عید، پوپ اور یہودیوں کا نیا سال

اس ہفتے امریکہ میں ایک بڑی شاندار بات ہوئی، لیکن ہم لوگ اپنی روزمرّہ زندگی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں کے بارے میں ہم لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچتے۔ اپنے مذہبی فرائض، عبادات و رسوم میں اتنے مگن رہتے ہیںکہ اتنا وقت بھی نہیں نکال پاتے کہ سوچ سکیں کس طرح تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام اس ہفتے ایک دوسرے کے کتنے قریب آئے۔ منگل کے روز پوپ فرانسس اپنے اوّلین دورے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچے۔ بدھ کو یہودیوں کا ''یوم الغفران‘‘ تھا یعنی ان کے سالِ نوکا آغاز اور جمعرات کو مسلمانوں کی عیدالاضحیٰ تھی۔ کیا ان تینوں مذاہب کا ایک ہفتے میں یوں ایک دوسرے کے قریب آنا کوئی معنی رکھتا؟ ہمیں یقین ہے کہ سوچ سمجھ رکھنے والے لوگ اس سوال کا جواب اثبات میں ہی دیںگے۔ ان تینوں مذاہب کے لوگ اہلِ کتاب ہیں۔ ان کے ماننے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ امن اور اتفاق سے رہیں۔ افسوس کہ عملاً ہوتا اس سے بالکل الٹ ہے۔آج یہودی، عیسائی اور مسلمان سب ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم یروشلم (بیت المقدس)گئے جہاں مسجد اقصیٰ ہے۔ یہ اسلام کا تیسرا سب سے مقدس مقام ہے۔ قبۃ الصخرہ بھی یہیں ہے، جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسرا یعنی معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دیوارگریہ ہے جو یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ اس کے قریب کلیسائے مقدس ہے جو عیسائیوں کے لئے مقام تقدیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب یہیں دی گئی تھی اور
یہیں ان کی تدفین ہوئی۔ اس کے باوجود اس مقدس سرزمین پر ایک خدا کی پرستش کرنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان صدیوں سے باہم لڑتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ایسے سوالات آ رہے تھے جن کے جوابات آسانی سے نہیں ملتے۔ مثلاً خدا نے اس 0.9 مربع کلومیٹر کے علاقے کوکیوں ان تینوں بڑے مذاہب کی علامات کی یک جائی کا مقام بنا دیا جس کے ماننے والے اپنے باہمی اختلافات کو آج تک ختم نہیں کر سکے۔ دنیا کو اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکے گا جب تک ان تینوں مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کو مارنا چھوڑ کر امن کے ساتھ رہنا نہیں سیکھ لیتے۔ سب سے پہلے عیسائیت کی مثال دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ پہنچنے والے پوپ فرانسس دنیا کے 1.2بلین کیتھولک عیسائیوں کے اتحاد کی علامت ہیں۔ امریکہ میں ان کی آمد اس ملک کے لئے امید اور دنیا کے لئے خوشی کی علامت بنی۔ وہ پہلے پوپ ہیں جوکلیسا اور ریاست کے مابین تفاوت ختم کرتے ہوئے امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریںگے۔ وہ امریکہ پہنچے تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے۔ پوپ فرانسس کو''عوامی پوپ‘‘ پکارا جاتاہے۔ ان کے والدین اطالوی تارکین وطن تھے۔ پیدائش ان کی ارجنٹائن میں ہوئی۔ وہ بتا رہے تھے کہ اپنے وطن کے بنیادی اصولوںکے مطابق، قوم کے سیاسی مستقبل کو بدلنے کا جذبہ رکھنے
والے امریکی عوام کی امیدیں اور امنگیں سننے اور ان کی ہر ممکن رہنمائی کے لئے وہ تیار ہیں۔
بدھ کے روز ہم بس میں نیویارک جا رہے تھے کہ راستے میں ہمیں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوںکا ایک جمگھٹا نظر آیا۔ یہ سب سفید لباس پہنے سب سالِ نو کی تقریبات میں شرکت کے لئے ہیکلوں(یہودی عبادت گاہ) کی جانب جا رہے تھے۔ اس دن یہودی پچیس گھنٹے کا روزہ رکھ کر ''سالِ گزشتہ کئے گئے گناہوںکی تلافی کی سعی اور خدا تعالیٰ سے اپنی روحانی مغفرت کی دعا‘‘ کرتے ہیں۔ جمعرات کو امریکہ میں مسلمانوں نے مسجدوں میں عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھی اور خدا کے فضل وکرم کے طلب گار ہوئے۔ یہ عید اس عظیم واقعے کی یادگارکے طور پر منائی جاتی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم الٰہی کے مطابق اپنے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے تھے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر انہیں مطلع فرمایا کہ ان کی قربانی پہلے ہی قبول ہو چکی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لئے قابلِ احترام ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں مذاہب کے درمیان عملی طور پر کوئی چیز مشترک ہے نہ کوئی گہرا تعلق قائم ہے۔ ہم اسرائیلی مقبوضہ فلسطین میں الخلیل بھی گئے تھے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کی قبریں موجود ہیں۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر انہتر بار ہوا ہے۔ ان کو تینوں بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا موسس اعلیٰ(بانی) سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تیسری سورت (آل عمران) کی 65 ویں آیت میں کہا گیا ہے کہ '' تم لوگ حضرت ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد ہوئی تھیں۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اور پھر 67 ویں آیت میں فرمایا: ''حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ باطل سے جدا رہنے والے سچے مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہیں تھے‘‘۔ مسلمانوں کے لئے یہ جگہ مسجد ہے، یہودیوں کے لئے ہیکل ہے اور عیسائیوں کے لئے یہ ایک چرچ! ان تینوں مذاہب کے لوگ اپنی روحانی جڑوں کی تلاش میں یہیں آتے ہیں، لیکن یہاں آکر عبادت وہ الگ الگ کرتے ہیں۔ شیشے کی بڑی بڑی بلٹ پروف دیواریں ان کے بیچ کھڑی ہوتی ہیں۔ یہی جگہ ان کے درمیان اتحاد اور تعاون کا مرکز بھی بن سکتی تھی، لیکن یہی ان کے اختلافات کا گڑھ ہے۔ الخلیل فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تناؤ کا مرکز ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ایک دوسرے سے ناراض اور برسرپیکار رہتی ہے۔
ہم ایک بار پھر ذکرکریں گے پوپ فرانسس کا جو اس وقت امریکی میڈیا پہ چھائے ہوئے ہیں۔ ان کا انکسار، ان کی سادگی ، غریبوں اور غیرمراعات یافتہ لوگوں کے علاوہ بیماروں کی خدمت کے لئے ان کا جوش و جذبہ حیران کن ہے۔ کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کئے بغیر وہ کیتھولک چرچ میں اصلاحات لانے میں کامیاب رہے ہیں؛ تاہم مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی مصلح نہیں۔ 
اس ماہ کے اوائل میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بھی امریکہ کے دورے پہ آئے تھے۔ پوپ فرانسس کے دورے کا موازنہ ان کے دورے سے کر کے دیکھیں۔ سعودی فرمانروا کے دورے میں شامل افراد کے لئے فور سیزنز نامی ہوٹل، پورے کا پورا بک کر لیا گیا تھا۔ یہ امریکی دارالحکومت کا سب سے مہنگا ہوٹل ہے۔ ہر جگہ ریڈ کارپٹ بچھائے گئے تھے اور فرنیچر بھی تقریباً سونے کا رکھا گیا تھا۔ سبھی کچھ سونے کا تھا۔ لوئر پارکنگ گیراج میں بھی ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تاکہ چارسوگاڑیوں کے قافلے میں شامل افرادکواپنے پائوں مرسڈیز سے اترکر کہیں زمین پر نہ رکھنے پڑ جائیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سعودی شاہی خاندان اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ حج اور عمرے سے کماتا ہے، تیل بیچ کر نہیں! پھر بھی یہ لوگ خود تو سونے میں ڈوب کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن ان کے ناقص انتظامات کی وجہ سے بے چارے غریب حجاج کو مرنا پڑتا ہے۔ سعودی شاہی خاندان پوری مسلمان دنیا میں مثالی قیادت کا نمونہ قطعاً نہیں ہے اور یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں