صحافت ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔جیسے بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں،اسے صرف دلکش زندگی کی طرف جانے والا راستہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ہاں،اگر صحافیوں پر قسمت کی دیوی مہربان ہوجائے تو پھر ان کی رسائی اہم افراد اور اہم مقامات تک ممکن ہوجاتی ہے اور اگر آپ ایک نوجوان اور حسین لڑکی ہیں تو پھر آپ کو بہت ہی خاص مقام بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ میں جانتی ہوںکہ یہ الفاظ پڑھ کر میڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین میری جان کو آجائیںگی لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ہر شعبے ، خاص طور پر صحافت میں لوگ نوجوانی اور خوبصورتی کے رسیا ہوتے ہیں۔
بہت عرصہ پہلے، جب میں ڈان کے کراچی دفتر میں کام کرتی تھی ، ایک دن ایک کالم میری نظر سے گزرا ، میں نے اسے سرسری انداز میں پڑھا اور توجہ دیے بغیر ایک طرف رکھ دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے لکھنے والی ایک معمر خاتون صحافی تھیں اور اس شعبے میں ایسے ''افراد ‘‘ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا جاتا۔ میںنے سوچا کہ میں ان کی پروا کیوں کروں، ابھی میںنوجوان ہوں اور بطور صحافی میرے سامنے پوری زندگی پڑی ہے ۔۔۔ پھرکسی کوگزرے ہوئے ماہ وسال کی کیا فکر؟ بھارتی وزیر ششی تھرور، اس کی آنجہانی بیوی سنندا اور ایک پاکستانی صحافی لڑکی مہر تارڑ کا معاملہ جسے ''ٹوئیٹر وار‘‘ کا نام دیا گیا ، سوشل میڈیا میں کافی ''رش‘‘ لے رہا ہے ، اس کے بارے میں پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ اُس معمر خاتون صحافی نے خواتین کو مشورہ دیا تھا کہ جب اُن کا حسن ساتھ چھوڑنے لگے تو جنسِ مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بہت سے زیورات پہنیں۔ اُنھوںنے اپنے مضمون میں لکھا تھا: ''جب آپ کی عمربڑھنے لگتی ہے تو آپ کی جسمانی کشش جواب دے جاتی ہے،ایسے میں زیورات آپ کو اعتماد بخشتے ہیں اور آپ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے ارد گرد موجود لوگ آپ کو نظر انداز نہیں کررہے‘‘۔ ششی تھرور کی آنجہانی بیوی سنندا کی درجنوں تصاویر دیکھنے کے بعدمجھے جس چیز کا بہت شدت سے احساس ہوا وہ یہ تھی کہ اُس نے بہت سے زیورات پہنے ہوئے تھے اور اس کے ریشمی ملائم بال بہت لمبے تھے ؛ تاہم وہ اپنی جوانی کی حدود سے گزرچکی تھی ، موت کے وقت اُس کی عمر باون سال تھی،اس لیے وہ کسی اعتبار سے بھی اپنی ''حریف‘‘ پاکستانی صحافی، کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ اس کے باوجود اُنہیں ششی تھرور کا دل اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے تھی۔ دوسری طرف شوہر کی‘ جو ایک دل پھینک قسم کا آدمی ہے، نظریں ادھر اُدھر بھٹکنے لگیں، یہاں تک کہ اگر سنائی جانے والی کہانی درست ہے توسرحد پار ''دراندازی ‘‘ کرنے لگیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ششی تھرور ستاون برس کے ہیں اورمرد اس عمر میں بھی نوجوان اور نوخیز لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کرسکتے ہیں، لیکن عورتوں کو یہ ''سہولت ‘‘ میسر نہیں۔
اب میں دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف آتی ہوں کہ میڈیا میں مرد حضرات فوراً نوجوان خوبصورت لڑکیوں پر فریفتہ کیوں ہوجاتے ہیں؟جب میں نے تیس سال پہلے اس شعبے میں قدم رکھا تو بہت سوں کا خیا ل تھا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں دنیاکے دولت مند اور مشہور افرادکی صف میں کھڑی ہوسکتی ہوں ۔۔۔ یقیناً میرے لیے وہ جادوئی لمحات تھے۔ ششی تھرور کے لیے اس عمر میں جادوئی لمحات وہ ہوں گے جب ایک نوجوان پاکستانی لڑکی نے ان کا انٹرویو کیا اور وہ ان کی وجاہت پر مر مٹی۔ میں جانتی ہوں کہ وہ بہت متاثر کن ہے۔کئی سال پہلے میں انہیں اُس وقت ملی تھی جب وہ نیویارک میں یواین میں کام کرتے تھے۔ ان کو دیکھ کر پہلا احساس یہ ہوا تھاکہ وہ خود پسند اور پراعتماد انسان ہیں جنہیں اپنی کامیابی کایقین ہے۔ اُس وقت اُن کی ایک کتاب بھی منظر ِ عام پر آئی تھی اور نیویارک ٹائمزسمیت ہرطرف سے ان کی تعریف ہورہی تھی ۔ پاکستان میں ہمارے سامنے بہت سی مثالیں ہیں کہ نوجوان لڑکیاں صحافت میں آئیں اوروہ اپنی صلاحیتوںسے کام لے کر شہرت کے اس زینے پر پہنچیں جس کا عام انسان خواب بھی نہیں دیکھ سکتا؛ تاہم ان محنتی اور باصلاحیت خواتین کے علاوہ کچھ ایسی بھی تھیں جنھوںنے اپنے قلم سے کم اور اپنے حسن سے زیادہ نام اوردولت کمانے کی کوشش کی۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، لیکن اس شعبے سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کن کی طرف اشارہ کررہی ہوں۔
سرحد کی دوسری طرف بھی کہانی ایسی ہی رہی ۔ ہمارے سامنے آتش تاثیرکی کہانی ہے جن کی صحافی والدہ تولین سنگھ کا سلمان تاثیر مرحوم کے ساتھ معاشقہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔جانے آتش تاثیرکواپنے ماضی سے جان چھڑانے کے لیے مزید کتنی کتابیں لکھنی پڑیں گی ۔کرسٹینا لیمب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کے لیے مارے جانے والے شب خون کی کہانی لندن کے فائنانشل ٹائمز کے لیے لکھی تھی ؛ تاہم وہ ایک بے بنیاد کہانی تھی اس لیے اخبار کو معذرت کرنا پڑی اور کرسٹینا کو پاکستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے بعد اُس نے انتقام لینے کے لیے لندن جا کر کتاب لکھی: ''Waiting for Allah‘‘ اور بہت سے وزراء اور فوجی افسران کے نام ظاہر کردیے جو اس کے ساتھ دوستی کرنے کے عوض اُسے کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار تھے۔ ہوسکتا ہے ، قارئین یہ نتیجہ نکال لیں کہ صحافت میں خواتین اور وہ بھی نوجوان اور خوبصورت ، زیادہ کامیاب کیوں رہتی ہیں، لیکن یہ بات سو فیصد درست نہیں۔ کچھ کو ''استثنیٰ‘‘ حاصل ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر لڑکیاں محنتی، ذہین اور باصلاحیت ہیں اور کسی ایک آدھ مثال سے سب کے بارے میں منفی تاثر اجاگر نہیں ہونا چاہیے۔ ایک فطری بات ہے کہ نوجوان لڑکیاں لڑکوں کی نسبت صحافت میں اس لیے کامیاب ہوجاتی ہیں کہ وہ اس پیشے کو دل وجان سے اپنا چکی ہوتی ہیں جبکہ لڑکوں کی نظر کئی اور میدانوں پر بھی ہوتی ہے اور مختلف جگہوں پر قسمت آزمائی سے باز نہیں آتے۔ صحافت کا شعبہ یکسوئی مانگتا ہے؛ چنانچہ باصلاحیت اور پرعزم لوگ اس میں کامیاب رہتے ہیں۔
جب میں امریکا پر نظر ڈالتی ہوں تو مجھے چوراسی سالہ باربرا والٹرز دکھائی دیتی ہے، وہ جب نوجوان اور دلکش تھی، مردوںکی دنیا میں ''غیر محفوظ ‘‘ تھی۔ شروع میںاس کا ایک سیاہ فام سینیٹر کے ساتھ سکینڈل سامنے آیا جو اس سے تیس سال بڑ ا تھا، لیکن اس کے بعد وہ سنبھل گئی اور اپنی پوری توجہ ٹی وی پر دی۔ اس کے علاوہ این سنکلیر (Anne Sinclair) ہیں جو فرنچ اور امریکی ٹی وی اور ریڈیو پرایک عشرے تک مشہور سیاسی شخصیات کے انٹرویو کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ آئی ایم ایف کے ایم ڈی ڈومینک سٹراس کاہن کے عشق میں مبتلاہوگئی اور اس سے شادی کرلی۔2011ء میں مسٹر کاہن کوہوٹل کی ملازمہ سے زیادتی کے الزام میں قید کی سزا سنائی گئی۔پہلے تو این نے اپنے شوہر کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن پھر علیحدگی اختیار کرلی۔ ششی تھرور کا معاملہ افسوس ناک ہے کیونکہ اس کی بیوی مرچکی ہے اوراس کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا کیونکہ صحافت کو خوبصورتی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔