اگر اب بھی الیکشن نہ ہوئے تو…؟

جیسے جیسے وقت کروٹ بدل رہا ہے‘ بے چینی، بے قراری اور اضطرات دوچند ہو رہے ہیں۔ سیاسی کشمکش بڑھ رہی ہے اور معاشی بدحالی پنجے گاڑتی چلی جا رہی ہے۔ آئین کی پامالی کا سفر بھی جاری ہے کیونکہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان تادمِ تحریر نہیں کیا گیا۔ نجانے کیوں طاقت کے خمار میں ہم بھول جاتے ہیں کہ وقت گزر جاتا ہے مگر ''کارنامے‘‘ تاریخ میں رقم ہو جاتے ہیں۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد ہی سہی مگر اپنے کیے کا حساب دینا ہی پڑتا ہے۔ اچھوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہے اور برو ں کو برے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور یہی دنیا کا اصول۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے سیاسی حالات کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے مگر اب یوں گمان ہوتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں؛ پہلی وجہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت کیس ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے جلد الیکشن کی باقاعدہ تاریخ کا اعلان نہ کیا تو سپریم کورٹ میں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے مگر یہ چُھوٹ ہمیشہ کے لیے ہرگز نہیں ہو گی۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کو لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے کا جس طرح مذاق اڑایا گیا‘ اب وہ روش دہرائی نہیں جا سکتی۔ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ الیکشن نوے روز میں ہو جانے چاہئیں تھے اور تاحال ایسا نہیں ہو سکا تو اب تاخیر کا جواز کیا ہے؟ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن بالکل بے بس ہو جائے گا اور اسے انتخابات کراتے ہی بنے گی کیونکہ عدلیہ آئین کی مزید پامالی برداشت نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے پیش رو سے مختلف شخصیت کے مالک ہیں اور اگر ان کی عدالت کی حکم عدولی کی گئی تو پھر توہینِ عدالت کا قانون لازماً حرکت میں آئے گا۔ اس لیے انتہا کو چُھونے سے بہتر ہے الیکشن شیڈول اور تاریخ کا فی الفور اعلان کر دیا جائے تاکہ مزید خرابی سے ملک کو بچایا جا سکے۔
الیکشن کی تاریخ جلد دینے کی دوسری وجہ آئی ایم ایف ٹیم کا دو نومبر کو پہلے جائزے کے لیے پاکستان آنا ہے۔ آئی ایم ایف ٹیم دیکھے گی کہ جولائی سے اکتوبر تک پہلی سہ ماہی میں معیشت کے میدان میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر من و عن عمل کیا ہے یا نہیں؟ آئی ایم ایف کی ٹیم یہ بھی جائزہ لے گی کہ اس عرصے میں ایکسچینج ریٹ کی صورتحال کیا رہی ہے؟ ڈالر مارکیٹ کے مطابق رہا ہے یا پھر گزشتہ حکومتوں کی طرح‘ نگران حکومت نے بھی مداخلت کی پالیسی اختیار کی ہے؟ آئی ایم ایف یہ بھی دیکھے گا کہ پاکستان بیرونی فنانسنگ کا ٹارگٹ پورا کر سکے گا یا نہیں؟ کہیں کوئی شارٹ فال تو نہیں ہے؟ دوست ممالک اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان سے مستقل بنیادوں پر تعاون کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس دورے میں مانیٹری پالیسی کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ اس وقت شرحِ سود بائیس فیصد ہے اور مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے تعین کیا جائے گا کہ اس میں اضافہ ضروری ہے یا نہیں؟ آئی ایم ایف کی ٹیم ایف بی آر کی کارکردگی کی بھی درجہ بندی کرے گی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ رواں مالی سال میں 9400 ارب روپے کا ٹیکس وصولیوں کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا‘ وہ پورا ہو سکے گا یا نہیں؟ یہی نہیں‘ آئی ایم ایف کی ٹیم یہ بھی جائزہ لے گی کہ حکومت طے شدہ شعبوں سے ہٹ کر اضافی سبسڈی تو نہیں دے رہی؟ سرکلر ڈیٹ میں کمی کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اور اب تک کیا کامیابی ملی ہے؟ حکومتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے یا نہیں؟ بجٹ خسارہ مقررہ اہداف سے بڑھ تو نہیں رہا؟ اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟
ویسے تو آئی ایم ایف کا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں مگر عین ممکن ہے کہ مالیاتی ادارے کی ٹیم اس بات کا تذکرہ بھی کرے کہ ملک میں اب تک الیکشن کیوں نہیں ہو سکے؟ جب 30 جون کو سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت معاہدہ ہوا تھا تو الیکشن مستقبل کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ انتخابات ملتوی ہو گئے؟ اس سوال کے امکانات اس لیے بھی موجود ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کو جو ممالک زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں ان میں امریکہ اور یورپ سرفہرست ہیں۔ ان ممالک میں جمہوریت ہے اور وہ جمہوری ممالک ہی سے تعاون کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر امریکہ اور برطانیہ کی اشیرباد پر آئی ایم ایف نے انتخابات کا ایشو اٹھایا تو 71 کروڑ ڈالر کی قسط ملنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف جائزہ التوا کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ آئی ایم ایف پروگرام میں رخنہ پڑا تو پھر ہماری معاشی مشکلات بڑھ جائیں گی اور حالات دوبارہ گمبھیر ہو جائیں گے۔ دوست ممالک سے ملنے والا قرض اور امداد رک جائے گی، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، عالمی بینک، اسلامی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کا معاشی تعاون بھی ختم ہو جائے گا اور سب سے بڑھ کر‘ سیلاب ریلیف کی مد میں ملنے والی آٹھ سے نو ارب ڈالر کی امداد کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ خاکم بدہن! اگر ایسا ہوا تو پھر زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں گے، روپے پر دباؤ بڑھے گا اور اس کی ویلیو کم ہوتی جائے گی، درآمدات پر کٹ لگے گا، پٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی اور اشیائے خور و نوش مہنگی ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں بیروزگاری، بھوک اور افلا س میں اضافہ ہو گا۔ اگر ہمیں اپنی معاشی مشکلات کا اندازہ ہے تو پھر الیکشن کی جانب بڑھنا ہو گا تاکہ آئی ایم ایف معاہدے میں کوئی خلل نہ پڑے۔
الیکشن کے جلد اعلان کی تیسری وجہ جمہوریت ہے۔ اگر الیکشن مزید ملتوی ہوتے ہیں تو پھر ملک میں جمہوریت اور آئین کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ پنجاب اورکے پی میں دس ماہ سے الیکشن نہیں ہو سکے ہیں، سندھ، بلوچستان اور وفاق میں بھی الیکشن نوے دن کی آئینی مدت میں نہیں ہو رہے، صدرِ مملکت کی آئینی مدت ختم ہوئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر اسمبلیاں موجود نہ ہونے کی وجہ سے نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ اگر الیکشن مزید تاخیر کا شکار ہوئے تو مارچ میں سینیٹ کے آدھے ممبران کی مدت پوری ہو جائے گی اور پھر ان نشستوں کو بھی پُر نہیں کیا جا سکے گا۔ جمہوری سسٹم کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن فوری ہو جائیں‘ ورنہ جمہوریت اور آئین بے وقت ہو کر رہ جائیں گے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن 28 جنوری کی تاریخ انتخابات کے لیے مختص کرنے جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت اچھا فیصلہ ہو گا۔ دیر آید درست آید۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ آئندہ چند روز میں الیکشن کی باقاعدہ تاریخ سامنے آ جاتی ہے تو پھر اگلا چیلنج منصفانہ انتخابات کے حوالے سے درپیش ہو گا۔ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف الیکشن ہی ملک میں سیاسی استحکام لا سکتے ہیں، ان سے جمہوریت مضبوط ہو گی اور عالمی سطح پر ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو بھی الیکشن مہم چلانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف الیکشن کا بگل بج جائے اور دوسری طرف پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں جاری ہوں اور انہیں جلسے‘ جلوس اور ریلی کی اجازت تک نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کے اعتراضات اور جے یو آئی کے خدشات کا مداوا بھی ضروری ہے ورنہ الیکشن کی شفافیت پر حرف آئے گا۔ یہ تاثر بھی زائل ہونا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے‘ میاں نواز شریف کو خصوصی ریلیف مل رہے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو رگڑا لگ رہا ہے۔ اس سے عوام میں بے چینی بڑھتی ہے اور سسٹم کا دہرا معیار آشکار ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی حالات بہرصورت نارمل کیے جائیں۔ اگر ہم منصفانہ اور آزادانہ الیکشن کرانے میں ناکام ہوئے تو پھر ملک میں انارکی بڑھے گی اور سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان مزیدگمبھیر صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ معاشی بدحالی کا ناگ پہلے ہی پھن پھیلائے بیٹھا ہے اور عوام کی اس سے جان چھڑانا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں تاکہ ملک آگے کی جانب بڑھ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں