دہشت گردی کا گہرا منصوبہ

ایوارڈ یافتہ امریکی مصنف لیوسنڈا فرینکس (Lucinda Franks) اپنی نئی کتاب میںاس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ القاعدہ کے جن حملہ آوروںنے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا، وہ دراصل سی آئی اے کے حمایت یافتہ ہی تھے۔ میںنے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ انیس سال پہلے ہونے والے ایک خود کش حملے سے پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ اُس وقت اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومت میں شامل باخبر افراد کے مطابق ، مصری سفارت کار نے ملنے والی دھمکیوں سے پاکستانی حکام کو مطلع کردیا تھا ، لیکن اُس وقت کے وزیر ِ داخلہ، نصیر اﷲ بابر مرحوم نے سکیورٹی میں پڑنے والے خلاکی کمزوری کی ذمہ داری تو اٹھائی لیکن پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مصری سفارت خانہ اُن کی وزارت کو دھمکیوںکی اطلاع دیتا تو اس سانحے سے بچا جاسکتا تھا۔ 
ایک مذہبی بنیاد پرست تنظیم نے اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت بھی اس کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ ایک عالمی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے جہاد کے نمائندے نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے پیغام ہے کہ وہ مصری انتہاپسندوں کو مصر ی حکومت کے حوالے کرنے سے گریز کرے۔ جولائی 1994ء میں پاکستان اور مصر قیدیوںکے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کرچکے تھے اور اُ س وقت تک پاکستان آٹھ سے دس انتہا پسندوںکو پکڑکر مصری حکومت کے حوالے کرچکا تھا۔ 
اس واقعے میں سچ کیا تھا، ہمیں کبھی پتہ نہ چل سکا۔ اُ س وقت سے لے کر اب تک، سامنے آنے والی متضاد رپورٹس نے دہشت 
گردی کو ختم کرنے کی بجائے بڑھایا ہے۔ دہشت گردی کے ہر حملے میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے۔ تمام دنیا کی حکومتیںاور خفیہ ادارے عوام سے سچ چھپاتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے دہشت گرد خبردار ہوجائیںگے اور اُنہیں گرفتار کرنا ممکن نہیں رہے گا لیکن دراصل اس کی آڑ میں حکومتیں اور ایجنسیاں اپنی جان بچاتی ہیں۔ سچائی کو چھپانے اور دہشت گردی سے نہ نمٹنے نے آج ہمیں داعش کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ داعش ۔۔۔ دولتِ اسلامیہ عراق و شام، جو آئی ایس آئی ایس بھی کہلاتی ہے، نے اپنی عالمی خلافت کا اعلان کردیا ہے ۔ وہ ہر اُس شخص کو ہلاک کررہی ہے جو اس کے تنگ نظر عقیدے سے اتفاق نہیں کرتا۔ 
اگر دہشت گردی کاخاتمہ کرنا ہے تو کم از کم گزشتہ بیس سال کے دوران تمام دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیاکا شاید ہی کوئی ایسا قابل ِ ذکر ملک ہو جو دہشت گردی کے عفریت سے مکمل طور پر محفوظ رہا ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رانا مارکیٹ کے نزدیک، F/7-2 اسلام آباد کے ایک گیسٹ ہائوس سے رمزی یوسف پکڑا گیا تھا۔ اُس نے 1993ء میں ورلڈٹریڈ سنٹر ، نیویارک، پر بم حملہ کیا تھا۔ رمزی یوسف کی گرفتاری کے لیے آئی ایس آئی اور پولیس کی 1995ء میںکارروائی ذہن میں تازہ ہے۔ اُ س کو گرفتار کرنے کے بعد امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ امریکی عدالت میں یوسف نے کہا، ''ہاں میں دہشت گرد 
ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے ۔ میں امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جائز سمجھتا ہوں کیونکہ آپ لوگ خود دہشت گرد ی میں ملوث ہیں۔ تم لوگ ظالم ، جھوٹے، منافق۔۔۔۔۔ ہو۔‘‘
اُ س وقت امریکی حکومت کے ترجمان نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے بڑی تعداد میں ایسے مذہبی انتہا پسندوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کا تعلق افغان جہاد سے ہے۔ کہا گیا کہ یہ انتہا پسند تمام ملک، خاص طور پر شمالی علاقوں میں اپنی توانا موجودگی رکھتے ہیں۔یہ حقیقت تھی کہ یوسف رمزی پاکستان سے گرفتار ہوا تھا اور شیخ عمر عبدالرحمن ،جو کہ ایک نابینا عالم تھے اور تشدد کے ذریعے امریکی حکومت کا تختہ الٹنے کی پلاننگ کررہے تھے، نے بھی مختصر مدت کے لیے پشاور میں قیام کیا تھا۔ اس سے ا س الزام میں صداقت محسوس ہوتی تھی کہ پاکستان نے ہائی پروفائل دہشت گردوںکو پناہ دے رکھی ہے۔ امریکیوں کی نگاہ میں پاکستانی حکومت جہادیوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے میں ناکام ہوچکی تھی کیونکہ وہ ملک میں اسلام پسند لابی سے خائف تھی۔ کہا گیا کہ شدت پسندوں کی ہم خیال جماعتیں ریاست کے اندر ریاست کی مانندہیں۔ تاہم، ہم نے ان الزامات کی صحت سے انکار کی پالیسی جاری رکھی۔ تاہم جو الزام ہم پر انیس سال پہلے تھا، وہ آج بھی ہے۔ ماضی اور حال میں میں ہونے والے بہت سے واقعات ہمارے خلاف گئے ہیںلیکن ہم نے ریت میں سردینے کی پالیسی نہیں بدلی۔ 
رمزی کا ماموں، خالد شیخ محمدمبینہ طور پر بن لادن کی القاعدہ کا اہم رکن تھا۔ اس پر امریکی ایجنٹوں نے تشدد کے ذریعے گزشتہ بیس سال کے د وران دہشت گردی کے اہم منصوبوں میں شامل ہونے کا اعتراف حاصل کرلیا۔ 2003ء میں خالد شیخ کی گرفتاری راولپنڈی سے عمل میں آئی۔ یہ گرفتاری سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کارروائی کا نتیجہ تھی۔ آج کل خالد شیخ گوانتاناموبے میں قید ہے۔ 
لیوسنڈا فرینکس کی کتاب''Timeless Love‘‘ بتاتی ہے کہ سازش کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ بہت دیر سے القاعدہ کے کارکنوں کی امریکہ میں موجودگی سے آگاہ تھے۔ لیوسنڈا، جو کہ نیویارک ٹائمز میں کام کرتی تھیں، نے رابرٹ مونگن تھائو (Robert Mongenthau) سے شادی کرلی۔ مسٹر رابرٹ طویل ترین مدت کے لیے نیویارک کے ڈسٹرکٹ اٹارنی تھے۔ لیوسنڈا اپنی کہانی کا آغاز ایک دہشت گرد، السید نصیر سے کرتی ہے جس نے Meir Kahane کوہلاک کیا تھا۔ جب ایف بی آئی نے نصیر کے نیویارک کے اپارٹمنٹ پر دسمبر 1991ء میں چھاپامارا تو ان کو مسودات اور کیسٹوں سے بھرے ہوئے چودہ ڈبے ملے جن میں ٹوئن ٹاورز پر حملے کے منصوبے کی تفصیل تھی جو مصری عالم عمر عبدالرحمن کی ہدایت کے مطابق تھی۔ سی آئی اے اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی نے ایف بی آئی کو حکم دیا کہ وہ ان ڈبوں کوان کے حوالے کردے۔ لیوسنڈا فرینکس کے مطابق ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بہت پہلی ہی القاعدہ اور اس کے منصوبے کا علم ہوگیا تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کا ہیڈکوارٹر بروک لین کی ایک مسجد میں ہے۔ یہ کون لوگ تھے جو سی آئی اے کی ناک کے نیچے بروک لین کی مسجد میں رہتے تھے؟ بلاشبہ وہ ایسے جہادی تھے جو امریکی تعاون سے افغان جہاد میں شریک رہ چکے تھے۔ ان میںسے زیادہ ترکا تعلق ایک عرب ملک سے تھا۔ لیوسنڈا فرینکس کے مطابق جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا توسی آئی اے نے عرب دنیا کے بہت سے نوجوانوں کو جہاد کی تربیت دے کر افغان جنگ میں اتارا۔ عرب ملک اور سی آئی اے کے درمیان ڈیل یہ تھی کہ جنگ کے خاتمے کے بعد یہ جہادی عرب سرزمین پر واپس نہیںآئیںگے، بلکہ امریکہ اُنہیں اپنے ہاں لے جائے گا۔ چنانچہ یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ انہی جہادیوں نے امریکی سرزمین پر القاعدہ کی بنیاد رکھی اور سی آئی اے اس سے بے خبر نہیں تھی۔ 
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا سی آئی اے کو علم تھا کہ القاعدہ امریکی مفادات کو ہدف بنانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ 1993ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے اس نے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا تھا؟پھر لیوسنڈا فرینکس کے مطابق اُنہیں جہادی مواد کے چودہ باکس ملے تھے جن میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پرحملے کی تفصیل موجو د تھی، تو کیا پھر امریکی خود کشی پر آمادہ تھے یا معاملہ کوئی اور تھا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں