اپنے ایک صحافی دوست سے جب ہم نے اپنے سفر کا ذکر کیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس مقدس سرزمین کی زیارت کرنا اس کا بھی ایک خواب تھا جو شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ہمارے یہ دوست اسرائیل کو '' عارضی طور پر مقبوضہ فلسطین‘‘ کہتے ہیں۔ انہیں اسرائیل والوں نے ویزا دینے سے انکار کردیا تھابا وجودیکہ ان کے لئے سفارشی مکتوب اردنی وزیر اعظم شہزادہ حسن بن طلال کا تحریر کردہ تھا۔ یہ مقامات جو مسلمانوں کے لئے مقدس ترین حیثیت رکھتے ہیں‘یہاں آپ کو اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاح شاذ ہی کہیں دکھائی دیں گے۔ اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، جواباً اسرائیل ان کے شہریوں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔یعنی ادلے کے بدلے والا معاملہ ہے۔پاکستان دیگر مسلمان ممالک سے ایک قدم آگے اس لئے بھی ہے کہ اس کے تو پاسپورٹ پرہی یہ درج ہوتا ہے کہ حامل ھٰذا''اسرائیل کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں داخلے کا مجاز ہے‘‘۔ یہاں تمام داخلی اور خارجی راستوں بشمول فلسطین پر اسرائیل کا کڑا کنٹرول ہے۔ نتیجتاً، جو مسلمان زائرین کسی طور یہاں پہنچ جاتے ہیں ، انہیں سرحد پربے تحاشا پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تبھی تو یروشلم میں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ اورالخلیل کی مسجد ابراہیم میں بھی نمازیوں کی زیادہ ترتعداد مقامی لوگوں پرہی مشتمل ہوتی ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین شدید اختلافات کی یہ طوالت در حقیقت عالم اسلام کو گھائل کئے ہوئے ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آج مسلمان چاہے جس ملک کے بھی ہوں، ارض مقدس تک رسائی سے محروم ہیں۔اس مقدس سرزمین کی زیارت کی تمنا تو و ہ یقینارکھتے ہیں لیکن اسرائیل انہیں اس وقت تک وہاں داخلے کی اجازت نہیں دے گا جب تک ان کے ممالک اس کی ریاستی حیثیت کو تسلیم نہیں کر لیتے۔ یہ کوئی ایسا نا ممکن امر بھی نہیںبشرطیکہ اختلاف پر مصر بنجمن نیتن یا ہواور ان کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ساتھی زہر افشانیاں نہ کرتے پھریں ۔ لیکن یہ لوگ تو مسلمان ممالک کے ساتھ مذاکراتی عمل کے آغاز سے متعلق ہر مشورے کا تمسخر اڑاتے ہیں اورجو عالمی رہنما خطے میں امن کی بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی ان لوگوں کا رویہ ہتک آمیز ہوتا ہے۔ابھی حال ہی میں یروشلم میں اسرائیلی دورے پر آئے فرانسیسی وزیر خارجہ سے نیتن یاہو نے یہ کہا کہ امن اور سلامتی کے ضمن میںعالمی برادری ہم پر اپنے احکامات ٹھونسنے کی جو کوششیں کر رہی ہے ہم ان کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
خدا تعالیٰ کے برگزیدہ ترین انبیاء میں سے ایک، جن کا نام ہم ہر روز پانچوں وقت کی نماز میں بھی لیتے ہیں، یہاںالخلیل میں مدفون ہیں۔ یہ شہر اسرائیل اور فلسطین کے بیچ منقسم ہے۔غزہ کے بعد یہ فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اسی فیصد یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے اور بیس فیصد کا انتظام اسرائیل کے ہاتھ میں ہے؛ تاہم پچھلے سال سے الخلیل پر فوجی کنٹرول اسرائیل کا ہے اور اس کا عذر یہ ہے کہ اسے قدیم یہودی محلوں میں آباد قریباً چھ سو یہودی باشندوں کوتحفظ فراہم کرنا ہے۔
الخلیل کی مسجد ابراہیم میں ہماری ملاقات الکرم نامی ایک شخص سے ہوئی۔اس نے بتایا کہ 1994ء کے ماہِ رمضان میں یہاں جو قتل عام ہوا تھا اس میں شہید ہونے والے تیس افراد میںسے ایک اس کا سگا بھائی بھی تھا۔اس کا بھائی وہاں فجر کی نماز ادا کر رہا تھا جب باروک گولڈ سٹائین نامی ایک اسرائیلی نژاد امریکی نے اپنی جنونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نمازیوں پر بے دریغ فائرنگ شروع کر دی۔ یہ قتل عام مذبحۃ الحرم الابراہیمی کہلاتا ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم ؑ ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت سارہؑ، ان کے فرزند جلیل حضرت اسحق علیہ السلام اور ان کی بہو حضرت رفیقہ مدفون ہیں۔
ہمارے ڈرائیور رمضان نے ہمیں بتایا کہ سڑک کا ایک حصہ مسلمانوں کے لئے مختص ہے اور اسی پہ ہمیں چلنا ہوگا۔ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم سے الخلیل تک ہمیں رمضان ہی ڈرائیو کر کے لایا ہے۔ قدیم مگر مضبوط اونچی سنسان سیڑھیوں کے ذریعے ہم ہزار سال پرانی مسجد ابراہیمی میں داخل ہوئے۔ داخلی دروازہ عام سا تھا جس سے آگے ایک بہت بڑا وسیع ہال تھا۔بڑے بڑے بلوریں فانوسوں نے ساری جگہ کو منور کیا ہوا تھا۔نماز پڑھنے کے لئے وہاں دیوار بہ دیوارچمکتے سرخ رنگ کا غالیچہ بچھا ہوا تھا۔یہ غالیچہ رنگ اور ساخت کے لحاظ سے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ میں بچھے غالیچے کی طرح تھا۔وہاں تین بڑی بڑی مزار نما قبریں ہیں جن پر سبز رنگ کی چادریں بچھی ہوئی ہیں اور ان چادروں پر زریں دھاگے کا کام ہواہے۔ ہم پہلی قبر کی جانب گئے۔ ان کے مزار کے گرد شبکہ کاری سے مزین جو کھڑکی ہے اس سے اوپرعربی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام لکھا ہوا ہے۔ان کے ساتھ ہی ان کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی بہوحضرت رفیقہ کا مزار ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ ؑ کی قبر ایک دوسرے کمرے میں ہے۔یہ کمرہ اس کمرے کے بالکل سامنے ہے۔ رمضان نے ہمیں بتایا کہ اصل قبریں زمین سے بیس فٹ نیچے ہیں۔میں نے فرش میں موجود چھوٹے سے شگاف سے جھانک کر دیکھا تو وہ زیر زمین قبریں رنگ برنگے دیوں سے روشن دکھائی دیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ان دیوں کو روشن رکھنے کے لئے روزانہ زیتون کا تیل ایک رسی کے ذریعے نیچے تک پہنچایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ معراج کی شب جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے یروشلم آئے تو انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہل خانہ کی قبریں بھی دیکھی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام 69 بار آیا ہے۔
یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب حضرت ابراہیم ؑ کے نام سے موسوم ہیں اور براہیمی مذاہب کہلاتے ہیں۔سورۃ آل عمران کی 65ویں آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ '' اے اہل کتاب، تم ابراہیم ؑ کے بارے میںکیوں جھگڑتے ہو؟حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد کی گئی تھیں۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اور پھر آگے اسی سورت کی 67ویں آیت میں فرمایا گیا کہ '' ابراہیم ؑ نہ نصرانی تھے اور نہ یہودی بلکہ وہ خالص مسلمان تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے‘‘۔
حضرت سارہ ؑ کے مزار والے کمرے میں مجھے سوڈا واٹر کی بوتلیں بکھری ہوئی دکھائی دیں۔رمضان بڑبڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ لوگ یہاں قبروں کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن چھو نہیں پاتے کیونکہ ان کے گرد لوہے کی سلاخیں کھڑی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں یہاں کچرا پھیلانے کی چھوٹ حاصل ہے۔ مسجد ابراہیم کے نگران بھی اس قدر سست ہیں کہ صفائی ستھرائی کی جانب دھیان نہیں دیتے۔ وہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں کے لئے یہ جگہ مسجد ہے، یہودیوں کے لئے ہیکل اور عیسائیوں کے لئے گرجا! خط فاصل کے طور پر کھڑی کی گئی شیشے کی بڑی بڑی بلٹ پروف دیواروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ تینوں مذاہب کے لوگ اپنی روحانی بنیادوں کی تلاش میں یہاں آتے ہیں لیکن عبادت الگ الگ کرتے ہیں۔
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ہم نے نوٹ کیا کہ وہاں سیاحوں کی ایک بڑی تعدادایک الگ راستے سے حرم ابراہیمی میں داخل ہو رہی ہے اور اسرائیلی پولیس ان کا خیر مقدم بھی بڑی مسکراہٹوں کے ساتھ کر رہی ہے۔اس کے بر عکس مسلمانوں کے لئے مختص حصے سے گزرتے ہوئے ہمیں تو محض لا تعلقی سے گھورا ہی گیا تھا۔یہ بھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان دیرینہ دشمنی کی ایک علامت تھی۔ معروف سفرنامہ نگار رک سٹیوزکہتے ہیں کہ تینوں مذاہب کے مقامات مقدسہ کی اس یکجائی سے تعاون اور اتحاد کا موقع ابھرنا چاہئے تھا، لیکن بجائے اسکے اس مزار پر یہ لوگ مزید منقسم ہو جاتے ہیں۔الخلیل کے بازاروں میں دو ہی قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ جن کے باعث کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جو سکیورٹی پر مامور ہیں۔یہ سنسان گلی جس کے بالکل سامنے کھنڈر نما عمارتیں ہیں، حضرت ابراہیم ؑکی باہم مخالف نسلوں کو مزید منقسم کرتی ہے اورسکیورٹی کی یقین دہانی کے لئے یہاں چند ہزار اسرائیلی فوجی تعینات ہیں۔