نفرتوں کا اعادہ

امریکی صدارتی انتخاب کے لئے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخابی نعرہ ہے''Make America Great Again‘‘ یعنی امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیے۔ ان کی حریف اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے اس نعرے کو بدل کر ''Make America Hate Again‘‘ بنا دیا ہے (یعنی پھر سے امریکہ سے نفرت کروائیے) جو بالکل بجا بھی ہے۔ نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین بلکہ ٹی وی اینکرز، مسلمانوں، میکسیکن نسل کے لوگوں اور سیاہ فام امریکیوں کے خلاف بھی نفرت انگیز، متعصّبانہ اور سازشی نظریات پر مبنی باتیں دھڑلے سے کہتے رہتے ہیں بلکہ ان کے مدّاح ان باتوں پہ یقین بھی کر لیتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں کم از کم تیس ملین کی بالغ آبادی ناخواندہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح ہوئی تو اس سے ثابت ہو جائے گا کہ امریکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ سیاسی جاہلوں پہ مشتمل ہے۔ اس برس امکان ہے کہ عید الاضحیٰ گیارہ ستمبر کو ہو۔ ایک جھوٹ نہایت بے شرمی سے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی بولا ہے کہ پندرہ سال قبل جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پہ حملہ ہوا تو اس نے اپنی آنکھوں سے ہزاروں مسلمانوں کو اس پہ جشن مناتے دیکھا تھا۔ اسی لئے امریکی مسلمانوں کو یہ خدشہ ہے کہ اس سال ان کا عید منانا ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے پرستاروں کو مشتعل کر سکتا ہے۔ اشتعال انگیز باتیں کر کے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوا دینے میں وہ ویسے ہی ماہر
ہیں۔ معذرت کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کی عادت ہی نہیں۔ کئی بار ان سے خضر اور غزالہ خان کے ساتھ تنازع کے بارے میں پوچھا گیا، ہر بار موصوف کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ''مجھے کوئی افسوس نہیں‘‘۔ خضر اور غزالہ خان کیپٹن ہمایوں خان کے والدین ہیں۔ 2004ء میں کیپٹن ہمایون خان اپنے متعدد امریکی فوجی ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ افسوس ہے کہ ان دونوں کے ساتھ ٹرمپ کے ظالمانہ برتائو کا اکثر فوجیوں کے خاندانوں پہ کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ اس شخص کی سطحی ذہنیت نسلی اور مذہبی تفرقات کو ہی مہمیز دیتی آئی ہے۔ نیویارک ٹائمز کی معروف کالم نگار مچیکو کاکو ٹانی (Michiko Kakutani) کہتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں اور ان موصوف کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھ کر لگتا ہے کہ انسان گویا دانتے کی Inferno جیسی کسی دوزخ میں پھنس گیا ہے جہاں حرص، تکبر اور فساد کے بیج بونا گناہ نہیں بلکہ قیادتی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ جہاں جھوٹ، تضادات اور اشتعال انگیزیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ٹی وی کے سوپ ڈراموں میں دکھائی جانے والی اخلاقی ابتری اب ایک حقیقت کا روپ دھار لے گی۔ ان کی آواز ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں، جن میں اکثریت سفید فام
اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوں کی ہے، کی چیخم دھاڑ میں دب کر رہ گئی ہے۔ یہ سب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہتے ہیں۔
موصوف کی باتوں سے ان لوگوں میں نسل پرستی، قومی تعصب، تارکینِ وطن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات مزید بھڑک اٹھتے ہیں۔ امریکہ میں ہتھیاروں سے شغف رکھنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں بھی اشارتاً یہ کہا ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن نے صدر بن کر دوسری ترمیم میں انہیں دیے گئے ہتھیاروں کی ملکیت کے حق کو ختم کرنے کی کوشش کی تو انہیں ہیلری کو قتل کر دینا چاہیے۔ پچھلے چودہ ماہ سے ڈونلڈ ٹرمپ بد ہیئت اور بد فطرت امریکیوں کی جس فصل کی تیاری میں مصروف رہے ہیں، ہمیں خدشہ ہے ( اور خدا کرے کہ یہاں ہم غلط ثابت ہوں) کہ بے شمار امریکیوں نے خود کو اسی رنگ میں رنگ لیا ہے۔ ٹرمپ نے جس نسلی و مذہبی تعصب کو فروغ دیا ہے اس کے اثرات اب سکولوں اور کالجوں میں بھی نظر آتے ہیں، جہاں ٹرمپ کے رنگ میں رنگے بچے دیگر غیر سفید فام نسلوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم مکتبوں کو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ انہیں امریکہ سے چلے جانا چاہیے۔امریکہ میں مقبول ترین ٹی وی نیٹ ورک فاکس نیوز کے دو اینکرز بِل او ریئلی اور شان ہینٹی ڈونلڈ ٹرمپ کے بھونپو کا کردار نبھا رہے ہیں۔ ہر رات یہ دونوں اپنے ناظرین کو ابھارتے ہیں کہ ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی دیاجانا چاہیے۔ سفید فاموں کی برتری اور نسلی تفرقات کے دوسری عفریت کو سامنے لانے پہ مصر بد ہیئت و بد فطرت امریکی کی 
بدترین مثال سٹیو بینن نامی شخص ہے۔ یہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا نیا منتظم ہے۔ اسے امریکہ میں خطرناک ترین سیاسی ورکر سمجھا جاتا ہے۔ یہ شخص برائٹ بارٹ میڈیا کے سربراہ کے طور پر امریکہ میں نسلی و مذہبی تطہیرکا مطالبہ کرنے والی متبادل دائیں بازو کی تحریک کی قیادت بھی کرتا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ خدشہ بھی ہے کہ صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔ جنونی انداز میں تبدیلی کے نعرے لگانے والے ان کے حامیوں پہ اس بات کا اثر بھی خاطر خواہ ہوتا ہے۔ اگر وہ جیت نہ پائے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا یہ لوگ مظاہرے کریںگے؟ ہیلری کلنٹن کے صدر بننے کی صورت میں ان کی صدارتی مدت کو ان کے لئے ایک کابوس میں بدلنے کی قسم تو ان لوگوں نے پہلے ہی سے کھا رکھی ہے، تو پھر کیا ہارنے کی صورت میں یہ لوگ ان مظاہروں اور احتجاج کو ایک مستقل تحریک کی صورت دے دیںگے؟ کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، لیکن امریکہ میں تفرقات کی علامات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ تفرقات کے گھنے بادل دنیا کے اس طاقت ور ترین ملک پہ چھائے ہوئے ہیں اور اس کی سرحدوں سے باہر تک جا رہے ہیں۔ خود ری پبلکن پارٹی کے معقول عناصر اور لاکھوں دیگر تعلیم یافتہ امریکی بھی تفکرات کا شکار ہیں کہ اگر اوول آفس پہ ڈونلڈ ٹرمپ کا راج ہو گیا تو کیا ہوگا؟ کیا وہ واقعی امریکہ میں رہنے اور کام کرنے والے گیارہ ملین غیر رجسٹرڈ تارکینِ وطن کو واپس بھجوا دیںگے؟ کیا وہ واقعی امریکہ میں تمام داخلی مقامات پہ مسلمانوں کے لئے مذہبی عقائد اور وفاداری کی آزمائش کا کوئی طریقہ وضع کردیں گے؟ کیا وہ واقعی ان کے متعصبانہ اور نسل پرستانہ خیالات کا کھلا راج چلے گا اور غیر سفید فام لوگ اور ان سے مختلف مذہبی عقائد رکھنے والے سائیڈ لائن کر دیے جائیں گے؟ آخر میں ہم ذکر کرنا چاہیں گے خان فیملی جو ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے عذاب کے فرشتے سے کم نہیں، تنِ تنہا امریکی مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ڈیموکریٹک کنونشن میں خضر خان نے مسلمانوں پر پابندی کی تجویز کے جواب میں امریکی دستور کی دستاویز لہراتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو کافی شرمندہ کیا تھا۔ امریکی ٹی وی چینلوں پہ یہ منظر باقاعدگی سے دکھایا جاتا ہے۔ خضر اور غزالہ خان اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں