ہوسکتا ہے کہ بلال مشرف امریکہ کی انتہائی معتبر اور غیر منافع بخش تنظیم Sal Academy ، میں اچھے عہدے پر ملازمت حاصل کرنے کے اہل ہوں۔ چند سال پہلے تک، جب ان کے والد پاکستان کے حکمران تھے، ان کی شہرت اچھی نہ تھی بلکہ یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ پنجاب کی ایک اور بڑی سیاسی شخصیت کے صاحبزادے کے ساتھ مل کر بلال رِنگ روڈ لاہور کے اردگرد بہت سی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ جب جنرل مشرف اقتدار سے باہر ہوئے تو بلال بھی منظر عام سے غائب ہو گئے۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر سامنے ہیں اور اس مرتبہ وہ نوجوان نسل کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ وہ سال خان اکیڈمی میں تعلیم دینے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ نام آپ کو اجنبی تو نہیں لگا؟ سال خان کون ہیں اور ان کی اکیڈمی اتنی مشہور کیوں ہے؟ سال خان، دراصل ایک بنگالی نژاد امریکی ہیں اور ان کا اصل نام سلمان خان ہے۔ اُنھوں نے ھارورڈ بزنس سکول سے ایم بی اے کرنے کے علاوہ ایم آئی ٹی سے بھی تین ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔ وہ ملازمت بھی کر چکے ہیں لیکن جس طرح تعلیمی نظام میں فروغ ِ علم کے نام پر دولت سے تجوریاں بھری جارہی ہیں، وہ ان کے دل نے گوارا نہ کیا، چنانچہ ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد پینتیس سالہ سلمان خان نے اپنی بھتیجی کو، جو بہت فاصلے پر رہتی تھی، پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ نیواورلینز میں رہتی تھی اور اُسے گریڈ سات کے الجبرا کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ سال خان اُس وقت بوسٹن میں رہائش پذیر تھے اور وہ یوٹیوب پر اسباق کو نشر کرتے تھے تاکہ جس کو ضرورت ہو، ان سے استفادہ کر لے۔ آج سال خان کی ویب سائٹ کو 100 ملین سے زیادہ افراد وزٹ کر چکے ہیں۔ اس طرح وہ دنیا کے واحد ٹیچر ہیں جن کی سائٹ کو اتنے زیادہ افراد نے وزٹ کیا ہے۔ اس کے بہترین طلبہ میں دنیا کے سب سے امیر شخص بل گیٹس کا گیارہ سالہ بیٹا رورے (Rory) بھی شامل ہے۔ بل گیٹس مسٹر خان کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ رورے اور ان کے دو بھائی مسٹر خان کے آن لائن کورسز سے الجبرا اور بیالوجی کا سبق لیتے ہیں۔ چنانچہ مسٹر گیٹس نے اظہار ِ تشکر کے طور پر ان کی مفت تعلیمی خدمات فراہم کرنے والی اکیڈمی کو 1.5 ملین ڈالر عطیہ کیے ہیں۔ اس سرپرستی نے سال اکیڈمی کو مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ بل گیٹس کی طرف سے عطیہ حاصل کرنے کے علاوہ گوگل اوردیگر انٹر نیٹ ہائوسز نے بھی سال اکیڈمی کو کئی ملین ڈالر کے عطیات دیے ہیں۔ خان کو توقع ہے کہ وہ تعلیمی دنیا میں انقلابی تبدیلی برپا کر دیں گے۔ امریکی سکولوں نے ان کے طریقے کو آزمانا شروع کردیا ہے۔ چندسال پہلے فارچون میگزین نے لکھا ’’سال اکیڈمی کو امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور انڈیا سے کافی زیادہ تعاون ملا ہے۔ اب یہ باقاعدہ سکول قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ایک ایسا سکول جس میں کیمپس اور عمارت نہ ہو۔ ایک ایسا سکول جس پر کسی بڑے نام کی چھاپ نہ لگی ہوئی ہو‘‘۔ سلمان خان نے میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوںنے بل گیٹس کی یہ بات پلے باندھ لی… ’’کبھی کسی چیز کو ناممکن نہ سمجھو‘‘۔ اب سال خان دنیا کے نامی گرامی استاد بن چکے ہیں۔ اس وقت وہ بہت سے ٹی وی چینلز کے اشتہارات میں بھی آ رہے ہیں۔ ان اشتہارات کو ایک بینک سپانسر کرتا ہے۔ ان اشتہارات میں اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ بہت جلد وہ دنیا میں ایک نیا تعلیمی نظام قائم کر دیں گے۔ یہ بہت اچھا ہے لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کے عزائم میں کچھ مادیت پرستی کا عنصر بھی شامل ہو رہا ہے۔ بلال مشرف کے ان کی اکیڈمی کا حصہ بننے سے بھی شکوک و شبہات بڑھے ہیں۔ ایک پاکستانی نے بلال مشرف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ ایسا لگتا ہے کہ بلال مشرف کے اس اکیڈمی میں شمولیت اختیار کرنے میں تعلیم کے فروغ سے زیادہ شہرت کا حصول مقصود ہے اور سیاست دان کو سب سے زیادہ شہرت کی ہی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اس سے پہلے جنرل مشرف بھی امریکی اکیڈمیوں میں لیکچر دے چکے ہیں۔ ان کا موضوع پاکستان کی سکیورٹی کے مسائل اور دہشت گردی ہوتا تھا۔ چونکہ میں ایک امریکی اکیڈمی کا طویل ذکر کر چکی ہوں، اس لیے بیان میں توازن پیداکرنے کے لیے ایک پاکستانی سکول کا ذکر بھی کروں گی۔ یہ پاکستان کا تیسرا بہترین بزنس سکول ہے۔ اسے ’’سکھر آئی بی اے ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے حال ہی میں قائم کیا گیا ہے۔ اس کا کریڈٹ اس کے ڈائریکٹر نثار صدیقی صاحب کو جاتا ہے۔ اُنھوںنے کیمپس کا نظم و نسق اس طرح کا رکھا ہوا ہے کہ طلبہ کو بہترین علمی ماحول میسر آئے اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک میں مارکیٹنگ کے شعبے میں جا کر نام کما سکیں تاہم یہاں کا ڈسپلن بہت سخت ہے۔ یہاں پڑھنے والے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ یہاں کورس آئوٹ لائن بہت مشکل ہے اور اس کے لیے طلبہ کو رات دن ایک کرنا پڑتا ہے۔ سخت محنت کرتے ہوئے ان کے دل میں یہ فخر بھی جاگزیں رہتا ہے کہ وہ پاکستان کے تیسرے بہتر ین ادارے میں پڑھ رہے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں یہاں پیش آنے والے ایک افسوس ناک واقعے نے طلباکوخوفزدہ کر دیا۔ ہوا یوں کہ ایک طالب علم کی ہمشیرہ فوت ہو گئی لیکن کالج انتظامیہ نے اُسے جنازے میں شریک ہونے کے لیے چھٹی نہ دی۔ بہرحال وہ اس کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو مڈ ٹرم امتحان کو مس کر چکا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ اُس کو دوبارہ مڈٹرم امتحان میں شرکت کی اجازت دی جائے لیکن اس کی درخواست منظور نہ ہوئی۔ اس طرح کے سخت رویے سے طلبہ بعض اوقات بددل ہو جاتے ہیں۔ فزکس کے نامور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا۔۔۔ ’’ذہانت کی علامت علم نہیں بلکہ تصورات ہوتے ہیں‘‘۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی سخت ماحول میں علم تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ سختی تصورات کو کچل دیتی ہے۔ کیا ہمارے ہاں طلبہ کے تخیلات بھی کبھی بیدار ہوں گے یا ہم آہنی نظم و ضبط کے نام پر ان کی برین واشنگ کرتے رہیں گے؟ کیا ہمارے ہاں اداروںکی دیواریں کبھی نرم ہوں گی؟ کیا ہم بھی علمی تصورات کی طرف بڑھیں گے؟ کیا جاننے کے بعد سوچنا بھی ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ بنے گا؟