اصطلاح میں اسے ''اجتماعِ ضِدَین‘‘ کہتے ہیں (دال بالفتحہ یعنی زبر) دو آسکرز اور ایک نوبل انعام جیت لینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان میں عورتوں کو کوئی اختیار بھی حاصل ہو چکا ہے۔ شرمین عبید چنائے کو دو آسکر ایوارڈز مل چکے ہیں اور ملالہ یوسفزئی بھی نو بل انعام حاصل کرنے والی دنیا کی کم عمر ترین شخصیت ہیں۔ ان دونوں کو ملنے والے اعزازات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان حقوقِ نسواں کی پاسبانی کے لئے سامنے آتا، لیکن اس کی بجائے مولانا شیرانی نے اپنی دس رکنی کونسل سمیت یہ اعلان کر دیا کہ مردوں کے لئے اپنی بیویوں کی ''ہلکی ہلکی‘‘ مار پیٹ کرنا جائز ہے، اس صورت میں جب ''ان کا لباس غیر اسلامی ہو‘‘ یا پھر ''ازدواجی حقوق کی ادائیگی میں انہیں تردد ہو‘‘۔ غیر اسلامی لباس تو نجانے کیا ہے لیکن کیا ازدواجی تعلق جنسی غلام بنانے کے لئے ہوتا ہے؟ بیڈ روم میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اسلامی نظریاتی کونسل کو اس میں دخل قطعی نہیں دینا چاہیے۔ عورتوں کے لباس سے سروکار رکھنا بھی اس کونسل کا کام نہیں۔ عورتوں کی آزادی سلب کرنا انسانی حقو ق کی خلاف ورزی ہے۔ کیا وزیر اعظم نواز شریف اتنی اخلاقی جرأت رکھتے ہیں کہ ہمیں اسلامی نظریاتی کونسل میں شامل دخل در معقولات کرنے والے ان ملّائوں سے نجات دلا دیں جیسا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سفارش بھی کی ہے۔ یا عزت کے نام پہ ہونے والی قتل و غارت کے خلاف بل کی طرح یہ بھی ایک بھدّا مذاق بن کے رہ جائے گا؟ مذکورہ بل جس میں عزت کے نام پہ ہونے والے قتل میں قصاص اور دیت کے استعمال پہ پابندی کی تجویز دی گئی ہے، ماہِ اپریل سے زیرِ التوا پڑ ا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے شرمین عبید چنائے کی کامیابی کا جشن یوں منایا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں شرمین کی فلم A girl in the river: the Price of forgiveness کی شاندار نمائش کروائی تھی۔ اس وقت میاں صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ پاکستان میں عزت کے نام پہ ہونے والے قتل کے واقعات کو ختم کروا کے ہی دم لیں گے۔ تاہم جب تک ان کی حکومت ایسے قتل کو قتلِ عمد کا درجہ نہیں دے دیتی یعنی ایسا قتل جس کی سزا صرف پھانسی ہو سکتی ہے، تو وہ قاتل جو اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں، بھانجیوں ، بھتیجیوں اور دیگر رشتے دار خواتین کو قتل کر دیتے ہیں وہ قصاص اور دیت کی موجودگی کے باعث یونہی دندناتے پھریںگے۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کہتی ہے کہ عزت کے نام پہ قتل کے خلاف بل میں یہ جو تجویز دی گئی ہے کہ ایسے قتل کے واقعات میں قصاص و دیت کی سہولت نہیں ہونی چاہیے یہ غیر اسلامی بات ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پنجاب اسمبلی نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک بل منظورکیا تھا تو مولانا فضل الرحمان نے اس کے ارکان کو ''زن مرید‘‘ قرار دیا تھا۔ اس بل کی حمایت کرنے والے مولانا صاحب کی نظر میں شریعت اور ملکی آئین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ بقول مولانا صاحب وہ قانون سازی این جی اوز کی ایما پر کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: ''این جی اوز اپنے مالی مفادات کے لئے مغرب کے اشاروں پہ چلتی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ''مغرب میں شوہر اور بیوی برابر کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔ اس قانون کے باعث مرد عدم تحفظ کا شکارہو جاتا ہے۔ مولانا شیرانی بھی مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا اس بل کو انہوں نے بھی غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ نتیجتاً پنجاب حکومت نے بزدلی دکھاتے ہوئے اس بل کو پسِ پشت ڈال دیا۔ حکومت نے تو اپنی طرف سے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے دو بل پیش کئے ہیں لیکن ان دونوں کی راہیں مسدود کر کے دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں عورتوں کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں عزت کے نام پر عورتوں کے قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات کی شرح میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی تشکیل کے بعد کے پچپن برسوں
میں اسلام کے نام اس طرح کی کئی سفارشات پیش کیں۔ مثال کے طور پر غیر ملکی معزز مہمانوں کے اعزاز میں دی جانے والی تقریبات میں عورتوں کی شمولیت پہ پابندی، خواتین نرسوں کی مرد مریضوں کی دیکھ بھال پہ پابندی (بلوغت کے واضح آثار ظاہر ہونے کی صورت میں) لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے شادی کی عمریں بالترتیب بارہ اور نو سال تک گھٹانے کی تجویز۔ آج کی دنیا میں مرد اور عورت برابر ہیں اور وقت آچکا ہے کہ ہمارے یہ نیم خواندہ مذہب پرست اور قدامت پسند ملّاصاحبان اس حقیقت کو قبول کر لیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ان کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سفارش کی ہے کہ فی الفور یہ کونسل تحلیل کر دی جائے اور حکومت پہ زور دیا کہ عزت کے نام پہ ہونے والے قتل کے واقعات میں قصاص اور دیت کے قوانین کے استعمال پہ پابندی لگائی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا کام مقننہ کو یہ بتانا ہے کہ کہیں کوئی قانون اسلام اور خاص طور پر قرآن اور سنت کے خلاف تو نہیں۔ تاہم اب عمومی تصور یہ ہے کہ اس کونسل کی سفارشات ہی کی وجہ سے عورتوں کے خلاف منفی رویوں کی حوصلہ افزائی اور لوگوں کو عورتوں پہ تشددکی تحریک ملی ہے۔ مالی سال 2016-17ء میں اس ادارے کے لئے
دس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بجٹ پہ تقریر کے دوران کہا کہ ''یہ رقم اسلامی نظریاتی کونسل کو دینے کی بجائے عورتوں کے تحفظ پہ خرچ ہونی چاہیے۔ اس کونسل کے بقا کی کوئی وجہ اب باقی نہیں رہی۔ قانون سازی کے حوالے سے اسے اپنی مزید سفارشات ہمیں ارسال نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ کونسل کہتی ہے کہ مرد اپنی بیوی کو مار پیٹ کر سکتا ہے۔ یہ تجویز بھی اس کونسل نے دی تھی کہ لوگوں کو کلمہ طیبہ اپنے مکانات پہ تحریرکر دینا چاہیے تاکہ جہادی کلچر کی ترویج ہو۔ یہ کونسل جب اس قدر تنازعات میں گھری ہو تو اسے برقرار نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ سینیٹر بابر نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے لڑکیوں کی شادی کے لئے مقررہ عمر کی حد کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔گیند اس وقت میاں نواز شریف کی حکومت کی کورٹ میں ہے۔ انہیں اعلیٰ درجے کے ایک ماہر کی ضرورت ہے جو ایسے قوانین کی تشکیل میں ان کی رہنمائی کر سکے جو عورتوں کے حقوق کے خلاف نہ ہوں۔ ان کے پاس کوئی ایسا جرأت مند شخص ہونا چاہیے جس کا عزم بھی واضح ہو اور جو اسلامی نظریاتی کونسل کو '' بہت ہو گیا، اب بس!!‘‘ کہنے کی ہمت رکھتا ہو اور اس کونسل کے ارکان کو آسانی سے گھر بھی بٹھا سکتا ہو۔ اس عمل کی شروعات مولانا شیرانی سے ہونی چاہیے۔ عورتوں کے خلاف ان لوگوں کا مؤقف قطعی برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس کوئی ایسا بندہ ہے جو وزیر اعظم صاحب کو مشورہ دے سکے اور عورتوں کے استحصال کی بجائے ان کی بہبودکے منصوبے پہ عمل درآمد کرواسکے؟ انتظار کر کے دیکھنا پڑے گا!