پیرس اور پشاور کا تقابل

سولہ دسمبر نزدیک ہے۔ گزشتہ برس اسی روز پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ایک سو اکتالیس بے گناہ بچوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سال اگر یہ دن یونہی گزر گیا اور دنیا نے اس دردناک واقعے کو کوئی توجہ نہ دی تو پورے پاکستان کو ایک ساتھ اُٹھ کر اس دکھ میں اپنی یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ پیرس کے سانحے کو تین ہفتے ہو گئے ہیں۔ یورپ اور امریکہ والے ابھی تک اس سانحے میں ہلاک ہونے والے ایک سو تیس افراد کا سوگ منا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں نے اپنا عملہ بھجوا کر مسلسل دس دن اس سانحے سے متعلق پرانی خبروں تک کی تشہیر کی۔ اگر تقابل کیا جائے تو سانحۂ پشاور کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ صدر اوباما ہی کو دیکھیے، پیرس کے اورلی ایئرپورٹ پہ اتر کے وہ جاں بحق ہونے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے سیدھے بیٹاکلان نامی اس کنسرٹ ہال گئے‘ جہاں تین ہفتے قبل متعدد افراد دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے؛ تاہم ماہِ جنوری میں جب سانحۂ پشاور کو ابھی چند ہی روز بیتے تھے، صدر اوباما کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کرنے گئے‘ تو اس میں انہوں نے ہمارے اس سانحے کا محض سرسر ی سا حوالہ دیا تھا۔
پیرس سانحہ اب ایک انتہائی الگ مفہوم اختیار کر چکا ہے۔ جیرائیڈ او کولمین نامی ایک غیر وابستہ تجزیہ نگار نے اس بارے میں رشین ٹیلی ویژن کے ایک رپورٹر کے ساتھ گفتگو کی، ان کا کہنا تھاکہ ''داعش کوئی چیز نہیں۔ یہ امریکہ کی اپنی تخلیق ہے۔ یہ بات ہم امریکی فوج کے سرکاری ذرائع اور ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے حوالے سے بخوبی جانتے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق فرانس ''انتہا پسندوں‘‘ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے اسے مزید شدت اس لیے دی جا رہی ہے کہ فرانسیسی عوام مسلمانوں سے خائف ہو جائیں۔ کولمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے چار برسوں سے امریکہ اور نیٹو نے شامی آبادی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے‘ اور اب اسے ایک عالمی جنگ کی شکل دی جا رہی ہے تاکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو منقسم کر کے مفتوح بنا لیا جائے‘ اور پھر وہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کے غلام بن جائیں۔ شام اور ایران جیسے ممالک‘ جو امریکی اور اسرائیلی تسلط کی مزاحمت کرتے ہیں‘ پر انہی کے گماشتہ گروہوں کی طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ ان گروہوں کو مالی معاونت اور تربیت انہی دونوں ممالک یعنی امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اور خاص طور پر یوٹیوب پر کولمین کے انٹرویو پر بہت تبصرے ہو رہے ہیں۔ کولمین ایک غیر معروف صحافی ہیں لیکن جو لوگ ان کی باتوں کو سچ مان رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''اس ویڈیو کے دس منٹ کے دورانیے میںہم نے اتنا کچھ جان لیا ہے جتنا ہم امریکہ میں دس برس تک فیک نیوز(فاکس نیوز) دیکھنے کے بعد بھی نہیں جان پائے تھے۔ رشین ٹی وی دیکھنے کے بعد لگ رہا ہے کہ ہماری خبریں جھوٹ کے پلندوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ویڈیو آپ کو ضرور دیکھنی چاہیے اور دوسروں کو بھی دکھانی چاہیے۔ محض دس منٹ میں کولمین نے ثابت کر دیا ہے کہ فرانس شامی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہے اور افریقہ و مشرقِ وسطیٰ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت بھی کر رہا ہے‘‘۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کولمین کی ساکھ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''خود سے یہ سوال کیجیے کہ یہ نام نہاد صحافی اور لکھاری ہے کون؟ ہم نے ان کے بارے میں تحقیق کی کوشش کی لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں، کوئی شائع شدہ مواد نہیں، کوئی بائیو ڈیٹا تک نہیں۔ نجانے روسیوں کو یہ آدمی کہاں سے مل گیا ہے‘‘۔ یہ ایک شخص کے پیغام کا اقتباس ہے جس کا بہ اصرار یہی کہنا ہے کہ کولمین در حقیقت روسی پروپیگنڈے میں ایک پُرزے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔
دہشت گرد جب بھی حملہ کرتے ہیں سازشی نظریات کا گردش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ سانحۂ پشاور کے سلسلے میں بھی یہی ہوا تھا اور چند حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں اٹھی تھیں کہ یہ حملہ خود ہماری سکیورٹی ایجنسیوں نے کروایا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ اسلام آباد میں مقیم ہمارے ایک جاننے والے نے پورے وثوق سے ہمیں بتایا تھا کہ اسے ایک باخبر آدمی نے سانحہ پشاور سے پہلے بتا دیا تھا کہ پختونخوا میں کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے۔ ہمارے جاننے والے نے اس شخص سے پوچھا بھی کہ اسے یہ کیسے معلوم ہوا؟ جواب میں وہ خاموش ہی رہا ؛ تاہم اتنا اشارہ اس نے ضرور دیا کہ پاکستان میں کام کرنے والی جاسوس ایجنسیوں کے ساتھ اس کے رابطے ہیں۔ ذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ سارا بھارتی پروپیگنڈا ہے جو ہر دہشت گردانہ کارروائی کے بعد پاکستان میں در آتا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں عوام میں ایسی افواہیں پھیلانے کے لیے اپنے کارندوں کو متحرک کر دیتی ہیں۔ روسی اور مغربی پروپیگنڈا مشینیں بھی اسی طرح اس وقت زوروں پہ ہیں۔ ایک بلاگر نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ ''ہمیںلازماً خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا نیٹو ممالک میں بھی مین سٹریم کے ایسے میڈیائی ادارے اور رپورٹر نہیں جو اپنی اپنی حکومتوں کی کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کرتے ہیں؟ غیر جانب داری عموماً یہاں معدوم ہی ہے۔ دوسری طرف تاریخ اور ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات بھی یہی ظاہر کرتی ہیں کہ ایران، کیوبا، انڈونیشیا اور ویت نام جیسے ممالک میں متعدد بار سی آئی اے بری نیت کے ساتھ ملوث پائی گئی۔ باغیوں کی مالی معاونت، حکومتوں کا الٹایا جانا، دہشت کا فروغ، ضرورت پڑنے پر بیرونی مداخلت، تباہی، قتل و غارت اور کارپوریٹ تعلقات کے استحکام جیسے جنگی حربے جب بنیادی طور پر ایک جیسے ہی ہوں تو خود اپنی حکومت سے اتفاق کرنا یا آنکھیں بند کر کے اس پہ یقین کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔ ایک اور بلاگر نے لکھا ہے کہ اسے شدید غم اس بات کا ہے کہ ''یمن میں سات ہزار سے زائد مردو زن کو قتل کیا گیاہے۔ صہیونیت پرست اسرائیلی ہر رو ز بے گناہ فلسطینیوں کو مار رہے ہیں۔ شام اور عراق میں عیسائی اور مسلمان مرد و زن اور بچوں تک کے سر قلم کیے جا رہے ہیں، انہیں مصلوب کیا جا رہاہے، جلایا جا رہا ہے، گولیاں ماری جا رہی ہیں، ان کی عصمت دری ہو رہی ہے لیکن میڈیا یہ باتیں چھپا رہا ہے‘‘۔ یو ٹیوب پر کئی لوگوں کا خیال یہ ہے کہ داعش صہیونیوں اور دیگر شیطانی حکومتوں کی تخلیق کردہ ہے۔ ''کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ داعش نامی اس گروہ کا کوئی مذہب بھی ہے؟ یقیناً نہیں! یہ وہ شیطان ہیں، جو صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو مار رہے ہیں، یہودیوں کو نہیں! گیارہ ستمبر کے واقعے میں ہی دیکھ لیں کہ کتنے یہودی مرے تھے؟ صرف ایک؛ حالانکہ ہزاروں یہودی نیویارک میں کام کرتے ہیں۔ ویسے ڈونالڈ ٹرمپ نامی وہ بڑبولا، جو ہوسکتا ہے کہ اگلا امریکی صدر بنے‘ کہتا ہے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے نیو جرسی میں سینکڑوں مسلمانوں کو گیارہ ستمبر کے سانحے پر جشن مناتے دیکھا تھا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک جھوٹا شخص ہے۔ ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت دنیا ایک نہایت غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ برِ اعظم امریکہ سے لے کر یورپ کی سرحدوں تک جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ سلگائی جا رہی ہیے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ آگ بجھے گی کب؟
سولہ دسمبر کو پشاور میں جن معصوموں کو ہم نے کھویا‘ ان کی تعظیم کے لیے پورے پاکستان کو متحد ہو جانا چاہیے۔ آئیے ان والدین، ان بھائیوں بہنوں اور رشتہ داروں کے لیے دعا کریں جن کے پیارے دہشت گردوں کے ہاتھوں بے رحمی سے چھینے گئے۔ اس سال ان کے زخم اپنے پیاروں کی پہلی برسی مناتے ہوئے ایک بار پھر تازہ ہو جائیں گے۔ کیا بیرونی دنیا اس بار انہیں یاد کرے گی؟ نہیں! کیا اس بار ماہِ جنوری میں امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما پشاور کے سانحے کو یاد کریں گے؟ یقیناً نہیں، لیکن پیرس کے حملوں کا ذکر وہ ضرور کریں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں