محرم میںاہل تشیع کربلا کے شہدا کی یاد میں ماتم کرتے ہیں جبکہ مختلف حلقے شہادت کے فلسفے اور اُس عظیم قربانی کا ذکر کرتے ہیں جو نواسۂ رسول نے حق کا علم بلند کرنے کے لیے دی؛ تاہم پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے معمول کے حالات نہیں ہیں۔ جب بھی محرم کا آغاز ہوتا ہے تو ماحول میں خدشات کے بادل چھا جاتے ہیں، دہشت گردی کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے، موت کی دھمکیوں سے شہریوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ خوف کا آسیب معاشرے کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ ہمارا ذہن ایک قلعے کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں ایک بھاری بھرکم دروازہ ہوتا ہے جس میں میخیں گڑی ہوتی ہیں تاکہ باہر سے کوئی مداخلت کار اندر نہ آ سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے قفل کی کنجی بھی ہمارے ذہن کے پاس ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بھی اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی قوت ارادی سے مشقت اٹھاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اس سے اپنی بات منوا لیں لیکن چوبیس گھنٹے ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ اس میں جاری خیالات کے بہائو کو کنٹرول نہیں کر سکتے ہیں ۔۔۔آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ خیالات کہاں سے آتے ہیں اور کون سی قوت ان کو تحریک دیتی رہتی ہے؟ ہم بے جان مورتیوں کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر عقائد کے نام نہاد علم برداروں کی بے سروپا (اکثر سازش کی تھیوریاں) باتیں سنتے رہتے ہیں۔ ان خطیبان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم ان سے ’’دانائی‘‘ سیکھیں اور اپنے لیے فیوض و برکات حاصل کریں لیکن افسوس، ایسا نہیں ہوتا۔ کیا ہمارا ذہن ہمہ وقت جاری اس خطابت کا جواب دے سکتا ہے؟ کیا وہ اس کے مقابلے میں ہمارا دفاع کرنے کے قابل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ماہرین نفسیات بھی دماغ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن ایک بات پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ خوف اور اوہام ذہن میں گھس جائیں تو اُنہیں نکالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس ذہنی مرض کا علاج ممکن نہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ یہ خوف و التباسات ذہن میں کیسے گھس جاتے ہیں۔۔۔ یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ امریکہ میں اگر آپ کسی ماہر نفسیات کے پاس جائیں تو وہ آپ کو پندرہ منٹ دے گا۔ وہ چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر آپ کو بولنے کا موقع دے گا۔ اس دوران وہ نہ کوئی سوال کرے گا، نہ کچھ نوٹ لکھے گا۔ کچھ دیر بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کا ذہن خالی ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ عام حالات میں آپ کا ذہن خیالات سے پاک کیوں نہیں ہو پاتا؟ بات یہ ہے کہ ذہن میں خیالات کی تحریک رد عمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔ جب سامنے عمل نہیں ہو گا تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کے خیالات کی رو ساکت ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کا ذہن ’’آپ‘‘ خود نہیں ہیں۔ وہ دراصل آپ کا اندرونی دشمن ہے۔ وہ آپ اور آپ کے اردگرد رہنے والے افراد کی زندگی تباہ کر سکتا ہے۔ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو بھی دراصل ہم تنہا نہیں ہوتے۔ ذہن کے ہاتھوں کوئی فرد بھی تباہ ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ فرد ایسا ہو جو بہت سے افراد کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہو تو پھر وہ معاشرہ تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں، آپ کے ایک سابق صدر منصب سنبھالنے سے ایک سال پہلے نفسیاتی عارضے میں مبتلا پائے گئے تھے۔ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کے مطابق وہ سخت ہیجان، منتشر خیالی، ذہنی خلجان اور خوف کا شکار تھے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب ایسا شخص اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو تو وہ ملک کن حالات سے دوچار ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے موجودہ حالات پر ایک طائرانہ نظر ہی سب کچھ کہنے کے لیے کافی ہے۔ مشہور مصنف، فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل کا کہنا ہے ۔۔۔’’توہم پرستی اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی اذیت پسندی کی ایک بڑی وجہ اندرونی خوف ہی ہے۔ اگر آپ خوف پر قابو پالیں تو آپ کی دانائی کا سفر شروع ہو سکتا ہے‘‘۔ رسل خوف کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔’’یہ انسان کو تین جہتوں سے مجہول بناتا ہے۔۔۔ آپ فطرت، دیگر انسانوں اور اپنے آپ سے نمٹنے کے قابل نہیں رہتے ہیں‘‘۔ جانا رچمین (Jana Richman) کا کہنا ہے۔۔۔ ’’میں نے سنا ہے کہ ہر قسم کا خوف موت کے احساس سے بیدار ہوتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے سماجی نظام موت کے خوف کو اجاگر کرتے ہیں جبکہ اس کے رد عمل کے طور پر ہم اس خوف سے نجات پانا چاہتے ہیں؛ تاہم موت اتنی اٹل حقیقت ہے کہ اس کا خوف زندگی میں کسی مسئلے کا باعث نہیں بنتا۔ ہر انسان کی طرح میرے لیے زندگی، نہ کہ موت، ایک مسئلہ ہے؛ تاہم جب زندگی کے مسائل حد سے بڑھ جائیں تو پھر ہم موت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں‘‘۔ چونکہ ہمارا ذہن ہمارے قابو میں نہیں ہے، اس لیے وہ موت کی خواہش کو ایک پناہ گاہ کے طور پر لیتا ہے۔ یہ ایک خوفناک معاملہ ہے کیونکہ زندگی کے مسائل کے لیے زندگی کے پیمانے ہی استعمال ہونے چاہئیں۔ موت ایک حد ہے، اس لیے مسائل کا حل اس کے پار نہیں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، ان کی تفہیم کے لیے ہمارے لیے رسل کے مضامین بہترین رہنمائی پیش کر سکتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں کتب بینی کے روایت ناپید ہوتی جا رہی ہے، اس لیے یہ خواہش کرنا رات میں سورج تلا ش کرنے کے مترادف ہو گا کہ کم از کم نوجوان نسل رسل کا مطالعہ کرے۔ ہمارے دفاعی اداروں، سول حکمرانوں اور افسر شاہی کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی خوف کی فضا کس چیز کا رد عمل ہے اور اس سے اجتماعی اور انفرادی ذہن کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوںکا سب سے بڑا خوف یہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ اقتدار سے محروم نہ ہو جائیں، اس لیے وہ اس سے باہر نہیں آ سکتے۔ اسی طرح عام شہری ہوں یا حکمران، خوف ہمارے اندر موجود رہتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے ہم اپنی یادداشت سے محروم ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ عوام کی اکثریت سیاست دانوں کی سیاہ کاریوںکو بہت جلد بھول جاتی ہے۔ اس طرح خوف نے سیاست دانوں کا احتساب بھی ناممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت یہ اندرونی خوف ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔۔۔ طالبان صرف اس کا بیرونی اظہار ہیں۔ ہم بطور ایک قوم ایسے مرض کا شکار ہو چکے ہیں جس کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ پس چہ باید کرد؟ کیا ہم مایوس ہو جائیں؟ ہرگز نہیں! ماہرین کا کہنا کہ خوف کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی جہت تبدیل کی جا سکتی ہے۔ رد عمل کے طور پر اسے مثبت فعالیت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ایسا کس طرح ممکن ہو گا؟ کیا ہمارے دانشور ٹی وی پر بے کار بحث (جیسے شہید ہے یا نہیں ہے وغیرہ) سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرض کو کسی مثبت فعالیت میں ڈھالنے کا گر بتائیں گے؟۔ کیا اُن کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔ یاد رکھیں، ہرن کے بہت سے دشمن ہوتے ہیں، اسی لیے اس میں تیز بھاگنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے۔ خوف کچھ دیگر صلاحیتوں کو مہمیز دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی خوف کے اندھیرے نے ہماری قوم کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہو۔ ترجمانِ حقیقت نے کہا تھا ؎ خطر تاب و تواں را امتحان است عیار ممکنات جسم و جان است امید رکھنی چاہیے کہ ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔