خزاں کے بعد بہار آتی ہے

پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہمایوں ہمدانی نے ہمیں نیویارک میں سفر کے دوران بتایا کہ وہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ٹیکسی ڈرائیور نہیں تھے لیکن جب سے اُ ن کی بنک کی ملازمت ختم ہوئی تو انہوں نے گزارہ کرنے کے لیے ٹیکسی چلانا شروع کر دی ہے۔ کیونکہ اُن کا تعلق پاکستان اور ہمارے شہر کراچی سے تھا، اس لیے ہم نے ان سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ ہم نے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورۂ امریکہ ، صدر اوباما سے ملاقات اور اس سے وابستہ توقعات کے بارے میں بات چیت کی ۔ ہمایوں نے پوچھا:’’ ہمارے وزیر اعظم نے کاغذات سے پڑھ کر بات کیوں کی ؟‘‘ پھر اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا:’’ہماری قو م کے رہنمائوں کو‘ جو کشکول لے کر امریکہ آتے ہیں، دنیا کے طاقتور ترین شخص کے سامنے بیٹھ کر ایک ایک لفظ احتیاط سے بولنا پڑتا ہے‘‘۔ہمایوں بہت دل گرفتہ دکھائی دیتا تھا۔ اُس نے کہا:’’ جب تک ہمارے ملک میں انقلاب نہیں آتا، کچھ نہیں بدلے گا۔ ہم احتجاج تو بہت کرتے ہیں لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر یہ نتیجہ خیز ثابت نہیںہوتا۔ ہم سر سے پائوں تک سیاست میں ڈوبی ہوئی قوم ہیں۔ یہاں مرد، بوڑھے ، بچے، عورتیں سب سیاست پر بات کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی پیشہ ور شخص سے مل لیں، چاہے وہ فلسفے میں پی ایچ ڈی ہو یا ڈاکٹر ، سب کا موضوع گفتگو ایک ہی ہوگا۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ عر ب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کی جھلک دیکھنے کی امید لگائے ہوئے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم بطور قوم انقلاب کے لیے نہیں بنے۔ ہمارے خمیر میں مستقل مزاجی اور عزم پیہم کی کمی ہے۔ کیا آپ نے اپنے ملک میں یہ منظر دیکھا ہے کہ عوام نے پارلیمنٹ چوک، اسلام آباد کا گھیرائو کر لیا ہو اورہفتوں تک اس کا محاصرہ جاری رکھا ہو؟ درحقیقت ہماری حالیہ تاریخ میں واحد قابلِ ذکر واقعہ جس میں عوامی طاقت کا مظاہر ہ دیکھا گیا، وہ عدلیہ کی بحالی تھی۔ ‘‘ آج ملک میں سٹریٹ پاور تو ہے لیکن عوامی طاقت کا مظاہرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل زرداری اور آج نواز شریف کو وعدوں کی پاسداری کرنے میں ناکامی کے باوجود قابلِ ذکر عوامی احتجاج کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ جب ملک میں لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہوتی ہے تو ہمارے پاس تسلی کے لیے دوسروں کی ناکامی کی مثالیں ہوتی ہیں ، جیسے گزشتہ برس بھارت میں ہونے والا برقی رو کا تعطل جس نے ’’جگمگاتے ہوئے انڈیا کو تاریک انڈیا ‘‘ میں تبدیل کر دیا تھا۔ نیشنل گرڈ میں ہونے والی خرابی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تھی۔اس واقعے نے اُس منظر کی یاد تازہ کردی جب ٹائی ٹینک پر کپتان اپنے ملاح کو حسنِ کارکردگی پر طلائی تمغہ پہنارہا تھا اور جہاز برفانی تودے سے ٹکراگیا تھا۔ اسی طرح بھارت میں برقی رو کے طویل تعطل کے موقع پر وزیر بجلی سوشیل کمار شندھ کو انعام دیا گیا۔ اس پر بھارت کے کروڑوں افراد حیرت سے سکتے میں آگئے۔ جنوبی ایشیا میں سیاست دانوںکے کیسے لطیفے نہیں بنتے، لیکن حکمران بڑی ڈھٹائی سے مسند ِ اقتدار پر فائز رہتے ہیں۔ ’ہلیدا راجا‘ نے ایک کھلے خط میں بھارت کی سابق صدر پرتھیبا پاٹل کی بد عنوانیوںکو بے نقاب کیا ہے۔ اس خط کوان گنت افراد نے پڑھاجس میں اُس خاتون اور اس کے خاندان کے افراد کی بدعنوانیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ایک بھارتی سیاسی مبصر لکھتا ہے: ’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ نہرو خاندان کی ایک ملازمہ نے بھارت کی صدر بن کر غیر ملکی دوروں پر دوسو کروڑ روپے خرچ کردیے۔ اس دوران اُس نے ایسے ایسے ممالک کے سفر بھی کیے جن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ان دوروں میں ان کے ساتھ اُن کے بچے، پوتے، نواسے، رشتے دار، ملازم اور ہمسائے تک شامل ہوتے تھے۔ اسی دوران اُنہوں نے ایسی زمین پر بھی قبضہ کرلیا جو جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی بیوائوں کے لیے مختص کی گئی تھی۔ اے بھگوان! بھارت کس حد تک گر سکتا ہے؟‘‘ آج پاکستان میں گیس ہے، بجلی نہ پانی۔ ماضی میں زرداری صاحب کی حکومت کے دورمیں وزیر بجلی کو ’’حسن کارکردگی‘‘ کے صلے میں ترقی دے کر وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اُس وقت راجہ پرویز اشرف کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا ہو گا۔ وہ ہر روز صبح اٹھنے کے بعد چٹکی کاٹ کر دیکھتے ہوں گے کہ کہیں یہ خواب تو نہیں؟بہرحال ان مسائل کا حل کیا ہے؟کیا اس کا حل گلیوں میں جمع ہو کر گاڑیوں پر پتھرائو کرنا ہے؟کیا ٹائر جلانے سے مزید بجلی پیدا ہوسکتی ہے؟کیا عوام کے گھروں یا سرکاری اداروں کی کھڑکیاں توڑنے سے گیس آجائے گی؟کیا پولیس کا لاٹھی چارج برداشت کرنا ہی قومی خدمت ہے؟ درحقیقت، آج اکیسویں صدی میں احتجاج کے طریقے بدل چکے ہیں۔ ایک اور بات، عوامی احتجاج کی آڑ میں عوام پر سیاسی اور انتہا پسند تنظیموں کے نمائندے شامل ہوکر تشدد کا راستہ اختیارکرلیتے ہیں تاکہ ملک میں بحران کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔ بہت سے شہروں میں کچھ مخصوص افراد کا گروہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر گھیرائو، جلائو اور لوٹ مار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں مسلح افراد نے پناہ لی ہوتی ہے۔ وہ ایسے مواقع پر کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل بھی ہیں اور ہم ان مسائل کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کریں تو مزید خرابی واقع ہوجاتی ہے؛ چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم عوام کو متحرک ہونے کا طریقہ سمجھائیں۔ انہیں پر امن احتجاج ، جیسا کہ یورپ میںہوتا ہے، کی روش سکھائی جائے۔ لاکھوں افراد کا پرامن طریقے سے مارچ یقیناً متاثر کن ہوتا ہے۔ کیا یہ سوال کرنا گستاخی تو نہیںہوگی کہ جو رہنما ڈرون حملوں پر روزانہ بیانات دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں،کیا اُنھوںنے عوام سے اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے ملین مارچ کریں اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں ؟ کیا ہم پرامن احتجاج کرنا اب بھی نہیں سیکھ سکتے ؟اس کے علاوہ ہم ابھی تک سوشل میڈیا موثر طور پر استعمال کرنے کے قابل نہیںہوئے۔ دنیاکے بہت سے ممالک میں سوشل میڈیا انقلابی تبدیلی برپا کررہا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا منفی استعمال اس کی افادیت پر شکوک و شبہات کے سائے ڈال چکا ہے،اس لیے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں نظم کا فقدان ہے، لہٰذا شہری تنظیموں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان جماعتوں پر دبائو بڑھایا جاسکے۔ شہری تنظیمیں بھی جمہوریت کا لازمی حصہ ہیں ۔ درحقیقت وہ جمہوری نظام کو توانا کرتی ہیں کیونکہ ان کے احتجاج کا مقصد اقتدار کے ایوانوں تک عوام کی آواز پہنچانا ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں