ذمہ داری سے کام لیں

پاکستان کے دو انگریزی اخبارات نے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف کی ملاقات کو دو مختلف انداز میں بیان کیا۔ ان دونوںکے اندازمیں فرق ان کی داخلی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ ایک اخبارکا پہلا پیراگراف اس طرح ہے: '' پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور سول قیادت نے بدھ کو ملاقات کرتے ہوئے کراچی میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا۔گورنر ہائوس کراچی میں ہونے والے اس اجلاس کی صدارت وزیرِ اعظم نواز شریف نے کی‘‘۔ دوسرے اخبارکا پہلا پیراگراف اس طرح تھا : '' آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملک کی سیاسی قیادت کو یقین دلایا کہ سکیورٹی اور امن وامان کی بحالی کے لیے مسلح افواج صوبائی حکومتوں کی بھرپور معاونت کریںگی‘‘۔ اگر خبر لگانے اور متن پیش کرنے کے انداز پر غورکیا جائے تو پہلے اخبار نے سول اور فوجی قیادت کو ایک سطح پر رکھتے ہوئے ان کے درمیان مشاورت کا تاثر دیا جبکہ دوسرے اخبارکے انداز سے یہ تاثر ملا کہ مسلح ادارے بخوشی سیاسی حکومت کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے ان کے احکامات بجالانے کاعندیہ دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی تاثر ابھرتا ہے کہ دفاعی ادارے سول حکومت کے راستے میںکوئی رکاوٹ نہیں ڈالیںگے۔کیا یہ آئی ایس پی آرکا فرض نہیں کہ وہ کم از کم ایسے معاملات پر اخبارات کو ہدایت جاری کردیا کریں تاکہ کوئی ابہام پیدا نہ ہو؟
جہاں تک الیکٹرانک میڈیاکے ایڈیٹرزکا تعلق ہے، وہ بھی ابہام پیدا کرنے میں پرنٹ میڈیا میں موجود اپنے دوستوں سے پیچھے نہیں ہیں ۔ حال ہی میں ایک مارننگ شو میں متنازع قوالی پیش کرنے پر اس پروگرام کی میزبان اور ٹی وی چینل کو عوامی تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وہ میزبان معافی کی خواستگار ہوئی کہ وہ غلطی بھولے سے سرزد ہو گئی۔ دراصل اس مسئلے کی ذمہ دار صرف میزبان ہی نہیں بلکہ اس پروگرام کا ایڈیٹر بھی اتنا ہی ذمہ دار تھا۔ یہ اینکر کوئی نو آموز نہیں بلکہ کئی عشروںسے ایسے شو پیش کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں لیکن جب لوگ زیادہ تجربہ کار ہوجاتے ہیںتو شاید احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔یہ مسئلہ ایسے لوگوں کو درپیش ہوتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں اب مزید سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ کہ ہم جو کر رہے ہیں‘ صحیح کر رہے ہیں۔
جب ایک غیر ملکی نامہ نگار نے اپنے اخبار کے لیے ایک متنازع رپورٹ فائل کی تو اسے ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دفاعی اداروں پر بھی میڈیا میں تنقیدکر لی جاتی ہے لیکن جب کوئی ایک حد سے قدم باہر نکالتا ہے، اسے اس جسارت کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ میدان یو ں سج جاتاہے کہ کچھ ایڈیٹرز اس طرف ہوجاتے ہیں اورکچھ اُس طرف ؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمتیں بدلتی رہتی ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مدیران محترم کے پاس اپنے ہر موقف کا جواز موجود ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پرخبروںکا معیاردیکھنا ہو تونوٹ کیجیے کہ بعض چینلز پر دھماکہ خیز انداز میں دکھائی جانے والی بریکنگ نیوز عام طور پر ایک گھنٹے بعد پیش کیے جانے والے خبرنامے میں موجود نہیں ہوتی۔
میڈیا پر جاری افسوسناک جنگ اس امر کی غماز ہے کہ اب ہمارے پاس دشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ کیا پابندی کسی مسئلے کا حل ہے؟ ایسا نہیں کہ قصور وارکو سزا نہ دی جائے لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ اس موقع پر اپنے گھر کودرست کرنے کا سوچا جائے؟ دراصل ہمارے ایڈیٹرز پراب بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اس مقام پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں یا پھر معاملات کو مزید خرابی کی طرف جانے کی اجازت دے دیتے ہیں؟ ایک بات جو ہمارے سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ تنقیدی مضامین اپنی جگہ پر لیکن خبروں کا معیار‘ پسند و ناپسند کی چھلنی سے نہیں گزرنا چاہیے۔ بلکہ اسے میرٹ پر دیکھا جانا چاہیے۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک خبر جسے انتہائی کم اہمیت ملنی چاہیے ‘ اسے نو بجے کے خبرنامے میں پہلی خبر کے طور پر چلایا جارہا ہو۔ اسی طرح بریکنگ نیوز کے سلسلے پر بھی از سر نو غور کرنا ہو گا۔ لوگوں کو بریکنگ نیوز ضرور دیں لیکن کون سی؟ اس کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ شروع شروع میں لوگ یہ سب پسند کرتے تھے۔ لیکن اب لوگ واقعتاً سچ دیکھنا چاہتے ہیں۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان کے لیے خبروں کے کئی پلیٹ فارمز میسر ہیں۔ ایسے میں جو بھی بہتر انداز میں کوریج کرے گا‘ لوگ اسی کی طرف مائل ہوں گے۔ بیشتر لوگ ویب سائیٹس پر خبریں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی وی چینلز پر خبر میچور ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی گئی خبر اگلے روز یکسر تبدیل بھی ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی کنگ میکر کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہیںکرنی چاہیے۔ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ اپنے ہی وزن سے اتنا بوجھل ہوگیا تھاکہ اس کا ٹھوکرکھانا ناگزیر لگتا تھا۔ اب ہوا یوںکہ ایک میڈیا ہائوس سے غلطی ہوئی اور وہ اس کی گرفت میں آگیا لیکن اس کو اچھالنامزید غلطی کے مرتکب ہونے کے مترادف ہے۔ نشاندہی کرنے، خفیہ رپورٹ منظرِ عام پر لانے، خبر بنانے اورکیچڑ اچھالنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ایڈیٹرز کو یہ فرق جتنی جلدی سمجھ میں آجائے اتناہی اچھا ہے ورنہ خدشہ ہے کہ گرفت کا دائرہ تنگ ہونے والا ہے۔ 
اگر آپ مختلف اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں توآپ کوایک بات کا اندازہ ہوگا کہ جب آپ مختلف کالم نگاروںکے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں ( نام لینے کی ضرورت نہیں) توا یسا لگتا ہے کہ آپ کوئی تجزیہ نہیں، من پسند خبری رپورٹ پڑھ رہے ہیں جبکہ خبری رپورٹ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آپ تجزیہ یا جائزہ پڑھ رہے ہیں ، یعنی جہاں معروضیت کی ضرورت ہے، وہاں داخلی جذبات کا اظہارہوتا ہے۔میرے ان الفاظ سے اصلاح کا پہلو مراد لیا جائے کیونکہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور پانی کابرتائو سب کشتیوںکے ساتھ یکساں ہوتا ہے، کوئی مغالطے میں نہ رہے۔ 
اگر ہم موجودہ معاملات میں اصلاح کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کریں توبہتر ہے۔ ہمیں ایک تاثر سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے کہ کسی ایک کی تباہی سے دوسرے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ معیشت کے تمام اصول اس مغالطے کی نفی کرتے ہیں۔ ہم پھل خریدنے کسی ایسی جگہ نہیں جاتے جہاں صرف ایک ہی دکان ہو بلکہ وہاں جاتے ہیں جہاں ایک سے زائد دکانیں ہوں۔ میڈیا میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ وہ تمام افراد جو دفاعی اداروں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں ، ان کے جذبے کی قدر کی جانی چاہیے لیکن ڈرتے ڈرتے، جان کی امان پاتے ہوئے، ان سے ایک سوال کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ اگر آپ کو اپنے قومی اداروں سے اتنی محبت ہے تو پھران لوگوں کی مذمت بھی اسی انداز میں کریں جو ہمارے دفاعی اداروں کو نشانہ بناتے‘ اہم تنصیبات کو تباہ کرتے اور عام شہریوںکو بے دردی سے قتل کرتے ہیں؟ بحیثیت قوم یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم توازن قائم رکھیں اور خود کو ایک منظم قوم کے طور پر پیش کریں ۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ہجوم کی مانند ہیں جس کی کوئی سمت ہے نہ ہی اسے کنٹرول کرنے والا کوئی لیڈر موجود ہے۔ جب تک ہم اپنا محاسبہ نہیں کریں گے اس طرح کے بحران جنم لیتے رہیں گے۔ قدرت نے ہمیں منظم ہونے کا ایک بھرپور موقع دیا ہے۔ اگر ہم نے یہ موقع بھی ضائع کردیا تو اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین بحران جنم لیتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں