آٹھ برس قبل یکم جنوری 2008ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں "The Future Pakistan Deserves" (یعنی وہ مستقبل جس کا پاکستان مستحق ہے) کے عنوان سے میاں محمد نواز شریف صاحب کا ایک مضمون چھپا تھا۔ میاں صاحب کی جماعت اس زمانے میں حزبِ اختلاف کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ اس کے چار پانچ برس بعد جب عام انتخابات ہوئے تو نون لیگ فاتح قرار پائی اور یوں میاں صاحب تیسری بار پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پہ متمکن ہوئے۔ پارلیمان میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو آگے لے کر جائیں گے‘ لیکن ایسا کہنے سے قبل وہ اپنی کلائی کی گھڑی اتارنا بھول گئے تھے۔ ان کی یہ گھڑی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس گھڑی کی نشاندہی سب سے پہلے پی پی پی کی رکنِ اسمبلی شازیہ مری نے کی تھی۔ انہوں نے ایوان میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ایک ایسی جماعت سے کوئی کیا امید رکھ سکتا ہے‘ جس کے قائدین اور خاص طور پر صنعتکار قائدین ایسی بیش قدر چیزوں کا استعمال کرتے ہوں۔ اس گھڑی کی قیمت اس وقت چھیالیس لاکھ روپے تھی۔
واشنگٹن پوسٹ میں چھپے اس مضمون میں، جو میاں صاحب نے نجانے خود لکھا تھا یا پھر کسی سے لکھوایا تھا‘ یہ بات کہی گئی تھی کہ ''میرے ملک میں کوئی قانون موجود نہیں اور امن و امان بھی قطعی مفقود ہے‘‘۔ اب جبکہ میاں صاحب خود وزیر اعظم ہیں تو یہی سوال ان کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے انہوں نے تمام تر ذمہ داری جنرل مشرف کے سر ڈالی تھی۔ میاں صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ ایک فردِ واحد یعنی پرویز مشرف کے متعدد ناقابلِ معافی اقدامات کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے بگڑے حالات کے لئے بھی انہوں نے کلیتاً مشرف کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ پچھلے آٹھ برسوں میں مشرف نے عدلیہ کو بے
دست و پا کر کے، آئین کو پامال کر کے اور میڈیا پہ پابندیاں عائد کر کے اپنا تمام تر وقت اور توانائیاں ریاستی اداروں کو تباہ کرنے میں صرف کیں۔ میاں صاحب نے لکھا تھا: ''یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے‘‘۔ ہم وزیر اعظم صاحب سے پوچھنا چاہیں گے کہ آیا ان کے اس تیسرے دور میں ہم انہی حالات کا اعادہ ملاحظہ نہیں کر رہے؟ وہ دہشت گردی سے نمٹنے میں بہرحال ناکام رہے ہیں۔ آٹھ سال پہلے انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ پاکستان میں چونکہ تاریکی کی قوتوں اور مطلق العنانیت کا راج ہے اس لئے معاشرے میں وسیع پیمانے پہ مایوسی چھائی ہوئی ہے، اور مخالفوں کو قائل کرنے کی بجائے انہیں قتل کرنا زیادہ سہل ہے۔ اس پہ ہمارا سوال وزیر اعظم صاحب سے یہ ہے کہ پی آئی اے کے ان دو اہلکاروں کے بارے میں وہ کیا کہیں گے جنہیں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ کیا خود ان کی حکومت نے بھی قائل کرنے کی بجائے قتل کرنا زیادہ سہل نہیں سمجھا؟ پی پی پی کے ساتھ وہ دوستی کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ وہی پی پی پی ہے جس کے چیئرمین آصف علی زرداری کئی مہینوں سے دبئی میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ اور میاں صاحب پہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ان کی جماعت کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنے مضمون میں فروری 2005ء میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوئی اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا اور لکھا تھا کہ کس طرح سعودی عرب میں ان کی جلاوطنی کے زمانے میں وہ ان سے ملنے جدہ آئی تھیں۔ بقول میاں صاحب وہ اور محترمہ اس نتیجے پہ پہنچے تھے کہ ان دونوں کی جدوجہد کا مقصد ایک ہی ہے یعنی جمہوریت، اور یہ کہ محترمہ بھی قانون اور عوام کی بالادستی پہ یقین رکھتی تھیں۔ میاں صاحب نے یہ بھی لکھا کہ مئی 2006ء میں محترمہ کے ساتھ جس میثاقِ جمہوریت پہ انہوں نے دستخط کئے تھے اس کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام سب پہ واجب ہو گا اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنی گندی سیاست کے ذریعے اسے پامال کرے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ اور محترمہ دونوں پاکستان کو تباہی کے دہانے سے واپس لانا چاہتے تھے۔
اب جبکہ میاں صاحب وزیر اعظم ہیں اور تین برس سے اقتدار انہی کے ہاتھوں میں ہے تو ان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کس قدر پاکستان کو اس تباہی کے دہانے سے واپس لا چکے ہیں؟ اپنے مضمون کے اختتامی حصے میں میاں صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان جس گہری پاتال میں گر چکا ہے‘ وہاں سے اسے کیسے واپس لایا جا سکتا ہے۔ جواباً ان کی تجویز یہ تھی کہ سب سے پہلے تو مشرف کو فی الفور اقتدار سے الگ ہونا چاہئے کیونکہ ملکی مسائل کی بنیادی وجہ وہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایک وسیع پیمانے کی قومی حکومت کا قیام ہونا چاہئے تاکہ اس گھائل گھائل قوم کے زخموں کی کچھ جراحی کی جا سکے۔ تیسرے ملکی آئین کو اس کی اصل حالت یعنی 1973ء کے مسودے کی صورت میں بحال کر دینا چاہئے۔ عدلیہ بھی بحال ہو جانی چاہئے۔ میڈیا پر ہر قسم کی پابندی کا خاتمہ ہونا چاہئے، اور پھر آخرکار اس وسیع پیمانے کی قومی حکومت کی نگرانی میں دوستانہ اور پُرامن ماحول کے تحت غیر جانبدارانہ شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرنے چاہئیں تاکہ لوگ پارلیمان میں اپنے حقیقی نمائندے چن سکیں اور ایک ایسی حکومت قائم ہو جو کسی آمر کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہونے کی بجائے ملکی تعمیرِ نو کے لئے معتبر ٹھہرے۔
میاں صاحب کا اس وقت کہنا یہ تھا کہ یہی وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے اس ملک کو کسی حد استحکام نصیب ہو سکتا ہے لیکن اگر جنرل مشرف ہی بدستور حکمران رہے تو اس کا نتیجہ صرف مزید تباہی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس وقت تو میاں صاحب کے ارادے بڑے ہی نیک تھے لیکن آٹھ برس بعد آج بھی پاکستانیوں کو وہ سب نہیں ملا‘ جس کا وعدہ میاں صاحب نے کیا تھا۔ ان کی طرزِ حکومت بھی کسی آمریت سے کم نہیں۔ ملکی امور بدستور چند ایک رشتہ داروں اور جی حضوری کرنے والوں کے درمیان ہیں اور انہی کے ذریعے طے کئے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے اپنی طرزِ حکومت میں شفافیت نہیں اپنائی۔ لوگوں سے حقائق بھی وہ چھپاتے ہیں۔ اپنی تقریباً ہر بات میں وہ الحمدللہ اور اللہ کے فضل و کرم سے جیسے فقرے تواتر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے سچائی سے وہ کوسوں دور ہی رہتے ہیں۔عوام نے جب انہیں منتخب کیا تھا تو میاں صاحب کی کارکردگی کے حوالے سے انہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ وزیرِ خزانہ اسحق ڈار صاحب‘ جو میاں صاحب کے رشتے دار بھی ہیں‘ نے پارلیمان میں یہ بات کہی تھی کہ ان کی حکومت پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرے گی۔ اس کے باوجود حکومت نے 22 جنوری کو قومی اسمبلی میں ایک بل کے ذریعے پی آئی اے کو ایک کارپوریشن سے ایک کارپوریٹ کمپنی میں بدلنے کی اجازت دے دی۔ اس بل کے تحت حکومت پی آئی اے کے حصص کا ایک بڑا حصہ کسی سٹریٹیجک پارٹنر کے ہاتھ فروخت کرنے کی مجاز ہے۔ یہ غیر مرئی سٹریٹیجک پارٹنر ہے کون اور اس سارے معاملے میں حکمران جماعت کے چند چیدہ چیدہ لوگوں کو کس قدر مالی فوائد حاصل ہوں گے؟ یہ سب ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔ اپنے اس مضمون میں میاں نواز شریف نے یہ بھی لکھا تھا کہ دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ مشرف کی پالیسیوں نے دہشت گردی کو نہ ختم کیا ہے اور نہ کم بلکہ آج دہشت گردی مزید کئی ایک پہلوئوں کے ساتھ اور بھی بڑھ چکی ہے اور جب تک مشرف موجود ہیں دہشت گردی کے مزید بڑھتے رہنے کا اندیشہ بھی موجود رہے گا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ میاں صاحب! آپ ہمیں اپنا وہ واحد اقدام بتا دیں جو آپ نے دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے کیا ہو؟ آپ نے لکھا تھا کہ مشرف نے اس شدید خطرے سے نمٹنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے اس ضمن میں اب تک کیا کچھ کر لیا ہے؟ آپ تو باچا خان یونیورسٹی کے سانحے کے معاً بعد لندن میں اپنے آراستہ و پیراستہ اپارٹمنٹ میں استراحت فرماتے رہے۔ میاں صاحب! دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے آج ہماری قوم آپ کی نون لیگ کی حکومت پر نہیں بلکہ صر ف آرمی چیف جنرل راحیل پہ ہی اعتبار کرتی ہے۔