عوام بمقابلہ سیاستدان

توقعات کے عین مطابق آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان اس بارے میں ایک 'مہا بھارت‘ چھڑ چکی ہے کہ کون زیادہ کرپٹ ہے۔ان دونوں رہنماؤں کے قصے اب داستانوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ہمیں یہ داستانیں زبانی یاد ہیں کیونکہ پچھلے پچیس برسوں سے ہم انہیں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اس بارے میں کِیا کیا ہے؟کچھ بھی نہیں! میڈیا والے اپنی ریٹنگ بڑھانے کی غرض سے کچھ عرصے تک ان چیزوں کے بارے میں شور شرابا کرتے ہیں لیکن بعد میں ان کا ذکر یوں چھوڑ دیتے ہیں جیسے ایسا کچھ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔سو ہمیں کیا کہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے ترجمان پرویز رشید صاحب کیا کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم کیوں یہ سب پڑھنے میں اپنا وقت برباد کریں؟ ہم کیوں نہ ان لوگوں کے بارے میں پڑھیں جو بھلے مشہور و معروف ہستیاں نہ سہی، لیکن زندگی کو بامعنی بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کر رہے ہیں۔پچھلے ہفتے ڈاکٹر اولیور سیکس کا انتقال ہوا۔وہ نیویارک کے معروف نیورولوجسٹ تھے۔اپنے بعض مریضوں کو انہوں نے ایک لکھاری کی آنکھ سے دیکھا اور ان کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں لکھا بھی تھا۔ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ سرطان کے مرض کے باعث جلد ہی دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں تو انہوں نے سیاست اور گلوبل وارمنگ جیسے مسائل کومزید توجہ دینا چھوڑ دیا کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ مسئلے اب ان کا دردِ سر نہیں، یہ مستقبل کے مسئلے ہیں۔ بقول ان کے ''جب میں باصلاحیت نوجوانوں سے ملتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل اچھے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ڈاکٹر صاحب کے ذکر کے بعد چلئے اب دیکھتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میںکس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دو عشروں میں پیدا ہونے والوں کو 'بے بی بلومرز‘ کا لقب دیا جاتا ہے اور ان کے مقابل جو بعد میں آنے والی جنریشن ایکس، وائی یا زیڈ ہے،اس کے لئے کس طرح'' جوشِ جواں، شباب وطاقت اور امیدافزا۔۔۔۔‘‘ جیسی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں۔بحر اوقیانوس سے تیس ہزار فٹ کی بلندی پر ایک امریکی نوجوان ہم سے پوچھ رہا تھا کہ ''کیا آپ کو خدا پہ یقین ہے؟‘‘ فضا میں اس قدر تاریکی میں اور اس قدر بلندی پر اس سفر کے دوران ہم جیسے بے بی بلومر سے اس نوجوان کا یہ سوال ایسا ہی تھا جیسے اس صدی کا بچہ (یعنی جنریشن زیڈ) اپنی نانی یا دادی کو ستا رہا ہو۔ عقیدے کے بارے میں بات چیت شروع یوں ہوئی کہ ہم نے اسے بتایا کہ ہم عنقریب اسرائیل اور فلسطین میں مقدس مقامات کی سیر کو جا رہے ہیں۔ ہمارا یہ ساتھی مسافر خوفناک حد تک ذہین ہے۔ خود کو یہ تین اعشاریہ ایک فیصد لادین امریکیوں میں شمارکرتا ہے۔اس کی شائستگی دل موہ لینے والی ہے۔اس کے جوش و جذبات کی شدت اس کی ہنسی کی طرح متاثر کن ہے۔وہ حیاتیاتی طبعیات کا ماہر ہے اور اس سپیشلائزیشن کے دور میں ایک نئی ایجاد کی سند بھی اس کے نام ہونے جا رہی ہے۔خو د کو وہ جنریشن وائی میں شمار کرتا ہے یعنی اسی کے عشرے میں پیدا ہوا ہے۔پینتیس برس کے آس پاس اس کی عمر ہے۔اسے یقین ہے کہ وہ اگلی صدی دیکھ پائے گا۔وہ ہمیں کہہ رہا تھا کہ ''خاتون، یہ ادویات کا معجزہ ہے اور بس!‘‘۔اس کی بات پر واہ واہ کر کے ہم نے سونے کے لئے آنکھیں موند لیں۔
1982ء میں جب نوبل انعام یافتہ وی ایس نے پال نے "Among The Believers: An Islamic Journey" نامی متنازعہ کتاب لکھی تو بہتوں کا خیال یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کے خلاف تعصب سے کام لیا ہے۔بعض لوگوں نے ان پر داد و تحسین کی بارش بھی کی اور ان کے سر کے گرد تقدیس کے تخیلاتی ہالے تک کھینچ دیئے تھے۔تاہم اکیسویں صدی کی ز ندگی نے ایمان رکھنے والوں کی ایک الگ قسم کو جنم دیا ہے۔یہ اس قسم کے انتہا پسند لوگ بالکل نہیں جن سے جناب 'نے پال‘ ملے اور جن کا انہوں نے اپنی کتاب میں مضحکہ اڑایا؛ بلکہ یہ مختلف نسلوں، رنگوں، ثقافتوں، طبقات اور عقائد کے حامل عام مرد اور عورتیں ہیں۔ اپنے مشرقِ وسطیٰ کے سفروں میں جن بے شمار لوگوں سے ہم ملے ہیں ان کے عقائد میں ہمیں خوبصورتی، صحت، انا پرستی، تقویٰ پرستی، روحانیت پرستی، لذت پرستی اور مادہ پرستی جیسی مختلف چیزوں کی جھلکیاں نظر آتی رہی ہیں۔ ہر ایک انسان چاہے مرد ہو یا عورت، اس کی ایک کہانی ہوتی ہے۔آئس لینڈ کے ایک پارلیمانی رکن نے ہم سے کہا تھا کہ ان کہانیوں کو پانے کے لئے ہمیں ان کو سننا پڑے گا۔دبئی ایئر پورٹ پر ہمیں ایک بار عیسائی راہبات کا ایک گروہ دکھائی دیا۔ہمارا تصور کہتا ہے کہ ان کی زندگی کی کہانی مسرت سے بھرپور ہوتی ہے۔ان کی ہوشیاری انہیں کچھ بولنے نہیں دے رہی تھی؛ تاہم ایئر پورٹ پر پانیوں کی جھرن کاری نے انہیں مسحور کر رکھا تھا۔مختلف پوز بنا کر وہ اپنی سلفیاں لیتے ہوئے سکولوں کی اچھلتی کودتی بچیاں معلوم ہو رہی تھیں۔ادھر ہم اس فکر میں تھے کہ یہ راہبات اپنی تسبیحوں کے دانے کیوں نہیں پھیر رہیں؟ یہ تو اپنے سیل فونوں سے کھیل رہی ہیں! لیکن کیوں نہ کھیلیں؟ آخر جنریشن ایکس (یعنی ساٹھ کے عشرے سے لے کر اسی کے عشرے کے اوائل تک جنم لینے والی نسل) کی کیتھولک راہبات ہیں! ہمارے کانونٹ کے زمانے کی مخصوص لباس میں ملبوس راہبات سے یہ یکسر مختلف ہیں۔ان کے مزاج ان کے سرکی پوشاکوں کی طرح اکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کی آنکھوں کی دہشت مارڈالنے والی ہوا کرتی تھی۔دبئی ایئر پورٹ پر ہم نے جو یہ '' عرائس المسیح‘‘ دیکھیں، یہ یروشلم میں مسیح کی پوجا کو جانے والے زائرین کا نیا چہرہ ہے۔فادر میتھیوز پچھلی صدی کے آدمی ہیں، ان کی یہ بات قطعی آج کے زمانے سے موافقت نہیں رکھتی کہ '' باہر کہیں اگر راہبہ نظر آئے تو یہ نظارہ نہایت متاثر کن ہوتا ہے، کیونکہ یہ وہ عورت ہے جو اپنی زندگی یسوع مسیح ؑ کے لئے گزارتی ہے۔اپنے مخصوص لباسوں میں ملبوس یہ راہبات خدا کو دوسرے لوگوں کے قریب تر لے آتی ہیں۔وہ لوگ جو آج شک اور خوف میں ڈوبی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لئے کسی راہبہ کی ایک جھلک بھی تسکین بخش ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ وہ عورت ہے جودعاؤں کے ساتھ خدا کی رضا کے مطابق جی رہی ہے‘‘۔
کراچی کے لئے اپنی پرواز کا انتظار کرتے ہوئے ہمیں ایک آدمی دکھائی دیا جو اپنے پہناوے، اپنے ہاتھ پر بندھی سونے اور ہیرے کی اومیگا گھڑی اور اطوار سے بھی نودولتیا معلوم ہو رہا تھا۔اس نے اپنا بریف کیس کھول کر ہمیں دستاویزات دکھائیں کہ کیسے وہ اپنے پاکستانی کلائنٹس کے لئے دبئی میں جائیداد کے سودے کروا چکا ہے۔اس نے ہمیں بتایا کہ ''دبئی میں جائیداد کا کاروبار عروج پر ہے۔‘‘ہم نے کہا کہ ''اچھا، اگر ہمیں لگژری فلیٹ خریدنا ہو تو آپ ہی وہ دلال ہیں جن سے ہمیں رابطہ کرنا ہوگا؟‘‘۔اس نے جواب دیا کہ '' مجھے پیسہ دکھائیں، پھر جو آپ کا حکم!‘‘۔اس سال تین مہینوں میں پاکستان، دبئی کی جائیدادوں میں اپنے تین سو اناسی ملین ڈالر سے محروم ہو چکا ہے۔یہ ہمارے اسی نو دولتیے دوست کی مہربانی ہے۔اس نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں کالا دھن بہت ہے جسے سفید کرنے کے لئے وہ لوگ دبئی میں جائیدادیں خرید رہے ہیں۔کہیں وہ ہماری جانب تو اشارہ نہیں کر رہا؟ اس کی پرواز کا اعلان ہوا اور وہ چل دیا۔
انیس برس قبل جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو ہم نے آصف زرداری صاحب کا ایک انٹرویو کیا تھا۔انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ رات کو جب سب سونے چلے جاتے ہیں تو بی بی سارے گھر کی بتیاں بجھا دیتی ہیں۔ بی بی بہت محتاط رہتی ہیں کہ وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ ہم نے ان کی بات کا یقین کیا۔جی ہاں، آپ کا اندازہ درست ہے، بات ان کی کرپشن کی داستانوں کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے ان سب کی تردید کی۔ تاہم جب ان کا یہ انٹرویو "The all-profit, no loss man in Islamabad" کے عنوان کے تحت شائع ہوا، تو ہم سے وہ کافی ناراض ہوگئے۔ انیس برس بعد بھی زرداری صاحب ویسے کے ویسے ہی بدعنوان ہیں۔ میاں نواز شریف کا ذکر ہم اگلے کالم میں کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں