عوام، خاص طور پر ٹیکس دہندگان کے مفاد میں ہو گا کہ وہ جان سکیں کہ آج کل وزیر ِ اعظم ہائوس میں کون سے پیر صاحب قیام پذیر ہیں۔ ماضی میں نواز شریف کے پیر صاحب دیوانہ باباتھے جن کا تعلق دھنکا شریف ، ضلع مانسہرہ سے تھا۔ اُن کا اصل نام رحمت اﷲ تھا۔ وہ 2008ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جب نواز شریف دوسری مدت کے لیے وزیرِ اعظم بنے تھے تو انہوں نے پیرصاحب کے گائوںکو بجلی سے روشن کر دیا تھا۔ جب نواز شریف کو 1993ء میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تو وہ بے نظیر بھٹو کے لیے وزیر ِ اعظم ہائوس میں جو نشانی چھوڑ گئے وہ دیوانہ بابا تھے۔ محترمہ نے با با جی پر یقین کیا ہو گا کہ اگر اُن کی دعائیں اور نظر ِ کرم نواز شریف کو وزیر ِ اعظم بنا سکتی ہیں تو وہ یقینا بہت پہنچے ہوئے ہوںگے اور اس کا مطلب ہے کہ اُن کو بھی بابا جی کی دعائوں کی ضرورت ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ محترمہ بابا جی کی خدمت میں اُن کے پہاڑی آستانے پر حاضری دیتی تھیں۔ وہاں بابا جی‘ ملنے کے لیے آنے والی اہم شخصیات کی ’’ڈنڈے ‘‘ سے تواضع کر تے تھے‘ اُس کرامتی ڈنڈے سے جس کو جتنی ’’پھینٹی‘‘ پڑتی اتنا ہی وہ بابا کی روحانی توجہ اور فیوض وبرکات کا مستحق ٹھہرتا (شیخ سعدی سے معذرت، ’این سعادت بزور ِ بازو است ‘)۔ اس کے بعد محترمہ نے وہاں ہیلی پیڈ بھی بنوا لیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے اور دھنکا شریف کو بیرونی دنیا سے ملانے کے لیے سڑک بھی تعمیر کر ا دی۔ دوسری اہم شخصیت جو دیوانہ بابا سے ملنے جاتی، وہ غلام اسحاق خان کے ہاتھوں محترمہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نگران وزیر ِ اعظم بننے والے غلام مصطفی جتوئی مرحوم تھے۔ جب بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سرکاری جوڑے کے طور پر وائٹ ہائوس میں گئے تو اُن کے ساتھ ایک عجیب دکھائی دینے والے شخص کی موجودگی سے بہت ہنگامہ بپا ہوا تھا۔ اُن صاحب کی موجودگی کی وجہ سمجھ سے بالا تر تھی، لیکن نجم سیٹھی سمیت وزیر ِ اعظم کے ساتھ جانے والے تمام صحافی حضرات کا خیال تھا کہ وہ ’’سرکاری پیر ‘‘ ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور بزرگ ہستی چک شہزاد ، اسلام آباد کے ملتانی بابا تھے۔ محترمہ بے نظیر اُن کے پاس بھی اکثر جاتی تھیں اور راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ اُن کی درگاہ میں زمین پر بیٹھ جاتیں۔ میںبھی ایک مرتبہ ’’نیاز مندی ‘‘ کے طور پر اُن کے پاس گئی۔ دھوتی میں ملبوس ملتانی بابا ایک چھوٹے سے کمرے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کچھ کہا مگر میں الفاظ نہ سمجھ سکی، تاہم مجھے اُن کہانیوںکی ضرور سمجھ آگئی جو انہوں نے خود سے ملنے آنے والی اہم ہستیوںکے بارے میں سنائیں۔ چونکہ ایسے مواقع پر نذرانہ پیش کرنا رسم ہے، اس لیے میںنے کچھ نذر پیش کی اور واپس آگئی کیونکہ بقول اقبال ع ’’تیرا علاج نذر کے سوا کچھ اور نہیں‘‘ (شعر میں تبدیلی کی معذرت)۔ اب دوبارہ وہی سوال اٹھاتی ہوں کہ آج کل نواز شریف کا پیر کون ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ ’’کوئی تو ہے‘‘ جو ایوان ِ صدر میں بیٹھ کر زرداری صاحب کے ستارے کنٹرول کرتا ہے اور اکثر لوگ جانتے ہیںکہ یہ پہلوانوںکے شہر گوجرانوالہ کے محمد اعجاز ہیں ، جو شہرت کے زیور کو فقر کے لیے عار نہیں سمجھتے ، اس لیے ببانگ ِ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ اُن کے بامراد مرید چاہیں تو سمند ر کے پاس رہ لیں، یا دور پہاڑوں کے درمیان ٹھکانہ کر لیں، یہ اُن کی مرضی ہے۔ محمد اعجاز ایوان ِ صدر میں ہونے والے ہر اہم موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے ایوان ِ صدر 2008ء سے ذاتی رہائش گاہ کی طرح ہے ، اس لیے قیاس اغلب ہے کہ اُن کا بوریا بستر بھی صدر صاحب کے ساتھ ہی گول ہوگا۔ شنید ہے کہ یہ پیر اعجاز کا ہی اعجاز ہے کہ اُن کے مرید ِ خاص کی طرف اٹھنے والی ہر بری آنکھ بری طرح ناکامی سے ہمکنارہوئی ۔ وہ صدارتی مدت جو ستاون دنوں بعد تمام ہونے والی ہے، کی کامیاب تکمیل کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ ایک موقع پر پیر صاحب نے وجدانی لہجے میں صدر صاحب کو بتایاکہ وہ مارگلہ کی پہاڑیوںسے دور بلاول ہائوس کراچی میں قیام کریں تو بہتر ہے۔ ایسے مواقع پر ستارہ شناس پیر کو صدر صاحب کے گرد کچھ شرانگیز طاقتیںمنڈلاتی دکھائی دیں۔شہر کی تبدیلی کا ’’شکار‘‘ ہونے والوں میں آٹھ سفارت کار بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے کاغذات صدر صاحب کو پیش کرنے تھے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق یہ تقریب دو مرتبہ التوا کا شکار ہوئی۔ ایک مرتبہ سفارت کاروں سے کہا گیاکہ وہ اسلام آباد میں ایوان ِ صدر میں کاغذات پیش کریں، لیکن صدارتی ترجمان فرحت اﷲ بابر نے ہدایت دی کہ وہ کراچی جا ئیں۔پھر پیراعجاز کی چشم ِ رسا نے دیکھا کہ خطرہ ٹل چکا ہے کیونکہ وہ شرانگیز قوتیں اسلام آباد سے دور جا چکی ہیں؛ چنانچہ صدر صاحب واپس پہاڑیوںکے درمیان آسکتے ہیں۔ اس لیے صدر صاحب اسلام آباد آ گئے۔ اس پر سفارت کاروںسے کہا گیا کہ وہ اسلام آباد کا رخ کریں۔ صدر ضیا پیروں کو زیادہ نہیں مانتے تھے، اُنہیں بھی آموں سے اجتناب کا مشورہ دیا گیا ہوگا مگر اُنھوں نے اس نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے راولپنڈی جانے کے لیے طیارے میں آموں کی پیٹیاں رکھوا لیں، باقی تاریخ ہے۔ صوفیوں، بزرگوں، درویشوں، جوتشیوں وغیرہ پر یقین برِ صغیر میں کوئی غیر معمولی بات نہیںہے۔ وہ دنیا کے دیگر خطوںمیں بھی پائے جاتے ہیں اور اہل اقتدار اُن پر یقین بھی کرتے ہیں۔ جین ڈکسن (Jeane Dixon) نامی ایک درویش خاتون روز ویلٹ سے لے کر رونالڈ ریگن تک کو مشوروںسے نوازاکرتی تھی۔ یہ وہی تھی جنہوں نے جان ایف کینیڈی کے قتل کی پیش گوئی کی تھی۔ ڈکسن دو مرتبہ وائٹ ہائوس بھی آئی۔ اُس کی آستین کے اندر ایک شیشے کا گولہ چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے صدر روز ویلٹ کو جب وہ بیمار تھے، بتایا کہ وہ کتناعرصہ اور زندہ رہیں گے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ ایک وقت آئے گا جب امریکہ جرمنی کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف جنگ آزما ہو گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ روز ویلٹ نے بھی اُن سے روحانیت کے موضوع پر کچھ باتیں کیں۔ یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ ہمارے حکمران اگرچہ بابوںکی صحبت میں رہتے ہیں، کچھ روحانیت سے روشناس ہوئے ہیں یا نہیں؟ ڈکسن نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بہت اہم پیش گوئیاں کی تھیں۔ انہوں نے یواین کے سیکرٹری جنرل کے طیارے کے حادثے، تین خلابازوںکی اموات وغیر ہ کی درست پیش گوئیاں کی تھیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ امریکی ’’پیر ‘‘ نے تو صرف رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئیاں کی تھیںمگر ہمارے پیرصاحبان ایک قدم آگے بڑھاکر حکومتوںکی حفاظت کی ذمہ داری بھی لیتے ہیں، گویا بہت ہی پہنچے ہوئے ہیں۔ تاہم اس حفاظتی اقدام میں ایک خطرہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی قسمت کو ان پیرروںکے رحم و کرم پر چھوڑ کر عوام سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھیں پیراعجاز‘ زرداری صاحب سے کب غفلت برتتے ہیں؟اور پھرلوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ کہیں یہ نہ کہنا شروع ہوجائیں: ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوںسے ہے روشن یا شاید ابھی عوام اتنے بھی باغی مرید نہیں بنے۔