ایک ناتمام کہانی

امریکہ اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھرڈرون حملوںکی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ امریکہ عراق میں انتہا پسندوں پر بمباری کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ ان انتہا پسند جنگجوئوں، جنہوں نے ہزاروں عراقی فوجیوںکو ہلاک کیا ِ، کی طرف سے مقامی آبادی پر ڈھائے جانے والے ہولناک مظالم کے مناظر امریکی ٹی وی پر دکھائے جارہے ہیں۔ سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے ایک انٹرویو میںکہا کہ انتہا پسندوںکے خلاف امریکی ڈرون طیارے استعمال کرے گا۔ ان کا کہنا تھا : ''جب آپ کے سامنے قاتلوں کے گروہ عوام کو ہلاک کررہے ہوں تواُنہیں روکنا لازمی ہوجاتا بنتا ہے ، اس کے لئے چاہے فضائی قوت استعمال کرنی پڑے یا کچھ اور‘‘۔
دوسری طرف پاکستان میں وزیر ِ اعظم نواز شریف سے لے کر عمران خان تک، سب شمالی وزیرستان میں ہونے والی بمباری کی حمایت کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکایک ان سب پر یہ حقیقت کیسے آشکار ہوگئی کہ دہشت گردوں کا صفایا ضروری ہے؟میں نے اور بہت سے دیگرکالم نویس دہشت گردوںسے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت پر تواتر سے لکھا۔ جب پانچ سال تک ملک پر زرداری صاحب کا سکہ چلتا تھاتو میں نے کہاتھا کہ ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے وسیع تر سوچ کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ایوانِ صدر اور پارلیمنٹ میں موجود افراد سے اس کی توقع عبث ہے۔ دراصل طالبان ہتھیاروں سے زیادہ ایک سوچ کا نام ہے ، اس لئے جہاں ان کے فوری خطرے سے نمٹنے کے لئے ہتھیار چاہئیں، ان کے نظریاتی خطرات اور ان کی اساس کے خاتمے کے لئے بھی پر مغز مہم چاہیے۔ زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سے اس مہم کی توقع کرنا تو ان کے ساتھ زیادتی ہوتی۔
اگرچہ دہشت گردوںنے ایک سو ستر ملین سے زائد پاکستانیوں کواپنے خوف کا اسیر بنائے رکھا اور ایک موقع پر تحریک ِ طالبان نے شفٹ بڑھانے، یعنی ہفتے میں کیے جانے والے خود کش حملوں کی تعداد دوگنا کرنے کی دھمکی دی تو زردرای صاحب نے کہا:''میں اس کی اجازت نہیںدوںگا‘‘۔ اُنہوںنے صیغہ واحد متکلم استعمال کرتے ہوئے طالبان کو براہِ راست چیلنج کیا۔ اس سے پہلے نہایت نفاست سے سگار پینے والے ان کے پیش رو، جنرل مشرف بھی ایسے فقرے ادا کرنے میں مہارت حاصل کرچکے تھے۔ تاہم کمانڈو صاحب نے خود کو اتنے مضبوط دفاع کے پردے میں چھپائے رکھا کہ پے در پے حملے بھی انہیں گزند نہ پہنچا سکے۔ اس دوران پاکستانیوں کا خون بہتا رہا،لیکن۔۔۔۔ ایںحکایت دیگر است۔ حکمرانوں کو محفوظ رہنا چاہیے، باقی کے لئے اس جہان ِ فانی میں رکھا ہی کیا ہے۔ 
گیلانی صاحب نے اپنے بہترین سوٹ زیب تن کرتے ہوئے دہشت گردوں سے بھڑ جانے کا عزم ظاہر کیا۔ وہ توخیرگزری کہ کسی خیر اندیش نے منع کردیا ورنہ کیا خبر پیہم زلیخائی کرتے کرتے یوسفی پر اتر آتے۔ خیر یہ جملہ معترضہ ہے لیکن سابق وزیر ِ دفاع احمد مختارکی بے بدل دانائی کے سامنے دنیا بھرکے فلسفی اور نکتہ دان پانی بھرنا اعزاز سمجھتے تھے ۔ جناب کا فرمودہ ہے کہ ڈرون پاکستان میں اترتے تو ہیں لیکن یہاں سے اُڑتے نہیں۔ واﷲ! کیا وہ ناہنجار تیرتے ہوئے افغانستان کے پہاڑوںکے بیچ میںسے گزرکر کہیں اور سے اُڑان بھرتے تھے؟اس کے بعد ''پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار!‘‘ اسی طرح دانش مندان ِعجم کے سرخیل جناب رحمن ملک، قمر الزمان کائرہ اور انواع و اقسام کی ایجنسیوںکے سربراہ سر جوڑے دہشت گردی سے نمٹنے کی تجویز سوچتے رہے لیکن پائوں سے کانٹا کسی نے نکالنے کی بات نہ کی ؛ چنانچہ لہو بہتا رہا۔کچھ اضطراری افعال کو پلاننگ نہیں کہتے، اس لئے کچھ آپریشن دیکھنے میں آئے لیکن وہ رد ِ عمل میں کیے گئے۔ ان سے بات بننی ہوتی تو اب تک کئی مرتبہ بن جاتی،لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ 
صدر زرداری ایوان میں بیٹھے، پیروںکی دعائیں لیتے ردِ طالبان دعائیں ازبرکرتے رہے لیکن قیام کے وقت سجودکی ضرورت نہ تھی۔ گاہے گاہے گیلانی صاحب کو اشتعال آجاتا اور وہ سب پر ہی برس پڑتے۔ ایک مرتبہ تو اسمبلی میں جوش میں آکر بہت کچھ کہہ گئے۔ و ہ مقام ہوش کا تھا لیکن وہ جوش کے ترکش سے پتہ نہیں کس ہماکا شکار کرنے کی کوشش میں تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ رحمن ملک خصوصی انسداد ِ دہشت گردی کی فورس تشکیل دینے والے ہیں۔ بہت اچھی خبر تھی اور ایسا لگا کہ ملک صاحب کوئی جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور ہر طرف امن اور استحکام کی ریل پیل ہوجائے گی۔ لوگ سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور مقدس مقامات پر محفوظ ہوجائیںگے، لیکن یہ سب موچی گیٹ لاہور میں کی جانے والی تقریر ثابت ہوئی۔ 
اس دوران رچرڈ ہال بروک اور ایڈمرل مولن نے پاکستان پر زور دیا کہ دہشت گردوںکو ختم کرنے کے لئے ڈرون سے زیادہ موثرکوئی ہتھیار نہیںہے، لیکن ہم ڈرون کے نام سے بھی بدکتے تھے۔ قومی سلامتی مجروح ہوتی تھی۔ ڈرون آرہے تھے لیکن ہم ان کی بھرپور مذمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ دراصل اس مہم سے زیادہ شاید ہی کسی چیزنے عوام کو کنفیوز کیا ہو۔ اس میں تمام مذہبی اور بہت سی سیاسی جماعتیں پیش پیش تھیں۔ ستم یہ کہ پاکستانیوں کا خون بہہ رہا تھا لیکن ریاست کے پاس ان خونیوںسے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہ تھا،ہاں بیانات کی کمی نہ تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیرِ اعظم ہائوس میں ایمرجنسی وار روم قائم ہوتا اور سیاسی حکومت آگے بڑھ کر اس جنگ کی ذمہ داری لیتی اور ان سماج دشمن عناصرکا خاتمہ کردیا جاتا۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ اس ضمن میں ہمیں وہی فارمولہ استعمال کرناچاہیے تھا جو اسرائیل نے خود کش حملوں سے نجات پانے کے لئے اپنایا تھا۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین ہتھیار اور آلات تھے ، لیکن اُنہوںنے اپنے لوگوں کو لڑائی کی پیشہ ورانہ بنیادوں پر تعلیم دی۔ ہم بھی ایسا کرسکتے تھے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت بہت سے ملک رضاکارانہ طور پر ہمیں تربیت اور آلات دینے کے لئے تیار ہوجاتے۔ آج تو ہمارے وزیراعظم کو دنیا سے درخواست کرنا پڑرہی ہے کہ اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے مدد کی جائے۔ اُس وقت حالات مختلف تھے، لیکن اُس وقت ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات بھی مختلف تھیں۔ 
آج جب ہم اکیلے ہی طالبان سے لڑنے چلے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ زرداری حکومت نے بہت قیمتی وقت ضائع کردیا۔ یہی نہیں، جس دوران لوگ ہلاک ہورہے تھے ، وہ دولت میں کھیلتے رہے۔وزیر اعظم نواز شریف کو بھی خودنمائی کا بہت شوق ہے ، وہ سونے کی کرسی پر بیٹھتے ہیں ، انہیں سادگی سے چڑ ہے ۔ اس لئے ان کے سیاسی حریف اُنہیں مغل بادشاہوں سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ امن کے زمانے میں تو سب چلتا ہے، لیکن اب ہم حالت ِ جنگ میںہیں۔ جنگ مختلف رویوں اور رہن سہن کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایک اور بات۔۔۔ یہ جنگ کوئی ہفتے دس دن میں ختم ہونے والی نہیں۔ اس کے لئے مالی وسائل بھی درکار ہوں گے ۔ کیا ہمارے حکمران اور اہل ِ ثروت سادہ زندگی کے لئے تیار ہیں ؟بیانات کے سوا ، کیا ہمارا طرزِ عمل ثابت کررہا ہے کہ ہم اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ؟دوسری طرف عوام پر بھی ذمہ داری ہے کہ طالبان کا جو نظریہ معاشرے میں سرایت کرچکا ہے، اس سے فکری طور پر اُنہوںنے ہی لڑنا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا، اگر اسے باہمی خانہ جنگی سے فرصت ہو، کا کردار بہت اہم ہے۔ بریکنگ نیوزکلچر نہیں، فکری تربیت ۔۔۔ یہ جنگ ہم سب نے لڑنی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں