مشیروں اور دانشوروں کی بات عمل پر کرتے تو انہیں یقینا آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہ تھما۔ وہ ایک کے بعد ایک غلطی کرتے رہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو انہیں ایک بار پھر سمجھایا گیا کہ یہ غلطی مت کریں مگر انہوں نے 135 ایم این ایز سے استعفے دلوا دیے۔ بعد ازاں پی ڈی ایم حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی من مانی شروع کر دی۔ جب پی ڈی ایم نے اپنی مرضی کی قانون سازیاں کیں تو پھر خان صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر تب تک پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ مت کریں۔ ایک آئینی حکومت کو دھرنوں کے ذریعے گرانے کی آئین اجازت نہیں دیتا مگر انہوں نے 25 مئی 2022ء کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ وہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور ڈی چوک میں درخت جلائے گئے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین پر مقدمات بنائے گئے جو آج تک ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ یہی نہیں‘ خان صاحب اور ا ن کی جماعت نے جس طرح قمر جاوید باجوہ کے خلاف مہم چلائی، انہیں میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دیے، اس پر بھی سمجھانے والوں نے سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ ارشد شریف کی شہادت کے معاملے پر جس طرح زہر افشانی کی گئی، سوشل میڈیا پر جو پروپیگنڈا کیا گیا، ایک بار پھر انہیں ادراک کرایا گیا کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں مگر سابق وزیراعظم ضد کی بانسری بجاتے رہے اور منع کرنے کے باوجود منع نہیں ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اہم تعیناتی کو متنازع بنانا شروع کیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اور لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔ وفاقی حکومت گرانے کے لیے دوسری بار لانگ مارچ کیا گیا مگر بدقسمتی سے ان کے قافلے پر فائزنگ ہو گئی اور خان صاحب زخمی ہو گئے۔ اب ان کے پاس دو ہی محاذ تھے؛ ایک اہم تعیناتی رکوانا اور دوسرا‘ حاضر سروس آفیسر کے خلاف بیان بازی کرنا۔ انہیں بار بار تنبیہ کی گئی مگر خان صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ یہاں پر بھی نہیں رکا۔ انہوں نے راولپنڈی کے جلسے میں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا۔ انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ ایسا کرنے سے گریز کریں، اس سے وفاقیت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے مگر انہوں نے کسی نصیحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دونوں اسمبلیاں توڑ دیں۔ پرویز الٰہی انہیں سمجھانے والوں میں سرفہرست تھے لیکن ان کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
مشہور کہاوت ہے کہ ننانوے دن بلی دودھ پی سکتی ہے مگر سوویں دن مالک کی گرفت میں آ ہی جاتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے بعد ''ریڈ لائن‘‘ کا بیانیہ بنایا گیا۔ زمان پارک کے باہر عوام کا پہرہ لگایا گیا۔ عدالت کے حکم پر پولیس گرفتار کرنے آئی تو اس پر پتھر اور پٹرول بم برسائے گئے۔ مزاحمت کی گئی، ریاست کو آنکھیں دکھائی گئیں اور عوام کو مشتعل کیا گیا۔ جب نو مئی کو خان صاحب گرفتار ہوئے تو جو پُرتشدد واقعات ہوئے وہ ان کی اشتعال انگیز تقریروں ہی کا نتیجہ تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پوری پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، پی ٹی آئی سے مزید دو پارٹیاں نکل چکی ہیں، کچھ اہم رہنما مفرور ہیں اور باقی جیلوں میں بند ہیں۔ عوام کی جانب سے کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور صدر‘ تینوں پابندِ سلاسل ہیں جبکہ پارٹی بے یار و مدگار ہے اور اسے کوئی سمت نظر نہیں آ رہی۔ اگر خان صاحب ہیموں بقال کے نقشِ قدم پر نہ چلتے اور ضد، انا اور غصے کے اسیر نہ ہوتے تو حالات یقینا مختلف ہوتے۔ وہ احتجاجی سیاست کے بجائے صرف آرام کرتے اور جس طرح کی شہباز حکومت کی کارکردگی تھی‘ وہ زمان پارک یا بنی گالا ہی میں بیٹھے رہتے تو بھی دو تہائی اکثریت لے کرواپس آ جاتے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ''اَت خدا دا ویر‘‘۔ شاید خان صاحب بھی اسی کا شکار ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں