پچھلے ہفتے پیرس حملوں میں ہونے والی 132ہلاکتوں پر یورپ اور امریکہ میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ امریکہ میں بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پر اس حملے کی خبریں مسلسل دی جا رہی ہیں۔ دہشت گردوں اور ان کا شکار بننے والوں کے نام بھی بتائے گئے۔ بیگناہ فرانسیسیوں کی ہلاکتوں کی یہ کوریج یقیناً رُلا دینے والی ہے۔کسی انسان کو گولی مارنے کے لیے دہشت گردوں نے کس طرح اسلام کا نام استعمال کیا؟ اسلام تو تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ یہ تو ایک پُر امن مذہب ہے، لیکن نائن الیون کے بعد سے اسے مسلسل خود کش حملوں، خونریزی اور قتل و غارت کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ جہادیوں کی جانب سے جس عسکری اسلام کی ترویج کی گئی اس کے باعث دنیا امن پسندوں اور دہشت پسندوںکے دوگروہوں میں منقسم ہوگئی ہے۔ افسوس کہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے ؛ حالانکہ دہشت گرد عناصرکے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان مسلمان ممالک کو ہی اٹھانا پڑا۔ ان میں سب سے آگے پاکستان ہے جو گزشتہ دس برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے طالبان حملوں کا مستقل ہدف بنا ہوا ہے۔ بے شمار پاکستانی ان حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، لیکن مغرب نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔
فرانس میں 132 افراد کی ہلاکت کی مسلسل کوریج دیکھتے ہوئے ہمیں بار بار16دسمبرکا سانحۂ پشاور یاد آتا رہا۔ اس سیاہ روز، تحریک طالبان کے سات دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول میں گھس کر آٹھ سے اٹھارہ سال تک کی عمرکے بیسیوں بچوںکو بے رحمی سے گولیاں مار کر یا زندہ جلا کرمار ڈالا تھا۔ یہ تمام دہشت گرد غیر ملکی تھے۔۔۔۔ایک چیچن، تین عرب اور دو افغان۔ اس المناک واقعے پر عالمی ردعمل کیا تھا؟ بڑے بڑے امریکی چینلوں نے اس کا سرسری طور پر ذکرکیا اور دوسری خبروںکی جانب بڑھ گئے۔ سب سے زیادہ مایوس کن جنوری میں صدر اوباما کا سٹیٹ آف دی یونین خطاب تھا، جس میں انہوں نے دہشت گردی کے بارے میں صرف ایک جملہ بولا تھا۔ ہم بڑی امیدوں کے ساتھ ان کا وہ خطاب سننے بیٹھے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ پاکستان میں رونما ہونے والے اس بد ترین المیے کا ذکر کچھ تفصیل سے کریں گے، لیکن پشاورکے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی عوام کے لیے ہمدردی یا جذبا ت کا اظہار نہ کیا۔ اس بد ترین سانحے میں جن والدین ، بھائی بہنوں، رشتے داروں اور دوستوں نے اپنے پیارے کھوئے، ان کی تکلیف کا تصور تو کیجیے۔ چند دن بعد دہشت گردوں کے ہاتھوں ان کے پیاروںکے بے رحمانہ قتل کی برسی ہونے والی ہے۔کیا دنیا انہیں یاد کرے گی؟ نہیں! کیا صدر اوباما اس بار جب جنوری میں پھر کانگرس سے خطاب کریں گے توکیا وہ پشاور کے شہید بچوںکو نام بنام یاد کریںگے؟ یقیناً نہیں! اس رویے سے ہم اسی نتیجے پہ پہنچے کہ بعض زندگیاں دوسری زندگیوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔
صرف ایک صحافی خاتون نے اس جانب اشارہ کرنے کی جرأت کی کہ پیرس حملوں اور دنیا میں کسی دوسری جگہ ہونے والے حملوں کے حوالے سے یورپ اور امریکہ کا ردعمل مختلف رہا ہے۔ ان کا نام ایرن بیکر ہے اور وہ افریقہ کے لیے TIME کی نمائندہ ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان میں بھی اسی جریدے کی نمائندہ رہ چکی ہیں۔ ٹائم میگزین میں "Beirut wonders if some terror attacks mean more than others" کے عنوان سے ان کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہی چشم کشا ہے۔ مضمون کے آغاز میں انہوں نے لکھا کہ پیرس حملوں سے ایک روز قبل بیروت میں داعش کے حملے میں چالیس افراد ہلاک ہوئے، لیکن لبنان کے ان ہلاک شدگان کو وہ توجہ نہیں دی گئی جو پیرس کے حملوں کا شکار ہونے والوں کو ملی ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ''میں ریاضی دان نہیں، لیکن جب میں 2000ء کے عشرے کے وسط میں پاکستان اور افغانستان میں اپنے میگزین کی نمائندگی کر رہی تھی تو وہاں ہونے والے بے شمار دہشت گردانہ حملوں کی اہمیت کا تعین کرنے کے لیے میں نے عدد شماری کا اپنا ایک نظام وضع کر لیا تھا۔ میں اسے طالبانی حساب کہا کرتی تھی۔ اگر خود کش حملہ کسی بازار، کسی دارالحکومت یا سکول میں کیا جاتا تو یہ ایک عالمی خبر ہوتی۔ اگلے حملے کی اہمیت تب ہوتی اگر اس میں ضائع ہونے والی جانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔ اپنے لیے ایک شرح کا تعین کرنے کی ہم نے کوشش کی تھی کہ کتنے پاکستانی یا افغان ہلاک ہوں تو اس خبرکی اتنی اہمیت ہوگی جتنی ایک امریکی کی ہلاکت کی ہوتی ہے‘‘۔ ایرین بیکر 1990ء کی دہائی کے آخر میں پیرس اور2010 ء تا 2014ء بیروت میں مقیم رہیں۔گزشتہ ہفتے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ 12نومبر کو بیروت میں ہونے والے بم دھماکوں میں 43 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ یہ ایک اہم خبر تھی۔ بیروت میں 1990ء میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ہونے والا یہ ایک بد ترین سانحہ تھا؛ تاہم جغرافیائی سیاست آڑے آ گئی۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن چونکہ یہ حملہ ایک ایسے علاقے میں ہوا جو حزب اللہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے اور حزب اللہ ایران کی حمایت کے ساتھ شام میں صدر بشار الاسد کی جانب سے لڑ رہی ہے، اس لیے اس المناک سانحے کو تفصیلی عالمی کوریج کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ میڈیا نے اس کے نتائج اورمتاثرہ خاندانوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ایرین بیکر لکھتی ہیں کہ یہ ایک ایسی فروگذاشت ہے جس کے باعث ایسے واقعے کا اعادہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔
پیرس حملوں کے متاثرین کے نام لیے جا چکے ہیں، ان کے مختصر حالاتِ زندگی یوں بتائے جا رہے ہیںکہ اس حملے کی نوعیت نجی معلوم ہو رہی ہے۔ ایک دن کی دوری پر ہونے ہونے والے ان دو حملوں کی ذمہ داری ایک ہی دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے، لیکن ان کی کوریج میں جو عدم توازن سامنے آیا اس کے بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ فیس بک نے بھی بیروت حملے کے حوالے سے عدم حساسیت کا اظہار کیا اور پیرس حملے کے بعد ایک سیفٹی چیک متعارف کرایا جس کے ذریعے فیس بک استعمال کرنے والے، اس طرح کے المیے رونما ہونے پر اپنی اور دوسروں کی سلامتی کا اظہارکر سکتے ہیں۔ ٹوئٹر پر البتہ بجا طور پر مغرب کے تعصب اور نسل پرستی پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ @ktbradfordکے ہینڈل سے یہ ٹویٹ کی گئی کہ عزیز فیس بک، فرانسیسی پرچم کی نمائش بہت اچھی لگ رہی ہے لیکن بیروت کے لوگوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے میں اپنی پروفائل تصویرکیسے بدلوں؟
پاکستان میں جب دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں تب بھی جغرافیائی سیاست متحرک ہو جاتی ہے۔ بے گناہ پاکستانی جانیں گنواتے ہیں تو بھارت ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کر کے الزام لگاتا ہے کہ یہ دہشت گردوںکی پشت پناہی کر رہی ہے۔ یہ بہت پیچیدہ بات ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر آئی ایس آئی کا طالبان کے بعض گروہوں کے ساتھ ایک نامناسب اتحاد رہا اور ماضی میں انہیں پروان چڑھانے میں بھی اس نے ایک کردار ادا کیا؛ تاہم آج آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم معلوم ہوتے ہیں۔ عالمی میڈیا کو انہیں سراہنا چاہئے۔ یہ محض ہماری خوش خیالی ہے کہ امریکہ اور یورپ کبھی قائل ہو سکیں گے کہ پاکستان جہاد یوں کے ساتھ جنگ میں سنجیدہ ہے۔ شاید ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان میں انسانی زندگیوں کے ضیاع پر عالمی ردعمل اور عالمی میڈیا میں ابھرنے والے پیغام سے ہمیشہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کچھ زندگیاں باقی زندگیوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ جب تک یہ تسلیم نہیں کر لیا جاتا کہ داعش، القاعدہ اور طالبان کی جانب سے کسی بھی ملک میں کیا گیا حملہ سبھی پر حملے کے مترادف ہے تو دہشت گردی سبھی کا مسئلہ رہے گا، ایک مستقل اور لا ینحل مسئلہ!