فوری عمل کرنے والے لیڈروں کی ضرورت

ہمارے بعض دوست صدر اوباما سے ناراض ہیں۔ پچھلے ہفتے جب کراچی میں ہماری ان دوستوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہے تھے کہ اپنے آخری سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں صدر اوباما کو آخر یہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ پاکستان اگلے بیس برس تک دہشت گردی سے نبرد آزما رہے گا۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری اکثریت اپنی آنکھوں پر حکمرانوں کی بندھی پٹی ہی پسند کرتی ہے۔ ہم یہ تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں کہ اس وقت ہماری ان کے ساتھ جنگ جاری ہے جو ہمیں تباہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری ہی سرزمین پر پروان چڑھے ہیں، یہیں گھومتے پھرتے ہیں اور جہاں اور جب ان کا دل کرتا ہے وار کر دیتے ہیں۔ ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بے گناہ پاکستانی طلبہ پر دو بار حملہ ہوا۔ بدھ کے روز چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے میں بیس افراد شہید ہوئے جن میں طلبہ، گارڈز اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ایک پروفیسر بھی شامل تھے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں بڑے سپاٹ لہجے میں بتایا کہ ایسے حملے ہوتے رہیں گے، صوبے میں ان کی حکومت ان حملوں کو روک نہیں سکتی۔ یہ ان کی جانب سے نہایت عجیب رد عمل تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بے بس ہے اور جب بھی ایسا خوفناک واقعہ ہو جس میں معصوم جانیں ضائع ہو جائیں تو اس کے لیے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ 
سوال یہ ہے کہ فوج کیوں بے بس ثابت ہو رہی ہے؟ اس قدر وسائل اس کے پاس ہیں اور آرمی چیف بھی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردانہ حملے بدستور باقاعدگی سے جاری ہیں۔ کیا اس کا الزام ہم جنرل راحیل شریف کے پیش رو جنرل کیانی کو دے سکتے ہیں؟ پچھلے برس سابق ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 2010ء میں ملک کی فوجی قیادت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کی حامی تھی، لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کی کم حوصلگی کی بدولت کوئی اقدام نہیں ہو سکا تھا۔ انہوں نے کہا: ''شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے حوالے سے وہ متردد تھے اور اس بابت فیصلے میں وہ تاخیر کر رہے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسے ان کا ذاتی فیصلہ سمجھا جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ اس فیصلے میں تاخیر کرتے رہے اوراس کا ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا‘‘۔ جنرل اطہر عباس نے یہ بھی کہا کہ ان کے فیصلے کی قوت کی کمی کی بدولت بہت وقت ضائع ہوا اور ملک، عوام، حکومت اور مسلح افواج کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ان کہا کہنا تھا: ''اس تاخیر سے انتہاپسندوں کو مزید قوت ملی۔ وہ تعداد میں بھی بڑھے اور وسائل بھی ان کے زیادہ ہوئے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے رابطے اب زیادہ بہتر ہیں اور میری رائے میں اب حالات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ فوجی کمانڈروں کی رائے یہ تھی کہ ایک بڑے فوجی آپریشن کے بغیر ملک میں امن بحال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تمام عسکریت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے‘‘۔ ہمارے سقراط پارلیمنٹ ہائوس، وزیر اعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کو اپنے تئیں طالبان کے حملوں سے محفوظ بنا کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن درحقیقت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضرورت بڑی اور اجتماعی سوچ کی ہے۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو ان کی موت کا پروانہ تھما دیا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہر ہفتے میں دو بار تحریک طالبان کی جانب سے ہم پر حملہ ہوا کرے گا۔ حکیم اللہ محسود کے کہنا تھا کہ یہی ہماری سزا ہے اور اس کی وجہ امریکی ڈرون حملے تھے۔ زرداری صاحب نے جواباً واحد متکلم صیغے میں فرمان جاری کیا 
کہ ''میں طالبان کو جیتنے نہیں دوں گا‘‘۔ ایسے تکلیف دہ دور میں ان کی یہ ''میں، میں‘‘ سماعت پر قطعاً خوشگوار نہیں گزرتی تھی۔ ان کے پیش رو یعنی جنرل مشرف بھی انہی کی طرح صرف خود کو ہی محفوظ کرتے رہے؛ چنانچہ کوئی خود کش بمبار کبھی ان تک پہنچ نہیں سکتا تھا۔ جہاں تک باقی سب عوام کا تعلق تھا تو وہ بھاڑ میں جائیں۔ انہوں نے تو بے نظیر بھٹو کو بھی غیر محفوظ چھوڑ کر مرنے دیا تھا۔ ڈیزائنر ملبوسات اور ان کے ساتھ ہم رنگ ٹائیاں اور رومال زیب تن کرنے والے یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے اپنے وزیروں کے جتھے کو یکجا ہو کر دہشت گردی سے نمٹنے کا طریقہ وضع کرنے کا کام سونپا تھا۔ اس جتھے میں وزیر دفاع احمد مختار بھی شامل تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ڈرون یہاں کارروائی تو کرتے ہیں لیکن پرواز پاکستان کی سرزمین سے نہیں کرتے۔ ان کے علاوہ وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ، مشیر داخلہ رحمان ملک، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز، پولیس چیفس اور آئی بی اور ایف آئی اے کے سربراہان بھی اس جتھے کا حصہ تھے۔ قومی سلامتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے بقراطوں کو حل یہ سوجھا کہ خود کش بمباروں سے بچنے کے لیے بیس ہزار نفری پہ مشتمل ایک سپیشل فورس تشکیل دی جائے۔ 
رحمان ملک صاحب سے ہم پوچھنا چاہیں گے کہ یہ فورس اب کہاں ہے؟ آپ کا واحد ایجنڈا تو صرف اپنے باس آصف زرداری کا بچائو کرنا تھا۔ موجودہ وزیر داخلہ بھی ان سے کچھ کم نہیں۔ باتیں وہ بہت کرتے ہیں لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کرتے۔ اگر وہ اپنے وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہائوس میں ایک وار روم بنانے کا مشورہ دیتے جو انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین کے لیے ہمہ وقت کھلا رہتا تو وزارت داخلہ کا قلمدان پانے کے بعد ان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی سے نمٹنا ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں علم ہے کہ اگر ہم نے یہ تجویز دینے کی جرأت کی کہ خودکش بمباروں سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی فارمولا اپنانا چاہیے تو آپ میں سے اکثر لوگ چیخ اٹھیں گے۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین ہتھیار اور اعلیٰ ترین انٹیلی جنس نظام موجود ہے، لیکن اپنے لوگوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انہوں نے پیشہ وروں جیسی تربیت دی ہے۔ رحمان ملک صاحب نے جس سپیشل فورس کا وعدہ کیا تھا کیا اسے ایسی تربیت نہیں دی جا سکتی؟ نواز شریف حکومت دہشت گردی کا مقابلہ تنِ تنہا نہیں کر سکتی۔ جنرل راحیل شریف کو بھی جی ایچ کیو میں انسداد دہشت گردی کے ماہرین پر مشتمل ایک وار روم بنانا ہو گا جو ان کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہیے۔ یقیناً فوج آن گرائونڈ اور سائبر سپیس میں بھی انٹیلی جینس معلومات جمع کرنے کا ایک نظام وضع کر چکی ہے اور اس نظام کو ان کے ایسے اہلکاروں کی معاونت بھی حاصل ہے جو جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ان کے اپنے کھیل میں کس طرح شکست دی جا سکتی ہے، لیکن ہسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت اور شہیدوں کے لیے یوم سوگ کا اعلان کرنا کافی نہیں، جب تک ہمارے لیڈر اس خطرے سے ہوشیار نہیں ہو جاتے پاکستان میں یہ شیطان اپنا یہ شیطانی کھیل رچاتے رہیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں