بگولوں کے دوش پر

کیا آپ گزشتہ پندرہ یا زیادہ سالوں سے عمران خان کی ٹی وی پر روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی چیخ پکار کو بھول گئے ہیں؟سب سے پہلے وہ کون ساموضوع تھا جس پر اُنھوںنے طبع آزمائی کی؟آپ کو شاید یاد نہیںہوگا۔۔۔ بہت سوں کو یاد نہیں ہے۔ بہرحال اُس وقت ان کا موضوع انتخابی اصلاحات نہیں تھا۔ ان کے ایجنڈے میں انتظامیہ اور عدالتی نظام کی اصلاح بھی شامل نہیں تھی۔ وہ صرف بدعنوانی کے خاتمے کو اپنا موضوع بنائے ہوئے تھے۔ 
آج ہوا کے گھوڑے (معاف کیجیے کنٹینر ) پر سوار عمران خان بدعنوانی کے خلاف اپنے موقف کو بھول چکے ہیں۔ آج ان کی جدوجہد کا ارتکاز صرف اور صرف وزیر ِ اعظم کو منصب سے ہٹائے جانے پر ہے، چاہے اس کے لیے غیر آئینی طریقہ ہی کیوں نہ استعمال کیا جائے(کیا غیر آئینی طریقہ بدعنوانی کے زمرے میںنہیں آتا؟) ۔ کپتان کا الزام ہے کہ پی ایم ایل (ن)نے گزشتہ انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کی تھی، اس لیے اس کا اقتدار پر قبضہ غیر قانونی ہے۔ اکثر لوگ ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انتخابات میں کسی نہ کسی سطح پر دھاندلی ہوئی تھی لیکن کیا پاکستان بھی ایسے انتخابات کبھی ہوئے ہیں جن میں ایسی شکایات نہ ملی ہوں۔ کیا ہمارے ملک میں مکمل طور پر شفاف انتخابات کی کبھی کوئی روایت رہی ہے؟ کیا ہم انگلینڈ یا جرمنی یا کو ئی اور مہذب ملک ہیں؟
آج جب علامہ قادری اور کپتان انقلابی مہم اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، بدعنوانی کے خاتمے کا مشن پس ِ منظر میں چلا گیا ہے۔ آج فنانس منسٹر سے کوئی نہیں پوچھ رہاکہ سوئس بینکوںمیں پاکستانیوں کی طر ف سے غیر قانونی طور پر چھپائے دو سوبلین ڈالر واپس لانے کے دعوے کا کیا بنا؟موصوف نے دعوی کیا تھا کہ حکومت نے کارروائی شروع کردی ہے۔ اگر قادری اور عمران کی انقلابی جوڑی کو چیخ پکار سے فرصت ہو تومسٹر اسحاق ڈار، جو ان کے ساتھ روزانہ مذاکرات مذاکرات کھیلتے ہیں، سے پوچھ لیں کہ اب تک بات کہاں تک پہنچی ہے؟ اس مسئلے پر حکومت پر دبائوبڑھانا ضروری ہے کیونکہ یہ پی ایم ایل (ن) یا کسی پارٹی کا ایشو نہیں، یہ ہمارا قومی معاملہ تھا۔ اسے سیاست کی نذر نہیںہونا چاہیے۔ یا پھر یہ بھی مذاق، یعنی سیاسی پینترا ہی تھا؟
اس ضمن میں آخری بیان اسلام آباد میں سوئس سفارت کار مسٹر مارک جارج کا ہے، جنھوںنے صحافیوں کے استفسار پر بتایا کہ تاحال ان کی حکومت کو پاکستان کی طرف سے ''لوٹی ہوئی دولت‘‘ کی بازیابی کی درخواست وصول نہیںہوئی ہے۔ دوسری طرف اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کارروائی کا آغاز ہوچکا اور بہت جلد دو سو بلین ڈالر سوئس بینکوں سے پاکستانی بینکوں میں منتقل ہونا شروع ہوجائیںگے۔ اگست آیا اور چلاگیا لیکن ڈالروںنے نہیںآنا تھا، نہ آئے۔ جب ایسا کچھ نہیں تھا تو عوام 
کو بے وقوف بنانے کی کیا ضرورت تھی؟فی الحال ان دونوں ممالک، پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان جو واحد بات چیت ہوئی ''دہرے ٹیکس نہ لگانے‘‘کے موضوع پر تھی۔اس کے لیے ایف بی آر کا ایک دورکنی وفد سوئٹزرلینڈ گیا ۔ سوئس سفارت کار کا کہنا تھا۔۔۔''یہ کچھ ٹیکنکل امور پر ہونے والی بات چیت تھی اور تین دن جاری رہنے والی ان ملاقاتوں میںاورکوئی امور زیر ِ بحث نہیں آئے۔‘‘دوسری طرف پاکستانی اخبارات میں بہت گرما گرم خبریں لیکن جیسے کہ اس وفد کے سوئس سرزمین پر قدم رکھتے ہی ڈالروں کی نہر بہنے لگے گی۔۔۔ ہمارے لیے دو سو بلین ڈالر کنگ فلپس کے خزانے سے کم نہیں۔چونکہ ہم افسانوی دنیا میں نہیں رہ رہے، اس لیے مسٹر ڈار سے درخواست ہے کہ قوم کو ایسے خواب نہ دکھایا کریں۔ قوم کے سامنے غلط بیانی سے کام لینے کی غلطی حکمران جماعت کو بہت مہنگی پڑرہی ہے۔ بہرحال غلطیاں انسانوںسے ہوتی ہیں اور ا ن سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ آخری بات یہ ہے کہ سوئس سفارت کار دو سو بلین ڈالروں کے معاملے سے قطعی لاعلم ہیں۔ 
اب دوبارہ اصل سوال پر آجائیں کہ کیا کپتان اپنے اصل مشن سے ہٹ چکے ہیں؟ ملک سے بدعنوانی ختم کرنا ان کی پہلی ترجیح نہیں؟تحریک ِ انصاف کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ پہلے شفاف انتخابات ہوں گے، فرشتہ سیرت حکومت قائم ہوگی تو وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرے گی۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ شفاف انتخابات اور فرشتہ سیرت حکمران اچھے سماج کے درخت پر لگنے والا پھل ہیں۔ کیا درخت سے پہلے پھل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بیج یقینا کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کی افزائش بھی ''پاک ‘‘ جگہ نہیں ہوتی۔ اُسے مٹی میںبو دیا جاتا ہے، پھر اُسے منرل واٹر نہیں بلکہ گدلا نہری پانی دیا جاتا ہے۔ اس کے ماحول کو بھی ڈس انفیکٹ نہیں کیا جاتا، کیونکہ کھاد اور نائٹروجن کو ایک کیمیائی عمل سے گزرنے کے لیے ایک مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے۔ اگر وہاںپر مکمل ''شفافیت ‘‘ ہوگی تو پودا نہیں اُگے گا۔ درخت اگے گا اور جب وہ اپنی معراج کو پہنچے گا تو اس پر پاک صاف، میٹھا اور خوش ذائقہ پھل لگے گا۔ یہ سب کچھ اپنے وقت پر ہونا ہے۔ اس سے پہلے تائو میں آکر درخت کے پتے نوچنے یا اس کی ٹہنیاں توڑنے سے کچھ حاصل نہیںہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیج درست ہو اور زمین تیار ہو او رکسان محنتی ہو۔۔۔ محنت کے ساتھ ساتھ اُس میں صبر بھی 
ہو۔کپتان جانتے ہیں کہ ایک بچہ جسے ابھی چلنا بھی نہیں آتا، اُسے فاسٹ بالر کے طور پر ٹیم میں نہیں لیا جاسکتا۔ وقت آنے پر وہ ''عمران خان ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے ، لیکن وقت سے پہلے نہیں۔ 
کپتان تعلیم یافتہ شخص ہیں اور اسی طرح علامہ صاحب بھی صاحب ِ مطالعہ ہیں۔ کیا وہ عالمی تاریخ سے کوئی ایسی مثال بتاسکتے ہیں جب کسی سیاسی انقلاب نے راتوں رات عوام کو ایمان دار ، متقی اور صالح بنا دیا ہو؟ نعرہ زنی کرنے سے سیرت اور کردار کی تطہیر ہوگئی ہو؟باغ کو آگ لگادینے سے درختوں کے پھل فوراً پک گئے ہوں یا بارود کے ڈھیرکو ماچس دکھانے سے کھانا پکانے کا اہتمام ہوگیا ہو؟( اس سے تو چہلم کے کھانے کا موقع ہی نکلے گا) ۔ جمہوریت میں بتدریج بہتری آتی ہے۔ آپ کی کاوش ، دھرنے اور مارچ ،سے عوام کی سوچ میں تبدیلی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ اسے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمارے ہاں جمہوری قدریں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور مستقبل کا مورخ ان دونوں رہنمائوںکو اچھے الفاظ میں یاد رکھے گا کہ ان کی وجہ سے ملک میں انصاف اور بہتری کی امید پیدا ہوچلی ہے، لیکن اگر یہ نظام ان کے ہاتھوں تباہ ہوگیا تو پھر مورخ کا ہاتھ تو نہیں پکڑا جاسکتا۔ یاد رکھیں پاکستان مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ کی کوئی ریاست نہیں ہے۔ ہم گزشتہ چھ عشروں میں بہت آگے آچکے ہیں اور یقینا ہمارے ہاں اصلاح کی بہت گنجائش ہے، لیکن کسی خرابی کی بنا پر پورے نظام کا دھڑن تختہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں