امریکہ کے بارے میں ایک امریکی کی سوچ

آج امریکہ کا صدر دنیا کا طاقتور ترین انسان نہیں ہے بلکہ اب اس پوزیشن کے حق دار روسی صدر پیوٹن ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ۔۔۔’’مسٹر پیوٹن نے روس پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے جبکہ صدر اوباما کے دوسرے دور حکومت کی ناکامی وقت سے پہلے ہی آشکار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ان ناکامیوں کی تازہ ترین مثالوں میں حالیہ شٹ ڈائون، شام کے مسئلے پر ناکامی اور این ایس اے کی طرف سے خفیہ معلومات چرانے کے معاملات سرفہرست ہیں۔ امریکی صدر ان کمزوریوں کی وجہ سے نمبر ون کی پوزیشن سے ہاتھ دھو چکے ہیں‘‘۔ سیاسی مبصرین نے پیشین گوئی کی ہے کہ آنے والے عشروں میں امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک نہیں رہے گا، چہ جائیکہ اس کے صدور طاقت ور ترین افراد مانے جائیں۔ گور ویدال (Gore Vidal) نامی ایک شخص اس خدشے کا بہت دیر سے اظہار کر رہا تھا۔ نیوز ویک نے ویدال کا اس طرح تعارف کرایا ہے۔۔۔’’وہ دور حاضر کا نواب اور اہم مصنف ہے اور عوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا روح و رواں‘‘۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے امریکیوں نے بھی اُس کا نام نہ سنا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت تھا جب گور ویدال کی کتابیں دور دراز کے ممالک، جیسا پاکستان، کی کتابوں کی مشہور دکانوں پر بھی مل جاتی تھیں۔ لوگ اُسے اس لیے پڑھتے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا اور وہ اپنے خیالات کا اظہار خوفزدہ ہوئے بغیر کر دیتا تھا۔ آج بہت کم لوگ اُسے جانتے ہیں اور ان میں بھی کچھ لوگ اُس کے مداح ہیں جبکہ کچھ اُسے ناپسند کرتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں گور ویدال نے اپنے مضمونوں، ناولوں اور پمفلٹوں کے ذریعے سیاست دانوں، صدور اور ججوں پر کڑی تنقید کی۔ گزشتہ برس وہ چھیاسی سال کی عمر میں لاس اینجلس میں انتقال کر گئے۔ یہ 2003ء کا موسم بہار تھا جب نیویارک کے سنٹرل پارک کے بالائی حصے میں گور ویدال کے مداح ایک عظیم عمارت کے سامنے کھڑے دروازے کھلنے کا انتظارکر رہے تھے۔ وہ سرد شام تھی اور لوگ سردی سے کپکپا رہے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر نوجوانی کی عمر سے آگے بڑھ چکے تھے لیکن وہ سردی کے باوجود بہت پُرجوش تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک ولولہ موجزن تھا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، وہ سکول کے نوجوان بچوں کی طرح برق رفتاری سے بھاگتے ہوئے عمارت کے ہال میں داخل ہوئے۔ میں بھی ان افراد میں شامل تھی۔ میں باہر بھاگی تاکہ منتظمین سے پوچھ سکوں کہ کیا میں تھوڑی دیر کے لیے اُس عظیم مصنف کی تصاویر لی سکتی ہوں؛ تاہم مجھے سردمہری سے بتایا کہ مسٹر ویدال بہتر محسوس نہیںکر رہے اور وہ کچھ باتیں کر کے بہت جلد یہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ اس کے بعد میرے پاس سب سے بہترین اقدام یہی ہو سکتا تھا کہ میں اُن کی تازہ ترین کتاب Dreaming War: خریدوں۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ’’Blood for Oil and the Cheney-Bush Junta‘‘ ہے۔ جب میں میز پر سے یہ کتاب اٹھانے لگی تھی کہ اچانک ایک تنہا شخص نمودار ہوا۔ وہ دیکھنے میں پُرکشش لیکن روکھے مزاج کا تھا۔ اُس نے ارد گرد اکتائے ہوئے انداز سے نگاہ ڈالی، پھر اپنی چھڑی نکال کر ٹہلتا ہوا ایک لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اُنہیں بہت قریب سے دیکھا۔ میں نے مسکرا کر اُن کی طرف دیکھا اور ان کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ اُنھوں نے بھی گہری نظروںسے میری طرف دیکھا۔ پھر میں نے کتاب ان کی طرف بڑھا دی تاکہ وہ اس پر اپنے دستخط کر دیں، قبل اس کے کہ لفٹ کا دروازہ بند ہو جائے۔ چند لمحوں کے بعد ہال میں سے دادوتحسین کی صدائیں بلند ہوئیں۔ لوگوں نے والہانہ انداز میں تالیاں بجائیں۔ مسٹر ویدال نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلا کر تالیوں کا جواب دیا۔ اُنھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ بہت جلد یہ ملک، امریکہ، US of Amnesia بننے والا ہے۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت جلد یہ عالمی بساط پر فراموش کر دیا جائے گا۔ اُنھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔’’یہ آمر (صدر بش) ہماری چھاتی پر اس لیے مونگ دل رہا ہے کہ بدعنوان عدالت نے اُسے ووٹوں کی گنتی میں رعایت دے کر الیکشن جتوا دیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے عدالت نے عوام کو ان کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس سے یہ رسم پڑ جائے گی اور آئندہ امریکہ میں امریکی عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت نہیں بن سکے گی‘‘۔ عوام نے بے باکی کے اس اظہا ر پر بہت تالیاں بجائیں۔ گور ویدال صحافیوں کو ناپسند کرتے تھے۔ جب کسی صحافی نے اُن سے 9/11 کے بارے میں رائے مانگی تو اُن کا کہنا تھا۔۔۔’’میں اپنی رائے کو حقائق کے طور پر پیش کرنا پسند نہیںکرتا، اسی لیے میں صحافی نہ بن سکا‘‘۔ بہرحال اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے 9/11 سے پہلے کی اخباروں کی ایک ایک لائن چھان ماری ہے تاکہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیںکہ دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کے لیے امریکہ کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کا ذکر آئے تو کیا پاکستان کو فراموش کیا جا سکتا ہے؟ مسٹر ویدال نے گارڈین کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر بش 9/11 سے بھی تین ماہ پہلے افغانستان پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ جولائی2001ء میں تین جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایک وفد نے برلن کے ایک ہوٹل میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق آفیسر لی گولڈرن سے ملاقات کی۔ ویدال کا کہنا ہے کہ گولڈرن نے اس وفد کو بتایا کہ بش طالبان سے نفرت کرتے ہیں؛ چنانچہ وہ ان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس وفد میں ایک پاکستان سفارت کار نیاز نائیک بھی موجود تھے۔ ویدال کا کہنا ہے کہ اس پاکستانی سفارت کار نے کچھ مخصوص تفاصیل بتاتے ہوئے رائے دی کہ صدر بش کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔ گور ویدال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔۔’’ایک امکان یہ ظاہر کیا گیا کہ بن لادن امریکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بش اور ڈک چینی کو 9/11 حملے کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی۔ صدر بش کو روسی ہم منصب پیوٹن، مصر کے حسنی مبارک اور اسرائیل کی موساد بھی خبردار کر چکی تھی۔ اس سے پہلے 1996ء میں ایک پاکستانی انتہا پسند عبدالحکیم مراد نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا تھا کہ وہ ہوائی جہاز اُڑانے کی تربیت حاصل کر رہا ہے تاکہ کسی طیارے کو سی آئی اے کی عمارت سے ٹکرایا جا سکے‘‘۔ اُس وقت بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے نیاز نائیک نے کہا تھا کہ اگر بن لادن گرفتاری دے دے تو بھی امریکہ جنگی منصوبے سے باز نہیں آئے گا۔ اس کے پیچھے تیل کا گندا کھیل کارفرما تھا؛ چنانچہ جنگ ملتوی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے بعد کی تفاصیل بہت سے لوگوں کے پاس ہیں کہ کس طرح تیل کی پائپ لائن بچھانے کے لیے اتنے انسانوں کو ہلاک کیا گیا۔ ویدال کا کہنا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے امریکہ نے اتنے دشمن بنا لیے ہیں کہ اب امریکیوں کے لیے سکون کی نیند سونے کے دن گزر چکے ہیں۔ وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیویارک، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا، پر آہستہ آہستہ رات کی تاریکی چھا رہی ہے۔ سب کچھ ملگجی دھند میں روپوش ہو رہا ہے۔ ایک وقت آنے والا ہے جب امریکہ تاریخ انسانی کا فراموش کردہ باب بن جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں