روایتی میڈیا بے اثر ہورہا ہے؟

ایک انگریزی روزنامے میں ایک معروف صحافی لکھتے ہیں۔۔۔ ''امید کی جانی چاہیے کہ میڈیا ہائوسز میں ابھی بھی دانائی کی اتنی رمق ضرور پائی جاتی ہے کہ اس حقیقت کی تفہیم کرلیں کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے آگے بڑھ کر مذہب کو استعمال تو کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے والے آخری نہیںہوںگے۔گمان کیا جانا چاہیے کہ ہر میڈیا گروپ میں مدبر اور مثبت سوچ رکھنے والے پیشہ ور صحافی حضرات موجود ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ میڈیاکو مزید خرابیوںسے بچانے کے لیے اپنے اپنے ادارے میں سٹینڈلیں ۔‘‘
یہ صحافی پہلے ایک اخبار کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ان کا حسنِ ظن اپنی جگہ پر ، لیکن پاکستانی میڈیا میں توازن، معروضیت اورمنصفانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیے کے پیمانے تنگ ہورہے ہیں۔تقریباً دوسال پہلے میںنے ٹی وی چینلز پر ہونے والی گفتگوکے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی وجہ سے قوم کو باتیں سننے کا نشہ سا ہورہا ہے اور وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر یہ پروگرام دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ سیکھنے کی بجائے سیاسی مخالفین کی ایک دوسرے پر الزام تراشی کا مزہ لیتے ہیں۔ آج ایسے پروگراموں نے ترقی کا ایک زینہ اور چڑھتے ہوئے یہ گُل کھلایا کہ سیاسی رہنمائوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نشر کرنے کی بجائے خود ایک دوسرے پر گرجنا برسنا شروع کردیا ۔ شاید ہمارے ہاں اسی معکوسی عمل کا نام ترقی ہے۔ 
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار بل کیلر(Bill Keller) اپنی صحافی برادری کو ''بے کیف، بسیار گو، تنک مزاج اورکم کوش ‘‘ قراردیتے ہیں۔ جب کوئی ان پر وار کرتا ہے تو یہ جھٹ سے صحافتی آداب اور قلم کی حرمت کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو پھرخامہ بردار ہاتھ شمشیر بکف بن جاتے ہیں۔ زرداری حکومت کے آخری ایّام میں بھی بحث و تکرار عروج پر تھی ، اس لیے عوام کے سامنے اصل حقائق نہ آسکے۔ دراصل ہمارے سیاست دانوں کی طرح میڈیا نے بھی چیخ پکار کی آڑ میں حقائق کو چھپانا سیکھ لیا، ا س لیے اب یہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر میڈیا پر اس طرح دھما چوکڑی مچائی گئی کہ عوام کے سامنے نواز شریف، زرداری اور عمران خان کا منشورنہ آسکا ۔جب عوام کو پتہ ہی نہیں کہ سیاسی جماعتیں جیت کر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیںتو جمہوری عمل کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔مہذب ممالک میں مہینوں سیاسی مخالف نہایت متانت سے اپنا اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہیں۔۔۔ حریفوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے لیکن اس طرح شور نہیں مچایا جاتا۔ ہم اکثر ان کے مباحثے بہت رشک بھری نظروںسے دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ کیا یہ سیاست دان کسی اور سیارے سے آئے ہیں یا ان کی خوراک یہ گندم نہیں جو ہم کھاتے ہیں؟
کیا سیاسی جماعتوںکی طرف سے انتخابی منشور پیش کرنے کی کوئی اہمیت ہوتی ہے؟اگر لوگوںنے بلاسوچے سمجھے ووٹ دیتے ہوئے سیاست دانوں کومنتخب یا رد کرنا ہے تو پھر منشور کی کیا ضرورت؟یاد پڑتا ہے کہ جے اے رحیم نے نئی وجود میں آنے والی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی، کے لیے ایک شاندار نعرہ ترتیب دیا تھا۔۔۔''اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت، اور اصل قوت عوام کے پاس ہے۔‘‘ اس نعرے نے درمیانے اور کم آمدنی والے طبقے کی نظر میں بھٹو صاحب کو ایک محبوب رہنما بنادیا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ جب دسمبر 1970ء کی شام کو انتخابی نتائج آرہے تھے اور ہم اپنے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر نظرجمائے بیٹھے تھے جبکہ پی پی پی کی فتح کا پرچم لہرا رہا تھا تو گمان ہورہا تھا کہ ملک میں عام آدمی کے دن بدلنے والے ہیں اور یہ کہ ملک حقیقی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہونے والا ہے۔ فضا میں اس نغمے کی گونج بھی موجود تھی ۔۔۔''اب راج کرے گی خلق ِ خدا۔‘‘تاہم اس کے بعد کیا ہوا، یہ تاریخ ہے۔ 
اس بات کے چار عشرے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف زرداری کی حکومت قائم ہوئی۔ نام اب بھی بھٹو کاہی استعمال کیا گیا اور کچھ قدیم نعرے لگا کر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عوام بہت کچھ سمجھ چکے تھے۔آج سیاسی جماعتیں ٹی وی کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتی ہیں اور گزشتہ دو انتخابات میں پرائیویٹ ٹی وی چینل پر اچھی کارکردگی دکھانے والی جماعت نے میدان مارلیا۔ تاہم گزشتہ ایک ماہ سے جو کچھ ہورہا ہے، یہ بھول جائیں کہ کون خسارے میں رہا، خدشہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ٹی وی دیکھنے کے باوجود اس کا اثر اس طرح قبول نہیں کرے گی جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا تھا۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ اب میڈیا کی کوئی اور شکل اس کی جگہ لے لے گی۔ 
نئی فون ٹیکنالوجی کے ساتھ سوشل میڈیا اس خلاکو پورا کرسکتا ہے۔ تاہم یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس معاشرے کو دھماکہ خیز انداز میں متاثر کیا جہاں کوئی معاشرہ موجود تھا۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ہمار ا وطن عوام سے بھرا ہوا ایک ملک ہے لیکن اس کے مختلف دھڑوں میں تقسیم کا عمل جاری ہے۔ جہاں میڈیا دیگر ممالک میں یگانگت پیدا کرتا ہے، ہمارے ہاں یہ تقسیم کے عمل کو گہرا کررہا ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ پی ٹی وی یا ریڈیو پاکستان پر خبریں سننے کے بعد بی بی سی ریڈیو پر ان کی تصدیق کرلیتے تھے، لیکن آج ایسا نہیں۔ آج ان کے پاس بہت سے چینل ہیں، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا ہیں لیکن وہ مانتے وہی ہیں جو ان کا دل کہتا ہے۔ امریکی مصنف ڈان برائون کا کہنا ہے۔۔۔''میڈیا افرتفری کا دایاں بازو ہے۔‘‘ہمارے ہاں پھیلی ہوئی شورش میں ان کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ 
اس صورت ِ حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم ایک گڑھے میں گرتے گرتے بچ گئے ہیں۔ اس مسئلے کے حل (جو بھی ہو) کے بعد سب نے سوچنا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ذریعے عوام کو جو پیغام دیا، اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟وہ جن سے پہلی غلطی ہوئی اور وہ بھی جو مسلسل غلطی کررہے ہیں، سب نے اپنا محاسبہ کرنا ہے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ عوام کو محاسبہ کرنا پڑے۔ اس مسئلے میںمذہبی انتہا پسندوںکا زور ِ بازو استعمال کرنا انتہائی خطرناک بات تھی۔ جب ایک مرتبہ ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہوجائے تو وہ اپنے قد سے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلے افغان جہاد میں جو طبقہ کلاشنکوف اور مہنگی گاڑیوں کا عادی ہوگیا، وہ ابھی تک جہاد سے باز نہیں آیا ۔۔۔ حالانکہ سوویت یونین باقی نہ رہا، امریکہ بھی جارہا ہے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ''ہم ہیں نہ‘‘۔ یہ طبقہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہے اور اس سے جائے مفر ممکن ہیں ، لیکن انہیں ایسے معاملات میں اکساکر میدان ِ عمل میں گھسیٹ لینا دانشمندی نہیں۔ 
اگر ہمارے معاشرے میں میڈیا کوئی قومی خدمت سرانجام دینا چاہے تو یہ ہے کہ وہ اس قوم کی غیر ضروری جذباتی حدت کو جیسے بھی ہوسکے کم کرنے کی کوشش کرے۔ اتنی جذباتی قوم اس گرم سیارے کے لیے موزوں نہیں۔ یہاں ٹھنڈے دل کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ لائوڈ سپیکر کا استعمال بھی قدرے محتاط انداز میں کیا جائے تو بہتر ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں اورسوچیں کہ کیا میڈیا، جیسا کہ ٹی وی، اخبار، سوشل میڈیااور لائوڈ سپیکر مثبت سوچ پیدا کررہے ہیں یا پھر انہوں نے قوم کو خلجان میں ہی مبتلا کررکھا ہے؟ آخر ہم ایجادات کو مثبت انداز میں استعمال کرنا کب سیکھیں گے۔ مغرب کا کہنا ہے کہ ہم صرف صارفین ہی ہیں۔ میں ایک قدم آگے بڑھ کرکہتی ہوں کہ ہم برے صارفین ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں