بھائی چارے کی فضا

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے دو جوشیلے ترجمانوںکے بھائیوںکو پی آئی اے میں اعلیٰ عہدے مل گئے ہیں؟ہم گزشتہ مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ان ترجمانوں، سینیٹر مشاہد اﷲ خان اور طارق عظیم کی کارگزاری کو کیسے بھلا سکتے ہیں؟ سینیٹر مشاہد اﷲ رنگین گفتگو اور جارحانہ انداز کے ساتھ ٹی وی شوز میں اپنے ساتھ شریک مہمانوں کی خبر لیتے ہوئے اپنی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی نظروں میں بلند مرتبہ پاتے جبکہ طارق عظیم مدھم، محتاط اور سلجھے ہوئے لہجے میں میاں صاحب کا دفاع کرتے۔ ان دونوں احباب کی کارکردگی اتنی متاثر کن ہوتی کہ گماں ہوتا‘ ایوانِ وزیر ِ اعظم میں ان کا اپنا ہی آدمی آنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد اس خیال کو بے بنیاد سمجھیں، لیکن ٹھہریں… طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کے ائیرپورٹس کی ’’رائل ائیر پورٹ سروس‘‘ کے حصہ دار ہیں۔ یہ کمپنی ٹرمینل سروسز، کارگو اور ائیر ٹریفک کنٹرول جیسے فرائض انجام دیتی ہے۔یہ سعودی ائیر لائن، اتحادا ئیر ، گلف ائیر اور قطر ائیر کو بھی سروسز فراہم کرتی ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی اعظم اسی طرح کا کاروبار کینیڈا میں کرتا ہے اور اس کے پاس وہاں کی شہریت بھی ہے ۔ کوئی بصارت سے محروم شخص ہی اس بات پر حیران ہو گا کہ نواز شریف نے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا اس تقرری میں تین تضادات دکھائی نہیں دیتے؟ پہلا یہ کہ وہ رائل ائیر پورٹ سروسز کا شریک مالک ہے، اگرچہ اس کا کہنا ہے کہ اُس نے بطور سی ای او استعفیٰ دے دیا ہے، لیکن اگر میڈیا رپورٹس پر یقین کر لیا جائے تو وہ اتنا امیر ہے کہ ایک ائیر لائن چلانے کامتمنی ہے اور اُس کی نظر نجکاری کی صورت میں پی آئی اے کو خریدنے پر لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ایک شخص جو ایک فضائی کمپنی خریدنے کے وسائل رکھتا ہو اس زوال پذیر ادارے میں کپتان کے فرائض انجام دے گا؟ اس کی واحد منطق یہی ہے کہ پی آئی اے کا جلد از جلد خاتمہ ممکن بنایا جائے‘ اسے بیچے بغیر کوئی چارہ نہ رہے۔ دوسرا تضاد یہ کہ اعظم، چودھری منیر کا کاروباری شراکت دار ہے جسے فتح جنگ میں ائیر پورٹ کی تعمیر کا کام ملا ہے۔ تیسرا تضاد یہ ہے کہ اعظم کینیڈا کی شہریت رکھتا ہے۔ طارق عظیم پاکستان ائیر فورس میں درمیانے درجے کے افسر تھے مگر دہری شہریت کی بنا پر اُنہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ کسی بڑی شخصیت کا بھائی ہونا گناہ نہیں‘ اُس کا سماجی بائیکاٹ صرف اسی لیے نہیں کیا جا سکتاکہ ان کا بھائی اقتدار میں ہے۔ وہ اپنے بھائی کے ادارے کے سوا جس بھی شعبے میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں؛ تاہم اُن کو ٹیکس دہندگان، جن میں اب مزید حکمران طبقہ پالنے کی سکت نہیں رہی، کی رقم پر عیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مثال کے طور پر کیا کوئی بتا سکتاہے کہ صدر زرداری کے حالیہ دورہ لندن کے اخراجات کس نے برداشت کیے؟ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ’’بھائی چارہ ‘‘ بہت گہری جڑیں رکھتا ہے۔ پنجابی شاعر وارث شاہ کہتے ہیں کہ بھائی بھائیوںکے دست و بازو ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس بھائی چارے کا مظاہر ہ اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب ایک بھائی وزیر بن جاتاہے تو دوسرے بھائی کو سرکاری عہدے میں فوراً ترقی مل جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے تیسرا نجی شعبے میں ہو اور وہ بڑے بھائیوں کے کندھے کا سہار ا لے کر اپنے لیے چاندی بنانا شروع کردے۔ شاید یہی موقع ہوتا ہے جب بڑے بھائی چھوٹوں کو شفقت بھری سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کچھ کر لو نوجوانو‘ اٹھتی جوانیاں ہیں۔‘‘ ہمارے معاشرے میں بھائیوں، بہنوں، بیٹوں، بیٹیوں اور رفقائے حیات کا سہار ا لے کر آگے بڑھنا انوکھی بات نہیں۔ پھر بھی ہم پاکستان کو ایک جمہوری ملک کیوں کہتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی حکومتیں ’’دولتِ مشترکہ‘‘ کی طرح کام کرتے ہوئے اپنے اور اپنے جیسے دیگر وی آئی پی خاندانوںکو نوازتی ہیں۔ اس گنگا میں جج، جنرل، بیوروکریٹ، وزرا اور دیگر اس طرح ہاتھ دھوتے دکھائی دیتے ہیں کہ بقول غالب ع ’’جذبۂ بے اختیار ِ شوق دیکھا چاہیے‘‘۔ یہاں کو ن ہے جس کادامن صاف ہے؟ پی آئی اے میں ایک سیاسی شخصیت کے بھائیوں کے ساتھ سابق حکومت کے افسروں نے غیر منصفانہ سلوک کیا۔ ایک انگریزی اخبار نے گزشتہ دنوں اپنے اداریے میں لکھا: ’’پی ایم ایل (ن) کے سیکرٹری انفارمیشن مشاہد اﷲ خان کے دوبھائیوں کی پی آئی اے میں کئی برسوں سے ترقی رکی ہوئی تھی۔ اب اُن کو ترقی دے دی گئی ہے۔ اس پر ان کے اہل ِ خانہ کا خیال ہے کہ یہ کوئی ناانصافی نہیں بلکہ حقدار کو اُن کو حق ملا ہے‘‘۔ مشاہد اﷲ کے بھائیوں، رشید اﷲ کو ڈپٹی جنرل منیجر اور سجاد اﷲ کو منیجر بنا دیا گیا ہے‘ گویا ان کی لاٹری نکل آئی۔ پی آئی اے انہیں 2007ء سے ان عہدوں پر فائز کرنے کے اس عرصے کے واجبات بھی ادا کرے گی۔ پی آئی اے نے شجاعت عظیم کو سات ارب روپے دیے ہیں تاکہ وہ اس ڈوبتی فضائی کمپنی کو چھ ماہ کے اندر بحالی کی طرف گامزن کریں۔ اگروہ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے تو کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں لینے سے انکار کردیا ہے۔ کیا یہ لوگ پی آئی اے کو زندگی کی طرف لوٹا سکیںگے؟کیا یہ لوگ ماہرینِ فن اور باصلاحیت لوگوں کو‘ جن کی پی آئی اے کو ضرورت ہے، آگے آنے دیںگے؟ کیا یہ ملازمین کی تعداد کم کرنے اور دیگر مشکل فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ خوش قسمتی سے نواز شریف ملازمتیں دینے کا کام خود نہیں کرتے‘ لیکن ان کی حکومت میں پرکشش ملازمتیں پسندیدہ افراد کو دینے کا سلسلہ اور اقربا پروری پروان چڑھتے دکھائی دے رہی ہے۔ اب لوگ جانتے ہیں کہ اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کے لیے حکومت کے تشکیل کردہ سہ رکنی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر درخواست دینا ضروری ہے۔ اگر آپ اسے مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ملازمت پکی۔ آپ کو اسے کچھ سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ آپ کے لیے ضروری ہوگا کہ آپ کمیشن کو مطمئن کرنے کے لیے وہ جواب دیں جو ان کے علم کے مطابق ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں