ـــ’’شیدا‘‘ برگر اور ــ’’جمالی ‘‘چائے

کیا آپ جانتے ہیں کہ نیویارک میں ''کشمیر‘‘ نامی ایک ریستوران ہوا کرتا تھا جہاں فروخت ہونے والی اشیائے خورونوش کے نام ان پاکستانی سیاستدانوں کے ناموں پہ رکھے گئے تھے جو اپنی قسمت چمکنے اور اپنے ملک میں اعلیٰ عہدوں پہ متمکن ہونے سے قبل کبھی اس ریستوران کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے وہاں جا چکے تھے۔ یہ کہانی اگرچہ پرانی ہے اور اس ریستوران کا مالک ریستوران فروخت کر کے جا چکا ہے لیکن قارئین کے لئے یہ پھر بھی محظوظ کن رہے گی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو اور ایسے میں تصور ایک سرد اور غیر دوستانہ ماحول میں پیش کئے جانے والے گائے یا مچھلی کے گوشت کے برگروں اور ان کے ساتھ تلے ہوئے پیاز اور آلوئوں کے قتلوں کا ابھرے تو انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ ذرا سی محنت کر کے پیٹ بھرنے کے لئے کوئی دیسی جگہ ڈھونڈ نکالے۔آپ یقین نہیں کریں گے کہ ایسا کرنے پہ آپ کو کیا مل سکتا ہے۔ جی ہاں، شیدا برگر! اس برگر کا یہ نام شیخ رشید کے نام پہ رکھا گیا تھااور یہ اس وقت سے بھی بہت پہلے کی بات ہے جب وہ میاں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں وزیر اطلاعات بنے تھے۔تاہم ، اسی پہ بس نہیں! اس ریستوران کے مالک شاہین بٹ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ظفر اللہ خان جمالی بھی ، جو بعد میں وزیر اعظم بھی بنے،ان کے ریستوران آ چکے ہیںاور جو چائے انہوں نے جمالی صاحب کو پیش کی تھی وہ انہیں بے حد پسند آئی تھی چنانچہ اس چائے کا نام ریستوران کے مالک نے فی الفور جمالی چائے رکھ دیا تھا۔شاہین بٹ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن یہ دونوں افراد وی وی آئی پی شخصیات میں شمار ہوں گے۔کس قدر عجیب اتفاق ہے! شاہین بٹ نواز شریف کے دوست اور معتقد ہیں۔کوئی بیس برس قبل انہوں نے اپنے ریستوران کا آغاز کیا تھا۔یہ ریستوران مین ہیٹن میں ویسٹ سائیڈ کی مصروف ترین 42nd سٹریٹ پہ واقع ہے۔ شاہین بٹ کہتے ہیں کہ ویسٹ سائیڈ میں یہ واحد پاکستانی ریستوران ہے اس لئے یہاں پاکستانی بڑی تعداد میں آتے ہیں۔سنہرے اور ہرے رنگ کے سائبان پہ لکھے '' کشمیر ریسٹورنٹ‘‘ کے الفاظ دیکھ کر ہمارے قدم اس کی طرف کھنچتے چلے گئے۔یہ ہمارے لئے پاکستان کے ہی ایک ٹکڑے کی ایک خوشگوار دریافت تھی۔ایک مسکراتے ہوئے پاکستانی چہرے کو گرما گرم سموسے پیش کرتے ہوئے دیکھ کردل بھی گرما گیا اور سردی دور ہو گئی۔ چاروں طرف لگے شیشوں میں دکھائی دینے والے قمقموں سے سجے ڈائننگ ایریا میں ستار اور طبلے کی دھن نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں قدرے گہما گہمی تھی۔کفیل اعوان نامی ستار نواز ستار بجا رہے تھے۔ان کے شانوں کے گرد شال لپٹی ہوئی تھی اور ان کے قدرے لمبے بال موسیقی کی دھن کے ساتھ تھرکتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔قریب ہی ایک میز پر دو امریکی بیٹھے ستار کی دھن سے مسحور ہو کر اپنا سر دھن رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں یہ دھن اس قدر پسند آئی ہے کہ وہ پورا دن بیٹھ کر اسے سن سکتے ہیں۔ دو برس قبل ایک امریکی خاتون جج کفیل کے ستار بجانے کے فن سے اس قدر متاثر ہوئی تھی کہ اس نےINS(امیگریشن اینڈ نیچرلائزیشن سروس) کو سفارش کی کہ اسے غیر معمولی صلاحیت کے حامل غیر ملکی فردکی کیٹگری میں گرین کارڈ دے دیا جائے۔کفیل اعوان کا تعلق پشاور سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مستقل امریکی شہری بن کر وہ بہت خوش ہیں ۔بقول ان کے پاکستان میں ان کا ٹیلنٹ مار دیا گیا تھا، پی ٹی وی نے بھی انہیں نظر انداز کر دیا تھا لیکن یہاں ان کے فن کو سراہا جا رہا ہے۔ شاہین بٹ بھی ان کے بہت بڑے مددگار ہیں۔ پچھلے ہی ہفتے انہوں نے کفیل اعوان کو ایک ہزار ڈالر مالیت کا ستار خرید کر دیا ہے۔کشمیر ریسٹورنٹ آنے سے قبل اس کی شہرت بھی ہم نے کافی سن رکھی تھی۔ کمیونٹی میں سرگرم رہنے والے چند ایک پاکستانی امریکیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہاں کافی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں۔ ایک نوجوان ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے سب یہیں جمع ہوتے ہیں، شاہین صاحب بے حد مہربان اور مہمان نواز آدمی ہیں۔ان کے دفتر کی دیواروں پر آویزاں تصویروں میں وہ نواز شریف کے ہمراہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے پوچھنے پہ انیسہ بٹ نے ہمیں بتایا کہ ان کی شریف خاندان کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں لیکن میاں صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ ان کی بڑی اچھی دوستی ضرور ہے۔انیسہ بٹ بھی کشمیری ہیں اور ان کے پوتے پوتیاں بھی ہیں لیکن ان کی رنگت بے داغ ہے اوران کے بدن کی ساخت بھی متاثر کن ہے۔کشمیری دوشیزائوں کی طرح ان کی آنکھیں بھی شفاف جھیلیں معلوم ہوتی ہیں۔ شاہین بٹ نے بتایا کہ ''ابا جی‘‘ کی طرح ان کے والد بھی برانڈرتھ روڈ پر لوہے کا کاروبار کرتے تھے۔انیسہ نے بتایا کہ ان کا خاندان بائیس برس پہلے لاہور سے امریکہ منتقل ہوا تھا۔ ان کی تصویریں دیکھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کئی بار نیو جرسی کے اپنے مکان پرشریف خاندان کی میزبانی کر چکی ہیں۔انیس سو پچاسی میں جب کشمیر ریسٹورنٹ شروع کیا گیا تو پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے اس کی مثال گھر کی سی بن گئی تھی۔ پورٹ اتھارٹی ٹرمینل بھی اس کے قریب ہی واقع ہے اس لئے پاکستان سے آنے والے اور پاکستان جانے والوں کے لئے بھی اس ریستوران کی حیثیت ایک انتظار گاہ جیسی تھی جہاں وہ سامان سمیت بیٹھے اپنے دوستوں یا رشتے داروں کی آمد کا انتظار کرتے۔کشمیر کمیٹی کے کارکن کے طور پر شاہین بٹ نے کئی عشروں تک پاکستان پریڈ او ر میلے کے انتظام اور اس کے لئے حمایت کے حصول کی کوششیں کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کاز کے حوالے سے وہ شدید جذباتی ہیں۔وہ فوج میں کپتان بھی رہے ہیں لیکن انیس سو اکہتر میں جب بھٹو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو بطورِ احتجاج انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بقول ان کے ہم ایک قومی بحران سے گزر رہے تھے اور فوج کی جانب سے بھٹو کو مداخلت کی اجازت نہیں ملنی چاہئے تھی۔ شاہین بٹ کی صحت جواب دیتی جا رہی ہے، ان کے گردے کا ٹرانسپلانٹ متوقع ہے۔ چوبیس سالہ سمیر ا ذوالفقار ، جو معاشیات میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں ، دو سال سے ریستوران سنبھالنے میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور اپنے والدین کے ہمراہ وہ بروکلین میں رہتی ہیں۔ انہیں پاکستان بے حد یاد آتا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں انہیں کام کرنے کے مواقع دستیاب ہیں جو انہیں وطن میں نہیں ملتے۔ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود انہیں کوئی ملازمت نہیں ملی تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی، صرف اپنے ذاتی کوائف ہی تھے۔ تاہم ان کا ارادہ یہ ہے کہ وہ شادی کر کے پاکستان میں ہی آباد ہوں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ مستقلاً امریکہ میں آباد نہیں ہوں گی کیونکہ یہاں وہ ہمیشہ دوسرے درجے کی شہری رہیں گی اور انہیں اپنا آپ اجنبی محسوس ہوگا۔ سمیرا ابھی تک کسی ایسے پاکستانی نوجوان سے نہیں ملی ہیں جس کے ساتھ شادی کا وہ سوچ سکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر لڑکے یہاں غیر تعلیم یافتہ ہیں یا پھر غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سمیرا کو چھیڑنے سے کبھی باز بھی نہیں آتے، تاہم سمیرا ان سے نمٹنا بخوبی جانتی ہے۔
بہرحال،اگروزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے اگلی بار نیویارک کا دورہ کیا تو یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنی پسندیدہ دودھ پتی یعنی جمالی چائے نوش کرتے پائے جائیں گے یا شیخ رشید صاحب بھی اگر تشریف لائے تو''شیدا‘‘ برگر کے مزے یہیں آکر لُوٹیں گے اور اسے شہر کا بہترین برگر قرار دیں گے۔یہ ان کہانیوں کا ایک سلسلہ ہے جسے ہم '' دورِ حیات‘‘ کا نام دیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں