سیاست کا عجیب کھیل

بہت کم سیاست دان ایسے ہوتے ہیں جو، جب کسی سیاسی جماعت سے قطع تعلق کرتے ہیںتو اپنی ناراضگی کا اظہا راخبارات میں کالم لکھ کر کرتے ہیں۔ سیاست دانوںکی ایک بڑی تعداد وہ ہوتی ہے جو پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُنھوںنے ایسا کیوں کیا۔ اس کے علاوہ کچھ وہ ہوتے ہیں جو ٹی وی چینلوں کے ذریعے اپنی پرانی پارٹی کو چھوڑنے اور کسی نئی پارٹی میں شمولیت اختیارکرنے کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے دوران بہت سے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے لیکن اُنھوںنے فوراً ہی نواز لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ درحقیقت اپنے نفع نقصان پر نظر رکھنے والے ہوشیار اور موقع شناس لوگ ہیں۔اب وہ توقع کے مطابق میاں نواز شریف سے انعام پانے کے منتظر ہیں۔ کچھ مناسب انتظار کے بعد اگر کچھ نہ ملا تو پھر وہ اپنے ’’ضمیر ‘‘ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پر چلے جائیںگے۔ سترہ سال تک تحریک ِ انصاف میں شامل رہنے والی فوزیہ قصوری بھی اسی صف میں شامل ہورہی ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے تک وہ پی ٹی آئی کی ترجمانی کرتے ہوئے عمران خان کا پر زور دفاع کر رہی تھیں ۔ وہ بڑی ذہانت، جوش اور ہمت سے ناقدین کے تیز و تند سوالات کا سامنا کررہی تھیں۔ انتخابات کے قریب وہ تقریباً ہر ٹی وی چینل پر اپنی پارٹی اور اس کے چیئر مین کی مدح سرائی میں مصروف تھیں۔ بعض اوقات جذباتی انداز میں بولتے ہوئے تو اُن کا گلہ رندھ جاتا ۔ تاہم اب فوزیہ قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی دھوکہ ہوا ہے جیسا کہ اس معاشرے میں عورتوں کے ساتھ روایتی طور پر روا رکھا جاتا ہے۔ اُنھوںنے اپنی تمام جوانی پارٹی اور شوکت خانم کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے میں گزاردی۔ اُنھوں نے اس امید پر اپنی امریکی شہریت بھی ترک کر دی کہ وہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں سے ایم این اے بن جائیںگی۔ اُنہیں، جیسا کہ ہم میںسے زیادہ تر لوگ سوچ رہے تھے، یقین تھا کہ پی ٹی آئی کے سونامی کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکے گا اور اُس وقت عمران خان کے عظیم الشان جلسوںسے تاثریہی مل رہا تھا۔ تاہم فوزیہ قصوری صورت ِ حال کوسمجھنے میں غلطی کر گئیں اور اب وہ چلاّ رہی ہیںکہ اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی، تاہم اس غلطی پر ان کومورد ِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا کیونکہ اُس وقت آدھے سے زیادہ پاکستان اور تقریباً تمام سیاسی پنڈت تحریک ِ انصاف کو کلین سویپ کرتا دیکھ رہے تھے۔ کچھ عرصہ قبل، جب ملک میں سردی عروج پر تھی تو ڈاکٹر قادری نے ماحول گرما دیا، تاہم کنٹینر زیادہ گرم کرنے کی کوشش بہت سوں کی امیدوں پر سرد مہری کی بارش ثابت ہوئی۔ اس کے بعد عمران خان کا یقین ِ واثق تھاکہ گیارہ مئی کو بازی اُن کے ہاتھ رہے گی اور وہ وزیر ِ اعظم بن کر ملک کی قیادت سنبھالیںگے، تاہم عمران خان بھول گئے کہ آدمی کے ارادے اور خواہشات اپنی جگہ، کچھ فیصلے کسی اور (پلیز ، یہاں میری مراد خدا ہے) کے بھی ہوتے ہیں اور وہاں دلیل کا کوئی دخل نہیںہے۔ وہ لفٹر سے گرے، کمر زخمی ہوئی اور اس کے ساتھ ہی مشہور نعرہ ’’نیا پاکستان ‘‘ پرانا ہوا۔ چند دن بعد ، گیارہ مئی کی رات تک، ہوا کی گردش بدل چکی تھی اور عوام الناس اور سیاسی مبصرین کے مرکز ِ نگاہ تیسری مدت کے لیے وزیر ِ اعظم کے عہدے پر فائز ہونے والے نواز شریف تھے۔ جذباتیت ایک طرف، اگر عمران خان کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کی اُنہیں توقع تھی، تو بھی اُنھوںنے بہت کچھ نہیںکھویا ہے، اوربقول ملٹن۔۔۔’’ابھی معرکہ ختم نہیںہوا ہے‘‘۔۔۔۔ آج عمران خان کی اسمبلی میں موجودگی بہت اہم ہے، چاہے وہ اپوزیشن بنچوں پرہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم فوزیہ قصوری سیاسی بساط کو اس طرح الٹتے نہ دیکھ سکیں۔ وہ اپنی پارٹی کے پانچ بڑے رہنمائوں میں چوتھے نمبر پر تھیں اور بجا طور پر اسمبلی میں جانے کا سوچ رہی تھیں لیکن انتخابی نتائج نے کسی اور کو فتح کا تاج پہنا دیا۔ اس رات بہت سوں کو دھچکا لگا ، لیکن بارہ مئی کی صبح تک فوزیہ قصوری کی سیاسی دنیا تاریک ہو چکی تھی۔ جب اُنھوںنے آبدیدہ ہوتے ہوئے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ اُن کی پارٹی نے انہیںدھوکہ دیا ہے تو محترمہ کلثوم نواز کا فون آگیا۔۔۔’’آئو، ہمارے ساتھ مل جائو‘‘۔۔۔ جذباتی صدمے کے ان لمحات میں پارٹی کے بڑوں، جن میں جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود شامل ہیں، میںسے کسی نے تسلی کا ایک لفظ گوارا نہ کیا۔ مس قصوری نے اُس وقت دہائی کیوں دینا شروع کی جب اُن کی جماعت پنجاب میں اتنی بھی نشستیں نہ جیت سکی کہ دوخواتین کو مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں داخل کیا جا سکتا؟ بہتر ہے کہ یہ سوال انہی سے پوچھا جائے، لیکن میرا خیال ہے کہ عمران خان کو انہیں جانے سے روکنے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس ناکامی سے عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کی کمزوری آشکار ہوتی ہے۔ چار سال پہلے، میں اسلام آباد کی ایک پہاڑی چوٹی پر بنے ہوئے عمران خان کے گھر میں اُن سے ملاقات کرنے گئی۔ میںنے وہاں اُن کے ساتھ دو گھنٹے گزارے۔ اس دوران میں حیرت میں ڈوبتی گئی اور مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ شخص ، جس کے پاکستان اور بیرونی دنیا میں بہت سے مداح ہیں، بہت جلد تاریخ کے پس ِ منظر میں چلا جائے گا۔ مارگلہ پہاڑیوں کے پرشکوہ دامن میں پرسکون مکان کی تنہائی میں رہنے والے رہنما سے، جو نہایت پکے نمازی، پرہیزگار اور سنجیدہ انسان ہیں، میں نے جو سوالات پوچھے، اُن کے جو جواب اُنھوں نے دیے وہ بالکل ویسے ہی تھے جیسی باتیں وہ آج کل کرتے ہیں۔ گویا کوئی تبدیلی نہیں۔۔۔ تو پھر پاکستان میں تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ وہ آج بھی ایک عوامی شخص نہیںہیں، شاید اُن کو اس کی پروا بھی نہیںہے۔ جب میںنے اُن سے پوچھا کہ وہ تنہائی سے نکل کیوں نہیں پاتے اور کیا یہ ایک سیاست دان کے لیے خامی نہیںہے؟ پھر میںنے کہا۔۔۔ ’’پشاور سے تعلق رکھنے والے ائیرفورس کے سابق افسر نے اُن کے کینسر ہسپتال کے لیے رقم جمع کی۔ آپ ان کے گھر گئے اور رقم لے کر شکریے کا ایک لفظ تک ادا کیے بغیر وہاں سے چل دیے۔‘‘اُنھوںنے جواب دیا۔۔۔’’اُس وقت تک میں عوامی آدمی نہیں بنا تھا اور نہ ہی مجھے تقریر کرنی آتی تھی۔ میں فطری طور پر شرمیلا اور تنہائی پسند تھا ، جسے لوگ غرور سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں۔‘‘پھر میںنے اُنہیں یاد دلایا کہ 1992ء میں ورلڈ کپ کی فتح کے موقع پر آپ نے ٹرافی وصول کرتے ہوئے صرف اپنی اور اپنے ہسپتال کی بات کی تھی، جبکہ ٹیم کے بارے میں ایک لفظ ادا نہیںکیا تھا (حالانکہ اُس میچ میں فتح کا سہرا وسیم اکرم‘ مشتاق احمد اور میانداد کے سر بھی جاتا ہے) ، تو عمران نے اس کی طویل وضاحت پیش کی۔۔۔’’اس کے بعد میںنے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ اختیارکرنی تھی اور تمام تر توجہ کینسر ہسپتال پر مرکوز کرنی تھی، میںنے اس کے لیے رقم اکٹھی کرنی تھی۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہماری جیت کا امکان ایک اور پچاس تھا اور ہمیں سب سے نچلے درجے میں رکھا جا رہا تھا؛ تاہم جب ہم غیر متوقع طور پر جیت گئے تو میں تقریر کے لیے تیارنہ تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی جب میں اُس تقریر کی ریکارڈنگ دیکھتا ہوںتو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔‘‘کیا فوزیہ کے حوالے سے بھی کئی عشرے بعد یہی ندامت تو محسوس نہیں ہوگی؟ دعاہے کہ عمران جلد صحت یاب ہو کر عملی سیاست میں آئیں ۔ کیا فوزیہ قصوری کا پارلیمنٹ میں داخل ہونے کاخواب کبھی شرمندہ ِ تعبیر ہوگا یا نہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں