انتخابی اتحاد اور ریت کی دیوار

افریقی کہاوت ہے کہ بھیڑ اپنی ساری عمر بھیڑیے سے ڈرتے ہوئے گزار دیتی ہے اور آخر میں اسے چرواہا ہی کھا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ ویسے تو سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے مگر پاکستانی سیاست کی چال ڈھال ہی الگ ہے۔ دوست کب دشمن اور دشمن کب دوست بن جائیں‘ پتا ہی نہیں چلتا۔ پیپلز پارٹی کل تک مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور شریکِ اقتدار تھی مگر آج بڑے حریف کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو (ن) لیگ کے اکابرین حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے مگر آج وہی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ جس طرح مسلم لیگ (ن) کو توڑ کو بی اے پی بنائی گئی تھی‘ ویسے ہی اب اس کو ختم کرکے مسلم لیگ (ن) کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کون جانے وقت نے مرہم کا کام کیا ہے یا پھر باہمی مفادات نے بچھڑے ہوؤں کو ملایا ہے؟
جب سے میاں نواز شریف کی واپسی ہوئی ہے‘ مسلم لیگ (ن) میں ملا جلا رجحان ہے۔ آدھی قیادت خوش اور آدھی مضطرب نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پہلی بار میاں نواز شریف کا جلسہ کرانے میں دقت پیش آئی اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے خاصا زور لگایا گیا۔ عوامی سطح پر میاں نواز شریف کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ان کا خاصہ رہی ہے۔ لوگ پی ڈی ایم جماعتوں سے بیزار ہیں اور پی ٹی آئی کے چیئرمین سے امید لگائے بیٹھے ہیں مگر وہ بھی کیا کر سکتے ہیں‘ کیونکہ الیکشن سے قبل ان کا جیل سے باہر آنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
مسلم لیگ (ن) کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ (ن) لیگ پر طاقتور حلقوں کی بی ٹیم کی چھاپ گہری ہوتی جا رہی ہے اور عوام اس تاثر کو پسند نہیں کر رہے۔ جس طرح میاں نواز شریف کی واپسی پر سرکاری سطح پر ان کا استقبال کیا گیا اور جس طرح اب انہیں ریلیف مل رہے ہیں‘ ان سے صاف نظر آتا ہے کہ ان کے معاملا ت طے ہو چکے ہیں۔ وہ اس وقت ''لاڈلے‘‘ کے منصب پر فائز ہیں۔ اس تاثر کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب منظورِ نظر جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی ایک تاریخ رہی ہے اور ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ کبھی بھی اشارے کے بغیر دائیں‘ بائیں نہیں ہوتیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی بن جائیں تو وہ اس طرف چل پڑتی ہیں اور جب انہیں اشارہ کیا جاتا ہے کہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں تو وہ حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اب انہیں (ن) لیگ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر (ن) لیگ کے قریب آ چکی ہیں اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ تو جوق در جوق مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کل تک مریم نواز کہا کرتی تھیں کہ ''باپ‘‘ اپنے باپ سے پوچھے بنا کوئی کام نہیں کرتی‘ یہ لوٹوں کی جماعت ہے اور لوٹوں کی جگہ واش روم میں ہوتی ہے‘‘ مگر قسمت کا پھیر دیکھئے اب اسی جماعت کے بانی اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور ان کے ساتھیوں کو ساتھ ملانے کے لیے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مریم نواز خود چل کرکوئٹہ گئے۔
جام کمال اور ان کا خاندان پارٹیاں بدلنے کے لیے مشہور ہے۔ زیادہ دور مت جائیں‘ پرویز مشرف دور میں جام کمال کے والد جام یوسف (ق) لیگ کی طرف سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ جب (ق) لیگ پر برا وقت آیا تو جام کمال (ن) لیگ میں شامل ہو گئے۔ وہ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور جب (ن) لیگ کے اقتدار کا چراغ بجھنے لگا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اسی دوران بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) بنائی گئی اور جام کمال اس کے بانی صدر بن گئے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ جماعت کس طرح بنائی گئی تھی اور اب بھی ہر کوئی جانتاہے کہ کون جام کمال اور دوسرے بلوچ رہنماؤں کو (ن) لیگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اگر کل کو استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے ساتھ بھی میاں نواز شریف اتحاد کر لیتے ہیں تو پھر اگر مگر کی گنجائش بھی باقی نہیں رہے گی کیونکہ یہ دونوں جماعتیں بھی منظورِ نظر جماعتوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کو درپیش ہے وہ اس جماعت کا بیانیہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مقتدرہ کے حامی بیانیے کو عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہیں ملتی اور (ن) لیگ اس وقت یہی بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کو عوام میں مقبولیت حاصل کرنی ہے تو اپنے بیانیے میں اسے توازن پیدا کرنا ہو گا ورنہ کشتی بھنور میں پھنسی رہے گی اور کنارے کا راستہ سجھائی نہیں دے گا۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بڑا چیلنج شہباز حکومت کی معاشی میدان میں کارکردگی ہے۔ جس طرح پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں معیشت کی تباہی ہوئی ہے اور مہنگائی کا طوفان آیا ہے اس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے‘ کاروبار بند ہو گئے ہیں اور بے روزگاری بڑھی ہے۔ روپے کی بے قدری نے لوگوں کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت پاتال میں گر گئی ہے اور میاں نواز شریف کی واپسی سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس کا حل (ن) لیگ کے زعما نے یہ نکالا ہے کہ شہباز حکومت ہی سے اظہارِ لاتعلقی کر دیا ہے اور بیانیہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ اگر مقابلہ کرنا ہے تو میاں نواز شریف کی حکومت سے کیا جائے‘ شہباز حکومت تو سانجھے کی ہنڈیا تھی اس لیے اسے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ بیانیہ کارگر ہوتا ہے یا نہیں اور عوام میں اس کو مقبولیت ملتی ہے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے تیسرا بڑا چیلنج پی ٹی آئی کے چیئرمین کی مقبولیت ہے جو ان کے جیل میں جانے کے بعد بھی کم نہیں ہو رہی۔ میاں نواز شریف اس کا توڑ نکالنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے دیرینہ موقف سے یوٹرن لے لیا ہے۔ پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف بڑے انتخابی اتحاد کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ پنجاب میں استحکامِ پاکستان پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے اور الیکٹ ایبلز کے لیے بند دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے بعد کیا گیا ہے۔ ہر ضلع سے الیکٹ ایبلز کو شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی جماعت، جے یو آئی (ایف)، اے این پی اور شیر پاؤ گروپ کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اس وقت پی ٹی آئی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اس لیے متبادل تمام قوتوں کو اکٹھا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا توڑ ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کر کے کیا گیا ہے جبکہ اندرونِ سندھ جی ڈی اے اور قوم پرست جماعتوں کو یکجا ہو کر الیکشن لڑنے کی آفر کی گئی ہے۔ بلوچستان میں بی اے پی کے ساتھ اتحاد کیا گیا ہے جبکہ میپ، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ایف) اور مقامی سرداروں کو ساتھ ملا کرالیکشن لڑا جائے گا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکے گی یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد کرنے سے ہر صوبے میں کچھ سیٹوں پر فائدہ ضرور ہو گا لیکن اگر پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی اور اس کے پاس اچھے امیدوار ہوئے تو یہ اتحاد ریت کی دیوار ثابت ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اسی صورت ممکن ہو گی جب پی ٹی آئی پوری قوت سے انتخابی میدان میں نہ اتر پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں