امریکہ بہادر اگلی بار پاکستان میں حکمرانی کا تاج کس کے سر پر رکھے گا؟ کیا یہ تاج دختر اوّل مریم نواز شریف کے سر رکھا جانے والا ہے؟ ہمارے اس سوال پہ حیران ہونے کی ضرورت نہیںکیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے ایوانِ وزیر اعظم کے باسیوں کا چنائو امریکی ہی کرتے ہیں۔ فیصلہ ان کا ہوتا ہے اور ہمارا سرِ تسلیم خم ہو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی دو بار ملکہ انہی نے بنوایا تھا اور تیسری بار بھی ملکہ وہی بننے والی تھیں لیکن بد قسمتی سے موت نے انہیں آ لیا۔ 2007 ء کا سارا موسمِ گرما انہوں نے واشنگٹن میں ہی گزارا تھا جہاں وہ اقتدار میں اپنی واپسی کے لیے لابنگ کرتی رہی تھیں۔ بعد ازاں بد نامِ زمانہ این آر او کی بدولت ان کی واپسی ممکن بنادی گئی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حکمرانی کا تاج ان کی بجائے ان کے شوہر آصف علی زرداری کے سر سج گیا۔ شکر ہے، اوباما انتظامیہ نے ہمارے سابق صدر کے لیے کبھی گرمجوشی نہیں دکھائی۔ موصوف کی حکومت کی کرپشن انتہائی حدوں کی تھی۔ دریں اثنا نوجوان بلاول بھی منظر پہ نمودار ہو گئے۔ آصف زرداری نے جو ہم سب جانتے ہیں کہ ''حادثاتی صدر‘‘ کے طور پر مشہور تھے، بلا تاخیر ''بھٹو‘‘ کا لاحقہ بلاول کے نام سے جوڑ کر ان کا نیا نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا۔ مرحوم گورنر سلمان تاثیر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ بلاول کی سیاسی تربیت کریں تاکہ 2013ء میں اپنے والدکی صدارتی میعاد کے خاتمے پر وہ حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے لائق بن سکیں۔ ایک جیالے کے طور پر سلمان تاثیر نے ازسر نو جنم لیا تھا۔ ہم نے ایک بار ان سے انٹرویو لیا اور اس کے دوران ہم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ اپنے صدرکے انتہائی مداح تھے۔ پنجاب سے شریف خاندان کے رسوخ کو اکھاڑ پھینک کر وہاں بلاول بھٹو زرداری کی شہنشاہی حیثیت جمانے کے حوالے سے وہ بڑے پر عزم نظر آتے تھے۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جب تک بلاول بھٹو زرداری سنِ بلوغت کو نہیں پہنچ جاتے وہ ان کی راہ ہموار کرنے کے منصوبے کی تکمیل کے لیے مصروفِ عمل رہیں گے۔ تاہم قسمت کا لکھا کچھ اور ثابت ہوا۔ سلمان تاثیر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعدہمارے اس ملک میں پرنس آف ویلز یا پھر ڈچز آف یارک کسے بننا ہے؟ بلاول بھٹو زرداری اب 27 برس کے ہیں اور تختِ پاکستان کی ولی عہدی پانے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں؛ تاہم گمان یہ ہے کہ مریم نواز ان سے آگے نکل جائیں گی۔ وائٹ ہائوس میں مشیل اوباما کے ساتھ کھڑی مریم نواز کی تصاویر دیکھ کر ہر پاکستانی کے دل کو تقویت ملنی چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ امریکہ کے نزدیک پاکستانی مردوں کی اکثریت عورت مخالف سمجھی جاتی ہے۔ ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی عورتوںکو چاردیواری میں قید رکھنا پسند کرتے ہیں۔ سو مریم نواز ان کے لیے ایک نیا چہرہ ہے۔۔۔۔ نیا اورحسین! امریکی خاتونِ اوّل تعلیم نسواں کی عالمی مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔ انہوں نے مریم نواز کو امریکی دورے اور اس عالمی مہم میں شریک ہونے کی دعوت محض ان کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر نہیں دی تھی۔ انہوں نے مریم نواز شریف کو بتایا ہے کہ امریکہ پاکستان میں چھوٹی بچیوںکی تعلیم کے شعبے میں 70ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس پیسے کے ذریعے درجن بھر سے زائد نئے سکول بنائے جا ئیں گے جبکہ سینکڑوں دیگر سکولوں کو بحال کیا جائے گا۔ ہزاروں لڑکیوں کی ہیلتھ سکریننگ کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی طبی دیکھ بھال ان کی ضرورت کے مطابق ہو رہی ہے۔ لڑکیوں کو ہنر کی فراہمی کے لئے بھی تربیتی پروگرام بنائے جائیں گے اوراس کے علاوہ لڑکیوں کے لیے کالج کے وظیفوں کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ پاکستان کی دو لاکھ کے قریب لڑکیاں ان کاوشوں سے مستفید ہوںگی۔ رپورٹس کے مطابق مشیل اوباما اور مریم نواز کے مابین ملاقات تعلیم کے موضوع پر مرکوز رہی لیکن زیادہ بڑی خبر یہ حقیقت ہے کہ امریکیوں نے اس دورے اور تعلیم کے شعبے میں کاوشوں کو مریم نواز کی حیثیت جمانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ انہیں نواز شریف کی جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک خبر میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ '' مشیل اوباما کی جانب سے تعلیم نسواں کے شعبے میںمل کر کام کرنے کے لیے مریم نواز کے اچانک انتخاب کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ (پاکستان کی دخترِ اول نے وائٹ ہائوس کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہونے تک تو تعلیم کے شعبے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اور نہ ہی اس شعبے میں کوئی خاص کام انہوں نے کیا ہے) اس انتخاب کی پشت پر امریکیوں کے دماغ میں ایک اور بڑا منصوبہ کلبلا رہا ہے اور یہ امر اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریم نواز کو دعوت نامہ پہنچانے کی ذمہ داری ڈاکٹر پیٹر لیوائے کو دی گئی تھی جو جنوبی ایشیا کے لئے اوباما کے اعلیٰ ترین معاون ہیں۔ جوہری معاملات کے حوالے سے مذاکرات میں بھی ان کی حیثیت بنیادی ہے۔ مریم نواز کے ساتھ ان کی ملاقات نے اسی لیے پاکستان میں متعدد لوگوں کو سوال اٹھانے پر مجبور کیا ہے‘‘۔
مشیل اوباما اور مریم نواز کی ملاقات میں کچھ وقت کے لیے صدر اوباما بھی شریک ہوئے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی مریم نواز سے بہت متاثر ہوئے ہوں گے۔ سو، کیا پاکستانیوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے؟ مستقبل میں اس ملک کی قیادت مریم نواز کے ہاتھوں میں جانے کے امکان پر ہمیں خوشیاں منانی چاہئیں؟ ہمارے ایک دوست نے اس پر کافی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: '' یہ تصور ہی ہمارے لیے تلخ ہے، آخر امریکہ کیوں اپنی مرضی کے حکمران ہم پہ مسلط کرتا ہے؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جب ہمارے سیاستدان بیمار یا قریب المرگ ہو جاتے ہیں تو وہ آخر کیوںاپنے بیٹے یا بیٹی کو جانشین نامزد کر تے ہیں تاکہ ان کے بعد وہ ملک لوٹنے کا کام کو جاری رکھ سکیں۔ بھٹو، شریفوں اور گاندھیوں کو کیوں یہ لگتا ہے کہ خدا نے قیامت تک حکمرانی کا حق انہیں ہی سونپا ہوا ہے۔کیا یہ خو د کو مغل بادشاہ یا برطانوی شاہی خاندان سمجھتے ہیں؟
ہمارے یہاں ایسی بچہ پارٹیوں یا کِڈی پارٹیوں (ہماری بیگمات کی ٹی پارٹیوں کے ساتھ اسے خلط ملط مت کیجئے گا)کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ بھٹو، زرداری، شریف، گیلانی اور چودھری خاندانوں کے سپوتوں کی ترقی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے ان بچوں کے لئے ان کا مستقبل ان کے ماں باپ بناتے ہیں۔ پاکستان میں ابتدا سے دیکھیں تو ایوب خان کے بیٹوں اور داماد نے جائدادیں بنائیں، پیسے کمانے کے لئے لائسنسز لیے اور بلادھڑک ''خان جی‘‘ کا نام استعمال کیا۔ ایوب خان کو ان میں سے کسی میں کوئی برائی دکھائی نہیں دی۔ کم از کم اس بات کا سہرا ضیاء الحق کے سر جانا چاہیے کہ انہوں نے ایسی خاندان پروری کو رائج نہیں کیا۔ جہاں تک بھٹو کی اولاد کا تعلق ہے تو اس ضمن میں اگر کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ فرانس میں جن لوگوں نے انہیں خود اپنی آنکھوں سے قذافی کی جانب سے تحفے میں دی گئی دولت پر ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا ہے‘ ان کی زبانی ان کے قصے سننے کے لائق ہیں۔ اس وقت ان قصوں کی تشہیر کی ضرورت بھی ہے کیونکہ جیالوں کی موجودہ کھیپ بھٹو کے نام کے احیا کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے ہوئے بلاول کو پاکستان کے اگلے حکمران کے طور پر پیش کر رہی ہے۔