امریکی معاشرے کے کچھ روشن پہلو

امریکہ میں وہ واحد برائی جس کے بارے میں ، میں آپ کو بتا سکتی ہوں، مادیت پرستی ہے‘ جس کا مظاہرہ خاص مواقع پر دیکھنے میں آتاہے۔ ان میں سے بدترین ''بلیک فرائڈے‘‘ ہے۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جب ہر سال نومبر میں ''اظہار ِ تشکر‘‘ (Thanksgiving) کے بعد دکانیں علی الصبح کھولی جاتی ہیں۔ یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے جب تمام امریکی اپنے اپنے اہل ِ خانہ کو کھانا پیش کرتے ہیں۔ خاندان کے افراد دور دراز کا سفر طے کرکے اپنے عزیزوںکے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی ایسی تقریبات کا انعقاد عمل میں آئے اور ہم بھی اپنے رشتے داروںکے ساتھ مل کر کھانا کھا ئیں‘ جیسا کہ امریکی کرتے ہیںاور خدا کا شکر ادا کریں۔ 
کچھ عرصہ پہلے میرے دوست ہیرولڈ گولڈ سٹین نے لکھا تھا۔۔۔''آسمان صاف ہے ، موسم بہت عمدہ ہے اور ہم تمام دوست اور خاندان کے افراد اکٹھے ہیں۔ ہم اس بات پر شکرادا کررہے ہیں کہ ہم امریکہ کے شہری ہیں اور ہم پیار محبت کی فضا میں امن کے ساتھ سانس لے رہے ہیں۔ اس کے برعکس یورپ میں معاشی غیر یقینی کی فضا گہری ہورہی ہے،جبکہ باقی دنیا انسانی حقوق کے حوالے سے اچھا ریکارڈ نہیں رکھتی ‘‘گولڈسٹین کی عمر تراسی سال ہے اور وہ پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب وہ اسّی کی دہائی میں لاہور میں تھے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ شکر ہے کہ امریکہ کی گلیوں میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا رواج نہیںہے۔ یہاں فضا میں گھٹن نہیںہے اور ہر شخص دوسروں کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔ یہاں خاص خاص مواقع پر اہل ِ خانہ اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان محبت اور یگانگت کی فضا پائی جاتی ہے۔ یہ مشترکہ فیملی نظام، جس میں افراد میں ایک دوسرے سے فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں، سے کہیں بہتر ہے ۔ کیا امریکی معاشرہ خوشی کا راز پا چکا ہے؟ صدر اوباما اپنے شہریوں پرزور دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اُنہیں یقین رکھنا چاہیے کہ امریکہ اپنے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر تمام امریکی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو ان مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ 
تھینکس گیونگ امریکہ کا قدیم ترین اور پسندیدہ ترین تہوار ہے۔ یہ اُس دن کی یاددلاتا ہے جب پانچ سو سال پہلے اس نئی دریافت ہونے والی دنیا کے کنارے آباد کار اترے تھے۔ اُنھوںنے نومبر کی آخری جمعرات کو ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں مقامی انڈینز کو بھی دعوت دی گئی۔ اس طرح دودنیائوں کے اشتراک کے عمل کا آغاز ہوا۔ 
Thanksgiving کی اصل روح یہ ہے کہ ہم اپنا کھانااپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ ساتھ ، ان کے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں جن کا کوئی خاندان نہیںہوتا۔ نیویارک ٹائمز اپنے اداریے میں لکھتا ہے۔۔۔''اس موقع پر کھانے سے زیادہ ہماری (اور دوسروں کی) موجودگی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔‘‘ موسم خاصا سرد تھا جب ایک پتھریلے فٹ پاتھ پر مجھے دو افراد دکھائی دیے۔وہ سردی سے بچنے کے لیے سیب کا ''گرم جوس‘‘ پی رہے تھے اور ان کے سامنے ایک چولہا جل رہا تھاجس پر کچھ پکایا جارہا تھا۔ میں وہاں رکی تو میںنے پوچھا کہ اس بڑے برتن میں کھانا پکانے کا مطلب ہے کہ آپ کے ہاں بڑی تعداد میں مہمان آرہے ہیں تو ان میں سے ایک، جس کا نام سام تھا، نے کہا یہ تمام کھانا بے گھر اورضعیف افراد کے لیے ہے۔ ہم کھانا پکاتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے کچھ دوست اسے تقسیم کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 
ہم میں سے اکثر افراد امریکیوںکے بارے میں بہت سی آراء رکھتے ہیں لیکن یقین کرلیں ، ان میں اکثر من پسند اور خودساختہ ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی دوسروں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کا معاشرہ انسانی ہمدردی کے کاموں ، جیسا کہ ضرورت مند افراد کی مدد کرنا ، میں حصہ لینا پسند کرتا ہے۔اس کے موقع پر ، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، وہ بڑے فخر سے ایپرن پہن کر میزوں کے گرد کھڑے ہوکر انتظار کرتے ہیں کہ ان کے ہاں مہمان آئیں اور وہ ان کو کھانا کھلائیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تقریبات کو مذہبی رنگ دینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس سے اختلاف کا پہلو نکل آتا ہے۔ میں نے بہت سے سابقہ صدور اور خواتین ِ اول کو ایسا کرتے دیکھا ہے کہ وہ عام غریب افراد کو اپنے ڈائننگ روم میں خودکھانا پیش کرتے ہیں۔ ایک اور بات، امریکیوں کے گھروں میں عام کام کاج کے لیے ملازم نہیںہوتے۔ وہ گھر کا تمام کام خود ہی کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے گھروں میں ۔۔۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہے۔۔۔ کام کی تقسیم بھی نہیں ہے کہ کھانا پکانے اور صفائی کرنے یا بچوں کا خیال رکھنے کا تمام کام خواتین سرانجام دیں ۔ امریکی آدمی گھر میں کام کرنا ''مردانگی ‘‘ کے خلاف نہیں سمجھتے۔ میںنے کئی گھروں میں آدمیوں کو برتن دھوتے دیکھا ہے اور اگر اس دوران کوئی مہمان آجائے تو وہ اپنی توہین ہر گز نہیں سمجھتے۔ میں نے دیکھا کہ ایک معمر شخص بہت دقت سے کار سے نیچے اترا اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر اپنے رشتہ داروں کے گھر گیا ۔ تکلیف کے باوجود،اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ 
ہر سال ہزاروں افراد مین ہیٹن میں شاپنگ سٹورMacy کے دروازے کھلنے کا انتظا ر کرتے ہیں ۔جب بارہ بجتے ہیں تو وہ دریا کے سیلاب کی طرح تیز رفتاری سے باہر نکلتے ہیں۔ ان کے جسم ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہوتے ہیں تاکہ وہ جلدی سے صبح بیدار ہونے والے ''پرندوں‘‘ کی جھلک دیکھ سکیں۔ اس موقع پر الیکٹرانک اشیا ہاتھوںہاتھ بکتی ہیں۔ اس طرح یہ تہوار امریکی سرمایہ دارانہ نظام کا مظہر بن جاتا ہے۔ حال ہی میں کیلیفورنیا میں رہنے والے مسٹر راس صدیقی نے مجھے ایک اخبار میں شائع ہونے والا مضمون بھیجا ہے۔ اس مضمون میں University of Minnesota کے ایک پروفیسر اپنا کالم ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں۔۔۔'' آپ کس چیز کا شکر ادا کرتے ہیں؟‘‘اس پر وہ پروفیسر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ وہ شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ حیران نہ ہوں۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی ملک وہ نہیںہے جس کے زیادہ تر باشندے خود کو مسلمان قرار دیتے ہوں، بلکہ اسلامی ملک وہ ہے جہاں اسلامی اقدار عملی طور پر رائج ہیں ۔اپنی بات کی وضاحت کرنے کے لیے وہ مثال دیتے ہیں کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حدیث شریف ہے کہ ''صفائی نصف ایمان ہے‘‘اس کا مطلب ہے کہ ہر ذاتی صفائی سے لے کر ماحول کی صفائی اسلام کا تقاضا ہے، لیکن آج کوئی اسلامی ملک ایسا نہیںہے جو صفائی کے اس پیمانے پر پورا اتر سکے۔اس کے برعکس امریکہ میں ایسا ہوتا ہے ۔ وہ ماحول کی صفائی کے لیے پوری کوشش کررہے ہیں اور ذاتی زندگی میں کوئی شخص گلیوں اور سڑکوں کو گندہ کرنے کا تصور بھی نہیںکر سکتا۔ اسلام سخاوت کی تلقین کرتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ سخاوت کے میدان میں امریکیوںکا کوئی حریف نہیںہے۔اسلام کا حکم ہے کہ دین کے معاملے میںکوئی جبر نہیںہے ۔ دنیا میں امریکہ سے زیادہ مذہبی آزادی اور کسی ملک میں نہیں ہے۔۔۔ کیا ہم ان بنیادوں پر پاکستان کو ایک اسلامی ملک بنانے کی خواہش رکھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں