اقتدار یا لوگوں کا پیار ؟

جرمن کہاوت ہے کہ ''اندھوں کے لیڈر بھی اندھے ہی ہوا کرتے ہیں‘‘۔ جو بینائی کی نعمت سے محروم ہوں اُن سے گلہ کیسا؟ مگر جنہیں دکھائی دیتا ہے اور جو شعور رکھتے ہیں‘ کیا وہ بھی اپنے حکمران چنتے وقت آنکھیں موند لیتے ہیں؟ چھہتر برسوں میں ایک بھی حکمران عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا‘ کیوں؟ اس میں سارا قصور سیاست دانوں کا ہے؟ یا پھر عوام بھی برابر کے قصوروار ہیں؟ کیا عام آدمی اچھے اور برے میں تمیز کرنے سے عاری ہیں؟ کیا انہیں سچ اور جھوٹ کا فہم نہیں؟ کیا انہیں شعور کی طاقت کا ادراک نہیں؟ اندھے اپنے لیے اندھوں کا انتخاب کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر جب بینائی کی طاقت سے مالا مال لوگ بھی اندھوں کو اپنا مسیحا اور رہبر مان لیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ ''بینائی سے محروم لوگ تمہارے رہبر نہیں ہو سکتے‘‘۔ جو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوں وہ کسی کو کیا راستہ دکھائیں گے؟ سوال یہ ابھرتا ہے کہ پھر ایسے سیاست دانوں کی چاند ی کیسے ہو جاتی ہے؟ وہ گمنامی کی منزلیں طے کر کے اقتدارکے ایوانوں میں کیسے براجمان ہو جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف عوام دے سکتے ہیں‘ سرِدست جو غصے اور اضطراب کی کیفیت میں ہیں۔ عوامی سطح پر بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور مایوسی کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ کوئی مہنگائی سے تنگ ہے تو کوئی بے روزگاری کا ڈسا ہوا ہے۔ کوئی کاروبار کی بدحالی پر گریہ کناں ہے تو کوئی بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہے۔ کسی کے پاس بچوں کو پڑھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو کسی کو کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ کوئی سیاسی انتشار کے باعث بے قرار ہے تو کوئی الیکشن میں التوا کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہے۔ کوئی لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رو رہا ہے تو کوئی انتخابی مہم شروع نہ ہونے پر اذیت سے گزر رہا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ عوام کی اس تکلیف کا مداوا کون کرے گا؟ ان کی بے چینی اور بے یقینی کو کون ختم کرے گا؟ کیا کوئی ہے جو عوام کے لیے اناؤں کی قربانی دے سکے؟ جو اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور غصے کو قربان کر سکے؟
پاکستان کی تاریخ میں جھانکیں تو تین سیاستدان ایسے ملیں گے جنہوں نے مقبولیت کی معراج کو چھوا مگر عوام کے لیے کچھ زیادہ نہ کر سکے۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو‘ دوسرے میاں نوازشریف اور تیسرے عمران خان۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت باصلاحیت، ذہین اور سیاست کے اتار چڑھاؤ سے خوب جانکاری رکھنے والے سیاستدان تھے۔ عوام نے ان سے بہت لاڈ کیا مگر وہ تمام تر قابلیت کے باوجود عوام کو بیچ منجدھار میں چھوڑ گئے۔ ان پر مقبولیت کا خمار چڑھا اور وہ خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک سیاسی غلطیاں کیں اور ناکامی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ بھٹو صاحب صرف عوامی مسائل پر توجہ دیتے تو آ ج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی مگر انہوں نے سیاسی مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا اور الیکشن میں جی بھر کر دھاندلی کی‘ جس کا نتیجہ پوری قوم کو مارشل لا کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میاں نواز شریف پر بھی قسمت کی دیوی خوب مہربان رہی۔ وہ تین بار وزیراعلیٰ پنجاب اور تین دفعہ وزیراعظم پاکستان بنے مگر ہر بار ناکامی ان کا مقدر ٹھہری۔ وہ جب بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے‘ ان کی ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ انہوں نے سیاسی مخالفین پر مقدمے بھی بنائے اور طاقت کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بطور وزیراعظم کبھی اپنی مدتِ میعاد پوری نہ کر سکے اور مقبولیت کا خمار ان کی تمام صلاحیتوں کو کھا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کے تیسرے مقبول ترین لیڈر عمران خان ہیں۔ ان کے حصے میں بھی عوام کا بہت پیار آیا۔ انہوں نے ریکارڈ ساز جلسے کیے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ وہ وزیراعظم کے منصب پر براجمان تو ہو گئے مگر اپنے دعووں کو سچ ثابت نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین سے لڑنے کو ترجیح دی۔ ان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کے باعث حکومت بنانے کے قابل ہوئے اور پھر انہی حلقوں کے ساتھ الجھ پڑے۔ ان کے پاس معاشی ٹیم تھی نہ صوبوں کو چلانے کے لیے قابل قیادت‘ جس کی وجہ سے انہیں بھی ناکامی کا ہار اپنے گلے میں پہننا پڑا۔ ان تینوں مقبول ترین رہنماؤں کی ناکامی کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں‘ سوال مگر یہ ہے کہ اس سب میں نقصان کس کا ہوا؟ یقینا سارا خسارا ملک اور عوام کے حصے میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاسی حکمت اور افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے تو ملک اور خود ان کی جماعت پیپلز پارٹی کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ پیپلز پارٹی‘ جو پنجاب کی مقبول ترین جماعت تھی‘ جس کا جنم پنجاب میں ہوا تھا‘ وہی جماعت بھٹو صاحب کے بعد ایک بار بھی پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکی اور وفاق میں ایک دفعہ بھی سادہ اکثریت نہیں لے سکی۔ بے نظیر بھٹو شہید نے ہمیشہ اتحادی حکومتیں بنائیں اور آصف علی زرداری بھی اتحادیوں کے بل پر حکومت سازی میں کامیاب ہوئے۔ میاں نواز شریف کی ناکامی کا نقصان بھی ملک و قوم کو اٹھانا پڑا۔ نواز شریف تین بار جیل گئے اور دو دفعہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اقتدار کے بعد جیل کی صورتحال اب کپتان کو درپیش ہے۔ اگر وہ صرف امورِ حکومت چلانے پر توجہ دیتے اور مخالفین کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے تو کیا آج اس نہج پر ہوتے؟ جو لوگ ان سے محبت کرتے ہیں‘ کیا وہ اذیت کا شکار ہوتے؟
ویسے تو چھہتر برس میں بہت سا نقصان ہو چکا مگر اب بھی پلوں کے نیچے سے سارا پانی نہیں گزرا۔ اب بھی وقت ہے کہ ڈوبتی ناؤ کو بچا لیا جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کی سمت درست کر لی جائے۔ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری میاں نواز شریف اور عمران خان کے کندھوں پر آتی ہے۔ یہ دونوں اگر چاہیں تو ملک درست ڈگر پر آ سکتا ہے‘ معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے اور مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو سکتا ہے‘ معاشی نمو بڑھ سکتی ہے‘ صنعتوں کا پہیہ چل سکتا ہے اور زراعت کا شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ برآمدات چار گنا تک بڑھ سکتی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر اس سے بھی زیادہ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ میاں نواز شریف اور خان صاحب اپنی اناؤں کی قربانی دیں اور ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔ میاں نواز شریف کے ساتھ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا‘ اسے ملک وقوم کی خاطر بھول جائیں اور چیئرمین پی ٹی آئی بھی ہٹ دھرمی کی روش ترک کر دیں۔ صرف ایسا کرنے سے سیاسی استحکام میں اضافہ ہو گا اور معیشت کا پہیہ چلنے لگے گا۔ میاں نواز شریف یاد رکھیں کہ الیکشن جیتنا آسان ہے اور عوام کا دل جیتنا مشکل۔ اب مسلم لیگ (ن) کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے کیا چاہیے: اقتدار یا لوگوں کا پیار؟ اگر اقتدار عزیز ہے تو پھر جیسے چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔ سیاسی پنڈت پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اس طرح سب کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ (ن) شاید الیکشن جیت جائے گی لیکن اگر عوام کی محبت درکار ہے تو پھر سیاست کو سب کے لیے سازگار بنانا ہو گا۔ آٹھ فروری کا الیکشن 2018ء جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو انتخابی مہم چلانے کی آزادی ہونی چاہیے، ساری جماعتوں کے امیدوار میدان میں موجود ہوں‘ ہر جماعت جلسے جلوس کرے اور اپنا انتخابی منشور عوام تک پہنچائے‘ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہو۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف پی ٹی آئی کے لیے آواز اٹھائیں گے؟ یا پھر وہ روایتی سیاستدان ہونے کا مظاہرہ کریں گے؟ نواز شریف صاحب سب سے سینئر سیاستدان ہیں اور ان کا تجربہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے ذمہ داری بھی ان پر زیادہ ہے۔ انہیں ادراک کرنا ہو گا کہ ملک بہت نازک دور سے گزر رہا ہے‘ اگر الیکشن شفاف اور منصفانہ نہ ہوئے تو عوام میں مایوسی دوچند ہو جائے گی اور تاریخ گواہ ہے کہ مایوسی میں گھری قوم کبھی ترقی نہیں کیا کرتی‘ اسے سیاسی و معاشی استحکام بھی میسر نہیں آ پاتا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی اگر وہ حالات بہتر نہ بنا سکے تو یہ ان کی پوری سیاست کے لیے ایک دھبہ ہو گا۔ عوام کو ان کے نمائندے خود چننے کا حق دیں‘ ملک خودبخود ترقی کرنے لگے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں