کشمیر ایشو‘ ایک بھارتی سیاست دان کی نظر میں

حال ہی میں رام جیٹھ ملانی (Ram Jethmalani) کا نام بھارتی پریس میں تواتر سے سنا گیا۔ اکانوے سالہ رکن ِ پارلیمنٹ، رام جیٹھ ملانی نے 1997ء میں اُس وقت کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی‘ جب وہ بی جے پی کی حکومت میں تھے۔ اب وہ بھارت کو مورد ِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔ سات سال پہلے میں نے بھارت کے اس مشہور سیاست دان اور وکیل کا نئی دہلی میں انٹرویو کیا تھا ۔ میں اس انٹرویو کے اقتباسات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتی ہوں۔ ایک سوال کے جوب میں مسٹر رام نے کہا،''میں بہت سے پاکستانیوں سے بھی زیادہ پاکستانی ہوں۔ سندھ میرا گھر ہے اور پاکستان میری روح کے قریب ہے۔ ‘‘ ایک تجربہ کار سیاست دان اور فوجداری مقدمات کے وکیل ، رام جیٹھ ''علی علی ‘‘ اور ''لعل مری پت رکھیو بلا جھولے لعلن‘‘پر دیوانہ وار رقص بھی کرتے ہیں۔ جیٹھ ملانی بی جے پی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ یہ وہ تھے جنہوںنے اس کا مسلح ونگ، آر ایس ایس تشکیل دیا۔ وہ شیوسینا کی حمایت سے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن جب اُس وقت کے وزیر ِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اُ ن سے وزارت ِ قانون کا قلم دان واپس لے لیا تو اُنھوں نے بی جے پی کو خیر آباد کہہ دیا۔ پھر وہ ایک آزادممبر کے طور پر راجیہ سبھا کا حصہ بن گئے۔ حال ہی میں ان پر الزام لگا کہ اُنھوں نے توہین ِ عدالت کا ارتکاب کیا ہے۔ وکلا کی ایک تنظیم نے ان کے خلاف مذمت کی قرارداد بھی منظور کی؛ تاہم، وہ کھری بات کہنے والے بے باک شخص ہیں۔ 
نئی دہلی کے اہم ترین افراد میں سے ایک‘ اورشکار پور میں پیدا ہونے والے اس خوش مزاج سیاست دان نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان سے کبھی نہ ختم ہونے والی محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ احمد فراز کے دیوانے ہیں۔ چوبیس سال کی عمر میں، جبکہ وہ وکالت کی تعلیم حاصل کررہے تھے، جیٹھ ملانی نے تقسیم کے وقت پاکستان کو اپنا وطن مان لیا؛ تاہم ایک سال بعد کراچی میں ہونے والے گروہی فسادات کے بعد ان کے پارٹنر اور مشہور وکیل اے کے بروہی نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ یہاںسے ہجرت کرجائیں؛ چنانچہ ، بقول ان کے ''میں ہجرت کرکے بمبئی چلا گیا‘‘۔وہ کہتے ہیںکہ اُنھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور ان کی بیشتر خواہشات پوری ہوچکی ہیں ، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے ایک اورخواہش کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان کی آخری خواہش۔۔۔''سرحد کے دونوں طرف آزاد اور خود مختار کشمیر کی ریاست ہو اور اس کا سیکولر آئین اور پارلیمنٹ ہو‘‘۔ 
جیٹھ ملانی نے مجھے بتایا ،'' دہلی اور اسلام آباد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کشمیر میں کم سے کم مداخلت کریں‘‘۔ وہ اُن مشہور ''آٹھ نکات‘‘ کے خالق ہیںجو صدر مشرف کے بھی زیر ِ غور رہے۔ اُنھوں نے خوش گوار موڈ میں کہا،''مجھے امید ہے کہ میں تم پر ریاست کا راز فاش کرنے کا ارتکاب نہیں رہا لیکن میرے پاکستان کے سابق فوجی افسران سے تعلقات رہے ہیں؛ تاہم وہ ایسے افسران تھے جنہوں نے جنگ، تشدد یا سیاست سے فوائد حاصل نہیں کیے۔‘‘بھار ت میں امکانات کا جائزہ لینے کے لیے اُنھوں نے آٹھ نکات میں قدرے ترمیم کرتے ہوئے اُنہیں میڈیا کے ذریعے پھیلایا۔ کاغذ پر تو وہ نکات بہت اچھے لگتے تھے لیکن اس میں لفظ ''سیکولر‘‘ سرحد کے دونوں طرف ہضم نہیں ہوگا۔ میں نے اُن نے پوچھا کہ جب ملک انتہا پسندی کی آگ میں کھول رہاہو تو کیا اسلام آباد کو ایک سیکولر کشمیربرداشت ہوگا؟ کیا یہ ممکن ہو گا کہ کشمیر میں بھارت اور پاکستان، دونوں کے آئین کے مشترکہ حصوں کو نافذ کردیا جائے؟اُن کا خیال تھا کہ ایسا ہونا ناگزیر ہے۔ اس پر جتنی مرضی جنگیں لڑلیں، ایک نہ ایک دن کشمیر کی سرزمین پاکستان اور بھارت کے لیے جائے اتصال ضرور بنے گی۔ انہیں یقین تھا ''ایک وقت آئے گا جب پاکستان اور بھارت کے شہری اپنے رہنمائوں کو مجبور کردیںگے کہ وہ ساٹھ سالہ دشمنیوں کو ختم کردیں۔ دنیا کی کوئی چیز بھی غیر مشروط طور پر اچھی نہیں ہوتی سوائے خیر سگالی کے جذبے کے۔۔۔۔‘‘! 
اُس وقت جیٹھ ملانی کی خواہش تھی کہ مشرف پاکستان میں جمہوریت کو راستہ دیں تاکہ کشمیر میں بھی جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ وہ جمہوریت سے مراد سیکولر جمہوریت لے رہے تھے؛ تاہم میںنے اُنہیں بتایا کہ مشرف اس کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کیونکہ پاکستان میں اُنہیں ایسے شخص کے طورپر دیکھا جائے گا جو کشمیر میں بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ جیٹھ ملانی نے کہا۔۔۔''میں آمریت سے نفرت کرتاہوں لیکن ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ کب پاکستان میں اصل جمہوری قدروں کا نفاذ ہو اور کشمیر کا مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔ ہمیں آمرحکمرانوںسے ہی بات کرنا ہوگی۔‘‘کشمیر پر ایک اور پاک بھارت تصادم پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہ کہ جب سرحد کے آر پار جوہری ہتھیار وں کی کھیپ موجود ہو تو جنگ کا سوچنا بھی محال ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایٹمی تصادم کی صورت میں بھارت کی نسبت پاکستان کا زیادہ نقصان ہوجائے گا۔ 
جب اُنھوں نے 1997ء میں کشمیر کمیٹی بنائی تو بھارت کے سرکاری افسران اور مخالف سیاست دانوں نے اُن پر الزام لگایا کہ وہ ''دشمن ملک ‘‘ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تاہم اُنھوں نے اس تنقید کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا اور بی جے پی حکومت اور حریت کانفرنس کے درمیان برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُنہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ آج کی حکمران جماعت، بی جے پی، اس مسئلے کے حل کی کوئی خواہش نہیں رکھتی۔ اُن کا خیال ہے کہ عوامی رابطے اور ثقافتی تعلقات ہی بہترین سفارت کاری ہیں۔ اُنھوں نے کہا ''میں براہ ِ راست عام پاکستانیوں کی بات سننا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ ان کے آٹھ نکات میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ کشمیر کو ایک آزاد اور سیکولر ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ، نیز اس پر پاکستان اور بھارت کو ایک میز پر بیٹھا دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ کیا یہ خواہش بہت زیادہ مثالیت پسندی کی غمازی تو نہیں کرتی ، کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ 
جیٹھ ملانی پاکستان آکر کشمیری رہنمائوںسے ملنا چاہتے تھے۔ تاہم اُنہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہو گا کہ اگر آج پاکستان انتہا پسندوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ کررہا ہے تو بھارت بھی سیکولر نہیں رہا۔ آج ہندو بنیاد پرستی سماج ہی نہیں سیاسی زندگی میں بھی عیاں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں تک عوامی رابطوں کا تعلق ہے تو ان کی اہمیت سے کس کو انکار ہے لیکن اس کے لیے سرحدوں پر کشیدگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ حالیہ دنوں سرحدوں پر آتش و آہن کا تبادلہ امن کی خواہش کرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہا ہے؛ تاہم جیٹھ ملانی کے خیالات ہمیں بتاتے ہیں کہ سرحد پار بھی امن کی خواہش کرنے والوں کی کمی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں