دو آسکر اور ایک نوبل انعام ملنے سے عورتیں بااختیار نہیں ہو جاتی ہیں۔ جی ہاں، جس دن ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی‘ اسی روز شرمین عبید چنائے نے اپنا دوسرا آسکر ایوارڈ جیتا۔ یہ ایوارڈ اس بار انہیں ان کی دستاویزی فلم "A Girl in the River: The Price of Forgiveness" پہ دیا گیا۔ تاہم اگلے ہی دن ہم نے لندن کے گارڈین اخبار میں ایک رپورٹ پڑھی جس میں سر پہ ٹوپی اوڑھے داڑھی والے نوجوانوں کا ایک جم غفیر اس ایمبولینس کے گردا گرد کھڑا دکھایا گیا تھا‘ جس میں ممتاز قادری کی لاش لے جائی جا رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں ممتاز قادری ایک قاتل اور اسی انجام کا مستحق تھا‘ لیکن لیاقت باغ میں جن ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کی‘ ان کے لئے وہ ایک شہید کا درجہ رکھتا ہے۔ شرمین چنائے کے آسکر ایوارڈ جیتنے کے اگلے ہی روز لاہور میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ وجہ؟ غیرت! قاتل کا نام محمد رحمت ہے اور اس وقت وہ مفرور ہے۔ اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کو اس نے اس لئے موت کے گھاٹ اتارا کہ مبینہ طور پر وہ اسے بتا نہیں سکی کہ پانچ گھنٹوں تک وہ کہاں رہی تھی۔ پھر تین دن بعد اسی طرح کے ایک اور واقعے میں ضلع ساہیوال کے ایک گائوں میں محمد آصف نامی ایک شخص نے اپنی بہنوں کو قتل کر دیا۔ وجہ؟ پھر وہی غیرت! اب یہ بھی ذرا سنئے، یہ محمد آصف نامی شخص پانچ سال قبل اپنی ماں کو بھی قتل کر چکا تھا‘ لیکن خاندان والوں نے اسے معاف کر دیا اور یوں یہ جیل سے چھوٹ گیا۔ اے ایف پی کے مطابق اللہ دتہ نامی ایک مقامی پولیس افسر نے بتایا کہ محمد آصف کی عمر تیس سال کے لگ بھگ ہے۔ گزشتہ شب اس نے اپنی بہنوں کو گولی مار دی کیونکہ اسے ان کے کردار پہ شبہ تھا‘ اور ان کے طرزِ زندگی پہ بھی اسے اعتراض تھا۔ اس پولیس افسر کے مطابق اس کی بہنیں موقع پہ ہی دم توڑ گئی تھیں جبکہ محمد آصف فرار ہو چکا ہے۔ ان سبھی بری خبروں کے ساتھ ساتھ ایک امید افزا خبر بھی پڑھنے کو ملی ہے۔ جس روز شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ ملا‘ اسی روز ایڈیشنل سیشن جج نوید اقبال نے غیرت کے نام پہ ہونے والے دہرے قتل کے الزام میں دو بھائیوں کو سزائے موت سنائی۔ دونوں کو دس لاکھ جرمانہ بھی کیا گیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق ذیشان اور احسن نامی ان بھائیوں نے غیرت میں آ کر 2009ء میں اپنی بہن صبا اور اس کے شوہر شفیق کو قتل کر دیا تھا۔ ان کی غیرت کا سبب یہ تھا کہ صبا اور شفیق نے اپنی مرضی سے شادی کر لی تھی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ صبا اور شفیق یکی گیٹ کے رہائشی تھے‘ لیکن انہوں نے جان کے خطرے کے پیشِ نظر وہ علاقہ بھی چھوڑ دیا تھا؛ تاہم صبا کے بھائیوں نے عیاری سے جال بچھا کر اس جوڑے کو دعوت پہ گھر بلوایا‘ لیکن انہیں کھانا کھلانے کی بجائے ان کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کیا ان قاتلوں کو پھانسی ہو جائے گی؟ اس وقت تک نہیں‘ جب تک نواز شریف صاحب کی حکومت غیرت کے نام پہ ہونے والے قتل کو قتلِ عمد نہیں ٹھہرا دیتی‘ جس کی سزا موت ہوتی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہ قاتل جو اپنی مائوں، بہنوں، بھانجیوں، بھتیجیوں یا کسی بھی خاتون رشتہ دار کے قتل کے مرتکب ہوتے ہیں‘ انہیں پھانسی نہیں ہوتی‘ کیونکہ متعلقہ قانون میں ایک سقم ہے اور وہ یہ کہ مقتول کے ورثا چونکہ قاتل کو معاف کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ایسے معاملات میں چونکہ قاتل اور مقتول ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں‘ اس لئے غیرت کے نام پہ اگر ایک شخص اٹھ کر اپنے گھر کی کسی عورت کو قتل کر دے‘ تو باقی خاندان والے اس کا خون معاف کر دیتے ہیں اور یوں قاتل آسانی سے چھوٹ جاتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں شرمین کو تبدیلی چاہئے اور وزیر اعظم نواز شریف نے بھی وعدہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پہ قتل کا یہ ناسور معاشرے سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ کیا میاں صاحب ایسی قانون سازی کی ہمت رکھتے ہیں؟ ہمیں تو یقین نہیں! سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اس ضمن میں ایک بڑا اہم تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسی عورت (یعنی شرمین عبید چنائے) کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کہ جسے امریکہ میں اعزاز سے نوازا جا چکا ہے، اس قرارداد میں ان عورتوں کا بھی ذکر ہونا چاہئے جنہوں نے سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں کھائی ہیں‘ اور جن کی جدوجہد کی بدولت غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے خلاف بل ایوان میں پیش کیا جا سکا ہے۔ رضا ربانی صاحب نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور جناب آفتاب شیخ کو ہدایت دی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف یہ بل پارلیمان کے ایک مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔ سینیٹ اس بل کی منظوری دے چکا تھا‘ لیکن چونکہ حکومت نوے دن کے عرصے میں قومی اسمبلی سے اسے منظور نہیں کرا سکی اس لئے یہ مؤخر ہو گیا تھا۔ نون لیگ کے انتہا پسند عناصر اسے منظور ہونے نہیں دیں گے۔ جب سے پنجاب اسمبلی نے عورتوں کے تحفظ کے بل کی منظوری دی ہے‘ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پنجاب اسمبلی کے اراکین کو زن مرید قرار دے کر ان کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے۔ مولانا کا فرمانا ہے کہ مذکورہ بل ملکی آئین کے ساتھ ساتھ چند شرعی قوانین سے بھی متصادم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی ان این جی اوز کے اشارے پہ کی گئی ہے جو اپنے مالی مفادات کی خاطر مغرب کی طرف جھکائو رکھتی ہیں۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے قانون سے افراد کی نجی زندگی پامال ہوتی ہے اور اس سے پاکستانی معاشرے میں رائج خاندانی ساخت مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ یہی خاندانی ساخت وہ چیز ہے جو مغرب میں معدوم ہے۔ بقول ان کے ''مغربی معاشرے میں میاں اور بیوی برابر سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔‘‘ مولانا کہتے ہیں کہ نئے قانون کے تحت جو تحفظ فراہم کیا گیا ہے وہ مروجہ قوانین میں پہلے سے موجود ہے۔ ''اسلام میں عورت کو جس قدر احترام دیا گیا ہے کسی بھی دوسرے قانون میں اس کی مثال موجود نہیں۔‘‘ لیکن ''اس نئے قانون سے مرد عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔‘‘ ہمارا تو خیال ہے کہ پاکستان کی تعلیم یافتہ عورت اب اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ اگر اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لئے عورتوں کو باہر کام کرنا پڑتا ہے‘ تو اس پہ انہیں احساسِ جرم کا شکار نہیں کرنا چاہئے۔ پچھلے دنوں ایک امریکی میگزین میں "It's Time for Women to Take Back the Word 'Selfish' کے عنوان کے تحت ایک مضمون ہماری نظروں سے گزرا۔ اس مضمون کی مصنفہ نے اپنی خواتین قارئین کے سامنے چند ایک جملے رکھے ہیں۔ مثلاً
''میں اتنی مصروف رہی کہ پورے ہفتے میں ایک منٹ بھی اپنے لئے نہیں نکال پائی۔‘‘
''ایک مہینہ ہو گیا کہ میری رات کی نیند پوری نہیں ہو رہی۔ میرے حواس جواب دے رہے ہیں۔‘‘
'' اتنا سارا کام ہے۔ مجھے کرنا ہی ہو گا ورنہ سب رہ جائے گا۔‘‘
'' اگر میں نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟‘‘
اس نے اپنی قارئین سے پوچھا ہے کہ کیا یہ جملے انہیں مانوس محسوس ہو رہے ہیں؟ کیا ایسی ہی کوئی بات وہ خود کر چکی ہیں؟ کیا آپ بھی لوگوں کو یہ بتاتی رہی ہیں کہ آپ اس قدر مصروف ہیں کہ آپ کے پاس اطمینان سے بیٹھ کر کھانے یا ٹھیک سے سونے یا آرام کرنے کا وقت کبھی نہیں ہوتا؟ اگر ایسا ہے تو پھر سچی بات یہی ہے کہ آپ کو ان چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ آپ کو اپنے لئے وقت نکالنا ہی ہو گا۔ پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کی تعریف ہونی چاہئے، تنقید و تحقیر نہیں! وہ مستحق ہیں کہ بدسلوکی و تشدد کی شکار اور قتل ہونے سے انہیں بچایا جائے، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے، اور اگر کوئی ان کے خلاف ایسے جرائم کا مرتکب ہو تو آزاد چھوڑنے کی بجائے اسے سزا دینے کے لئے سخت ترین قوانین ہونے چاہئیں۔ ملالہ یوسفزئی نے نوبل انعام تک جیت لیا مگر پاکستان میں عورتوں کے رتبے پر اس سے کیا فرق پڑا ہے؟