آرمی چیف کے لیے وقتِ امتحان

جنرل راحیل شریف کے متوقع دورئہ واشنگٹن کے لئے سرکاری ایجنڈا تشکیل پا چکا ہے۔ وہ اوباما انتظامیہ اور امریکی فوجی قیادت کے ساتھ افغانستان کے بارے میں بات چیت کرنے جا رہے ہیں۔کیا بات واقعی صرف اتنی ہی ہے؟ شاید نہیں! میڈیا لیکس اورواشنگٹن کے چند ایک ماہرین کے ذریعے ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ امریکی بات چیت میں جوہری پروگرام کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہوگا کہ پاکستان دور مار میزائلوں کی تیاری روک کرجوہری دھماکوں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کردے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ ماہ جب وزیر اعظم امریکی دورے پہ جارہے تھے تو اس وقت بھی جوہری پروگرام کے معاملے کے اٹھائے جانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہمیں پریشانی یہ تھی کہ کہیں صدر اوباما میاں صاحب کو مذکورہ معاہدے پر دستخط کرنے کا کہہ کر دھمکی نہ دے دیں کہ دستخط نہ کرنے کی صورت میں انہیں ایسے ویسے نتائج بھگتنا پڑیں گے؛ تاہم خوش قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یعنی کم ازکم سرکاری سطح پر! صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان بند دروازوں کے پیچھے کیا کیا باتیں ہوئیں، یہ کوئی نہیں جانتا اور شاید کبھی جان بھی نہیں پائے گا۔ فی الحال پاکستان اور امریکہ کے درمیان سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے، اور ہمیں سکون کا سانس لینا چاہئے، لیکن کیا ہم واقعی ایسا کر سکتے ہیں؟آپ شاید سو چ رہے ہوں کہ ہمیں اس قدر تشویش کیوں ہے؟تو چلئے ایک نظر ڈال کر دیکھتے ہیںکہ جنرل راحیل شریف کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکیوں کے ساتھ افغانستان کے معاملے پر برسوں کس طرح بات چیت کرتے رہے تھے۔ انہیں طالبان سے نمٹنے کا بہت مشکل کام سونپا گیا تھا۔2009ء میں ستر امریکی فوجی مشیر اور تکنیکی ماہرین پاکستان میں موجود تھے۔ یہ لوگ خفیہ طور پر پاکستانی فوج کو طالبان اور القاعدہ والوں کو مارنے کی تربیت دے رہے تھے۔سی آئی اے پہلے ہی سے ساٹھ عسکریت پسندوں کی شناخت کر چکی تھی اور ہماری فضائیہ کو انہیں ہلاک کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ وہ کام جب مکمل ہو گیا تو آنجہانی رچرڈ ہالبروک نے، جو پاکستان اور افغانستان کے لئے صدر اوباما کے خصوصی ایلچی تھے، جنرل کیانی کو صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اب انہیں بیت اللہ محسود اور فضل اللہ کو ختم کرنا ہوگا۔اسلام آباد میں امریکی جاسوس کاروں کے پاس صدرپرویز مشرف، جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی بات چیت محفوظ پڑی ہے۔ ریکس (فرضی نام) مغرب میں ہمارے ایک ہم سخن ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ''دنیا بھر میں دشوار جگہوں میں کام کرنے کا عام طریق یہی ہے، یہ بات ہمارے لئے ناقابلِ فہم ہے کہ پاکستانیوں کو اس پہ حیرت کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ اسلام آباد میں امریکہ کا ایک بہت بڑا سگنل سیکشن ہے(سفارت خانے کی عمارت اور زمین پر ذرا نظر دوڑائیے) اور اس کا مقصد امریکیوںکی اپنی مائوں سے بات چیت کرانا تو کم از کم بالکل بھی نہیں۔اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع امریکی سفارت خانے میں جاری پاک امریکہ معاونت کی تصدیق نیویارک ٹائمز نے بھی کی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان کے ایئر ڈیفنس کنٹرولرز کی مختصر ٹیم امریکی سفارت خانے میں بیٹھ کر اس امر کو یقینی بنا رہی ہے کہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجے گئے پاکستانی ایف سولہ بمبار طیارے امریکی ڈرونز کو نشانہ نہ بنا لیں یا پھر اس علاقے میں مصروفِ عمل سی آئی اے کے اہلکار کہیں ان کی زد میں نہ آجائیں۔پاکستانی عوام کو تو ڈرون طیاروں کے ساتھ بربریت پسند طالبان کی تصویریں دکھا کر مصروف رکھا گیا ، لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ زیادہ بدشگونی کا حامل ایک منظر نامہ بھی ابھر کر سامنے آرہا تھا۔تفصیلی انٹیلی جینس بریفنگ کے دن گزر گئے تھے۔ چند ایک منتخب صحافیوں کے ساتھ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر والے جو آف دی ریکارڈ سیشن کرتے تھے، اب وہ بھی نہیں ہو رہے تھے۔ چھ برس قبل کی یہ بات ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کوئی بھی سراغ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ نیویارک ٹائمز ہی اس ضمن میں ہماری تمام تر معلومات کا بنیادی ذریعہ بن گیا تھا، یا پھر وہ امریکی صحافی، قلم کار یا نامعلوم سی آئی اے ایجنٹ جو اپنی خبروں، مضامین یا پھر کتابوں میں صفحوں کے صفحے پاکستانی حکمرانوں کی خفیہ بات چیت یا کرتوتوں کی تفصیلات سے بھر دیا کرتے تھے۔مختصر یہ کہ امریکہ نے اپنی تمام تر جاسوسی مشینری پاکستان منتقل کر دی تھی۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ امریکی انٹیلی جنس کی ایک بہت بڑی ناکامی تھی۔ اس کے بعد نیشنل سکیورٹی ایجنسی(NSA)نے سی آئی اے کو یہ ہدایت جاری کر دی تھی کہ پاکستانی قائدین کے رابطوں کی نگرانی کرکے ان کی وائر ٹیپنگ ہونی چاہئے۔ ہمارے انٹیلی جینس ذریعے نے ،جسے ہم ریکس پکار تے ہیں، ہمیں بتایا کہ ''القاعدہ چاہتا ہے کہ آپ کا ملک حقیقی سعودی یا ایرانی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنے۔اسلامی دنیا میں اسے پاکستان قیادتی کردار کا حامل معلوم ہوتا ہے۔اس کے لئے بنیاد کے طور پر یہ دہشت اور بھارت کا مکمل استعمال کر رہا ہے۔مغرب میں عام تصور یہی ہے اور اسی کا جواب پاکستان کو دینا چاہئے۔‘‘ سابق امریکی وزیرِخارجہ میڈیلین البرائٹ کا بھی یہی خیال تھا''پاکستان ایک عالمیِ دردِ سر بننے کے سارے اجزائے ترکیبی رکھتا ہے۔ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ دہشتگردی، انتہاپسندی اور کرپشن وہاں موجود ہیں۔ غربت بھی بے تحاشہ ہے اور اس کا محلِ وقوع کچھ ایسا ہے کہ جو ہمارے لئے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔یہی ''دردِسر‘‘ آنجہانی رچرڈ ہالبروک کو بھی لاحق ہوا تھا۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ''مشکوک کردار‘‘ پر وہ نہایت برہم اور برانگیختہ رہتے تھے، انہوں نے جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے وضاحت بھی طلب کی تھی اور انہیں وزیر اعظم سمیت فی الفور واشنگٹن پہنچے کی ہدایت بھی کی تھی۔ان کی اس کیفیت کی وجہ بہت واضح تھی، چینل 13کے چارلی روز کے ساتھ انٹرویو میں بھی انہوں نے یہ کہا تھا کہ '' اس وقت جبکہ ہم یہ بات چیت کر رہے ہیں، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کچھ لوگ امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، جیسا کہ انہوں نے ممبئی میں کیا تھا، یا جیسا کہ انہوں نے سوات پر قبضہ کر کے کیا تھا۔ذرا سوچئے کہ امریکی سویلین اور فوجی قیادت کے ہاتھوں میں برے اور اچھے کردار نباہ کر پاکستانی فوجی قیادت کی ذہنی حالت کیا ہوگی۔ریکس کے مطابق'' پاکستان کو بیک وقت طالبان اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اجازت دے کر امریکہ نے ایک دہرا کھیل کھیلا تھاکیونکہ اس وقت کے لحاظ سے یہی ا ن کے لئے موزوں تھا، لیکن اب جبکہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان سے جنگجوافغانستان آ رہے ہیں اور پاکستان انہیں روکنے میں ناکام بھی رہا ہے تو صورتحال اب بدل گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ جانتا ہوں کیونکہ قندھار کے باغیوں میں نصف سے زائد تعداد پاکستانی پختونوں کی ہے، سندھ اور پنجاب کے لوگ بھی وہاں موجود ہیں۔ ان کی مخالفت صرف افغان ازبک، تاجک اور ہزارہ ہی نہیں کرتے بلکہ افغان پختون بھی یہ چاہتے ہیںکہ یہ پاکستانی پختون واپس اپنے وطن لوٹ جائیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی فوج نے صرف یہی نہیں کہ اس ساری صورتحال پہ آنکھیں بند کر رکھی تھیں بلکہ وہ اس سارے سلسلے کی حوصلہ افزائی بھی کرتی رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوات اور باقی سب جگہوں میں بھی مذہبی انتہاپسندی پھیل رہی ہے۔ ایک اقلیت اپنی مرضی اکثریت پر مسلط کر رہی ہے۔‘‘ 2011ء میں امریکی جاسوسوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا خفیہ ٹھکانہ بالآخر کھوج نکالا ، اور اس سال دو مئی کو امریکی فوجیوں نے اس کے بیڈ روم میں داخل ہو کر اسے گولی مار دی تھی۔ اس سارے پس منظر میں جنرل راحیل شریف کی امریکی اہلکاروں کے ساتھ افغانستان کے بارے میں ہونے والی متوقع بات چیت ان کی مہارت، معلومات ، تجربے اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر واضح طور پر پاکستان کے دفاعی خدشات اور نقطہ نظر کو اس کے سامنے پیش کرنے کی ان کی قابلیت کا امتحان ہو گا۔اپنے آرمی چیف پر ہمیں اگرچہ پورا اعتماد ہے لیکن یہ سب ان کے لئے آسان بہرحال نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں