کیا حکومت ہمیں مسّرت دے سکتی ہے؟

کیا وزیر اعظم میاں نواز شریف اس ملک کے بیس کروڑ عوام کو تحفتاً مسرتیں دے سکتے ہیں؟ یہ ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ میاں صاحب ساری مسرتیں اپنے اہلِ خانہ، دوست احباب اور جماعتی اراکین کے درمیان بانٹنے میں اس قدر مصروف ہیںکہ عام لوگوں کو کچھ باعثِ مسرت فراہم کرنے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں۔ جنگلہ بسیں اور اورنج لائن ایسی چیزیں نہیں جن سے عوام کی زندگی میں وسیع پیمانے پہ خوشی اور مسرتیں آ سکتی ہیں۔ لوگوں کو ملازمتوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھر والوں کو پیٹ بھرنے کے لئے کھانا اور رہنے کے لئے کوئی ٹھکانا فراہم کر سکیں۔پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔ قدرتی وسائل کے ذخائر بھی یہاں محدود ہیں۔نقد آور فصلوں میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ تھوڑا بہت جو پیسہ ملک کو حاصل بھی ہوتا ہے تو وہ کرپشن اور کالے دھن کی صورت میں بیرونی ممالک میں ہماری حکمران اشرافیہ کے بینک اکائونٹس میں منتقل ہو جاتا ہے۔دیگر ممالک کی جانب رواں دواں سرمائے کے اس بہائو کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں۔ پاکستان کوئی متحدہ عرب امارات نہیں کہ جس کے پاس تیل کے بیش بہا ذخائر ہیں، اور نہ ہی میاں صاحب دنیا کے اس ساتویں امیر ترین ملک کے سربراہ شیخ محمد بن راشدالمکتوم کی طرح کوئی شاعر ہیں۔ شیخ صاحب اپنی زندگی میں بے تحاشہ پیسہ دیکھ چکے ہیں‘ اس لئے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی؛ چنانچہ انہوں نے اپنی کابینہ یعنی مجلس الوزرا میں ایک وزارۃ السعادۃ یعنی وزارتِ مسرت تخلیق کر کے ایک خاتون کو اس کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ محترمہ 
عہودالرومی اس سے قبل دبئی کی امارت کے لئے اقتصادی پالیسی کی سربراہی کر رہی تھیں اور اس وقت وزیر اعظم کے دفتر کی ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وزارۃ السعادۃ کی سربراہی کے ساتھ ساتھ وہ اپنا یہ عہدہ بھی برقرار رکھیں گی۔ نئی وزارت کی سربراہ کی حیثیت میں ان کا کام یہ ہو گا کہ وہ عوامی بہبود کی خاطر اور عوام میں اطمینان پیدا کرنے کی غرض سے حکومتی پالیسیوں کی رہنمائی کریں۔ شیخ محمد نے وعدہ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں وزارتِ مسرت صرف ایک امید تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے تحت منصوبے، پروجیکٹس اور پروگرام تخلیق ہوں گے اور ان کے اشاریے بھی موجود ہوں گے۔ وعدے تو میاں صاحب بھی بہت کرتے رہے ہیں۔ ہر روز جو تشہیر کی جاتی ہے، وہی دیکھ لیجئے؛ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ سرکاری خزانہ خالی ہے‘ اور اقتصادی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر اپنے معاشی وعدوں کی تکمیل میں حکومت ناکام رہی تو پھر دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحق ڈار بڑے خوش نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی جائیداد اور ذاتی بینک بیلنس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے؛ تاہم ان کی قیادت میں ملکی اقتصادی حالت ابتر ہو چکی ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن راشدالمکتوم صرف ''مسرتوں‘‘ کا راگ ہی نہیں الاپ رہے‘ بلکہ انہوں نے تحمل و رواداری کی وزارت بھی تخلیق کی ہے اور ساتھ ہی وزارتِ امورِ مجلس الوزرا کو نئی صورت دے کر اسے وزارتِ امورِ مجلس الوزرا اور مستقبل قرار دے دیا ہے۔ شیخ محمد نے اس بارے میں عربی زبان میں ایک ٹویٹ بھی کی ہے‘ جس میں ان کا کہنا ہے کہ یہ عوام کو کچھ دینے اور کامیابیوں کے سفر کا ایک نیا آغاز ہے‘ ہماری دعا ہے کہ خدا 
ہمیں عوام کی مدد اور ان کا خیال رکھنے کی توفیق دے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ وہ پانچ سال کے اندر اندر متحدہ عرب امارات کو دنیا کے بہترین ممالک کی صف میں لا نا چاہتے ہیں۔ اسی تصور کے تحت انہوں نے ''قومِ شاداں‘‘ کے عنوان کے تحت ایک نظم بھی لکھی ہے:
ہمارے لوگ شاداں و فرحاں ہیں...زید کے دور سے اب قیامت تلک...عزت اور وقار ان کا مقسوم ہے...کسی نگاہِ خشمگیں کا یہ مرکز نہیں...ایک فرحت انگیز احیا کے قائد ہیں یہ!... وہ اور ہوں گے جو تاحال...سختیوں سے، مشکلوں سے ...نبرد آزما ہیں۔...ہمارے لوگ تو ایسے دکھوں سے...اب محفوظ ہیں۔...ہمارے بچے... امن میں لپٹے ہوئے ہیں...انہیں خوف کوئی نہیں۔...اپنے ارمانوں، خواہشوں...کی تکمیل کے لئے...وہ روتے نہیں۔...وہ شہرِ انصاف کے مکیں ہیں...ان کے خوابوں کو تعبیر بھی مل چکی ہے... اور بصارتیں بھی لوٹ آئی ہیں...سو، سرابوں کا تعاقب ...یہ کرتے نہیں!
اکتا دینے والے اشتہارات کی بجائے اگر میاں صاحب بھی کوئی نظم لکھ کر خود ہی ہمیں ٹی وی پہ آ کے سنا جائیں‘ تو کیسا رہے گا؟ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ ایک بڑی اچھی تبدیلی ہو گی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے مسرتوں کا جو راگ الاپا جا رہا ہے‘ مغربی میڈیا کی نظر میں وہ معتبر قطعی نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے ہیومین رائٹس واچ کے ایک محقق کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ نئی تبدیلی ہر ایک کے لئے باعثِ مسرت نہیں کیونکہ یہ وزارتِ مسرت بڑی اورویلین قسم کی چیز بلکہ اس لحاظ سے قدرے المناک بھی معلوم ہوتی ہے کہ متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک ہے جہاں شہریوں کی ہر حرکت پہ کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے؛ تاہم جس قدر اپنی ذات کے وقار کی طرف یہ لوگ متوجہ ہیں تو اس کے یہ عین مطابق ہے۔ ''جب تک آپ اپنا منہ بند رکھیں گے تو خوش بھی رہیں گے۔ اس نوعیت کا سماجی معاہدہ متحدہ عرب امارات میں نافذالعمل دکھائی دیتا ہے۔‘‘ دی ٹائمز کے مطابق 2015ء میں ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں یو اے ای بیسویں نمبر پر تھا۔ یعنی برطانیہ سے اوپر لیکن بیلجیم سے نیچے! پہلے نمبر پر سوئٹزرلینڈ تھا جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ پندرھویں نمبر پر تھا۔ ہمارے قارئین کو یہ جان کر بے حد خوشی ہو گی کہ اس فہرست بھارت کا نمبر ہم سے بھی بہت نیچے ہے۔ ہم مذکورہ فہرست میں اکاسیویں نمبر پر تھے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت سب سے بڑا ان ڈور سکی سلوپ بنوا رہی ہے اور کھجور کی درخت کی شکل کا ایک جزیرہ بھی وہاں زیرِ تعمیر ہے۔ دنیا کی سب سے اونچی عمارت اور تیز ترین رولر کوسٹر بھی یو اے ای میں ہے۔ حال ہی میں مختلف قومیتوں کے افراد کے بیک وقت ہاتھ دھونے، سب سے زیادہ لوگوں کے بیک وقت دلیہ کھانے اور ناشتے کی سب سے بڑی میز لگانے کا گینز بک کا ریکارڈ بھی یو اے ای نے حاصل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب باتیں 2016ء کی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں اس ملک کو اچھی حیثیت دلوا پائیں گی؟ کیا وہاں کے لوگ خوشی کے مارے کودنے لگیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے چند عشروں میں اقتصادی نوعیت کی نقل مکانیوں کی بدولت یو اے ای اب بہت بدل چکا ہے۔ یہ سب پاکستان کے ماضی و حال کے کرپٹ حکمرانوں کی مہربانی ہے۔ ان لوگوں کے نہ صرف یہ کہ دبئی میں اپنے محلات ہیں بلکہ یو اے ای کے بینکوں میں ان کا ڈھیروں روپیہ بھی پڑا ہے۔ یو اے ای کے سیاسیات کے ایک ماہر عبدالخالق عبداللہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں چونکہ بنیادی سہولیات لوگوں کو فراہم کی جا چکی ہیں‘ اس لئے اب اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران ہر کام اپنی طرز پہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کا وتیرہ بھی یہی رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں یو اے ای کا نمبر چھٹا ہے جبکہ ایک سو بیاسی ممالک میں پاکستان ایک سو چھتیسویں نمبر پر ہے؛ تاہم، حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں کئی ایسے افراد اور ان کے خاندان موجود ہیں‘ جن کے بینک کھاتوں میں اربوں ڈالرز موجود ہیں۔ امیر ترین افراد کی فہرست میں ان کی شمولیت یقینا ہمارا سر فخر سے بلند رکھے گی۔ خوشی کے حصول کا یقینی فارمولا کیا ہے؟ اس بارے میں متعلقہ ماہرین سمیت دنیا فی الحال کسی نتیجے پہ پہنچ نہیں پائی لیکن جب تک وہ کوئی نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہوں، آنجہانی اداکارجان وائن کے اس قول کی معقولیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ ''زندگی میں اہم ترین چیز آنے والا کل ہے۔ جب یہ ہمارے ہاتھ آئے تو ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ گزرے کل سے ہم نے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں