امریکہ میں عید

پچھلے ہفتے ہم نے نیوجرسی میں بوٹن کے اسلامک سینٹر کال کرکے عید کی نماز کے اوقات معلوم کئے۔ علاقے کے مسلمانوں کے لئے اس اسلامک سینٹر میں ایک مسجد بھی موجود ہے جس کی خوبصورتی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ عید کے دن ہم وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ پہلی شفٹ اسی وقت ختم ہوئی تھی۔ خواتین کے لئے مردوں سے الگ جگہ کا انتظام تھا۔ نماز ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونا تھی‘ لہٰذا ہم وہاں بیٹھ کر انتظار ہی کرتے رہے۔ خواتین اور بچے اپنے بہترین لباس میں ملبوس ہو کر آ رہے تھے‘ لہٰذا رفتہ رفتہ ہال بھرنے لگا۔ نماز کے بعد امام صاحب نے جو خطبہ دیا وہ نہایت ہی روح پرور تھا۔ امام صاحب نے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے لئے عیدالاضحی منانے کی اہمیت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزندِ جلیل حضرت اسماعیل ؑ کی کہانی سنائی۔ ذاتی طور پر ہم نے اس کہانی کا اثر اس لئے بھی محسوس کیا کہ پچھلے سال ہی ہمیں الخلیل میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السّلام کے مقبروں کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اس مقام کو مسجدِ براہیمی کہتے ہیں۔ اس شہر کا نام بھی حضرت ابراہیم کے نام پہ رکھا گیا ہے۔ عبرانی لفظ حبرون کا مطلب ہوتا ہے دوست اور عربی لفظ الخلیل کا بھی یہی معنی ہے۔ یہودی اور مسلمان دونوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ مانتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام انہتر بار آیا ہے۔ توحید کے قائل تینوں بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام حضرت ابراہیم ؑ کے نام سے موسوم ہیں اور براہیمی مذاہب کہلاتے ہیں۔ سورہ آل عمران کی 65ویں آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ ''اے اہل کتاب، تم ابراہیم ؑ کے بارے میںکیوں جھگڑتے ہو؟ حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد کی گئی تھیں۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اور پھر آگے اسی سورت کی 67ویں آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ''ابراہیم ؑ نہ نصرانی تھے اور نہ یہودی بلکہ وہ خالص مسلمان تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہلِ بیت کے مقبروں کی زیارت کی یادوں کے ساتھ امام صاحب کے خطبے کا ہم پہ کافی اثر ہوا۔ امام صاحب کہہ رہے تھے کہ ''اللہ کو حضرت ابراہیم ؑ سے محبت تھی کیونکہ وہ الٰہی احکامات کی فرمانبرداری کرتے تھے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو خدا کے ساتھ کامل وفاداری سکھاتا ہے‘‘۔ عید کی نماز کے بعد ہم اپنے شوہر کے ہمراہ وہاں سے باہر نکلے اور اپنی گاڑی کی سمت بڑھنے لگے۔ باہر ساری دنیا بالکل الگ تھی۔ ہر طرف سفید فام امریکی اپنے اپنے کاموں میں مگن نظر آ رہے تھے۔ اگر آنے والے انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت ہوئی تو اس کے نتائج کی زد امریکہ میں مسلمانوں پہ پڑے گی۔ پہلے ہی سے ڈونالڈ ٹرمپ 
مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں۔ ان کے مداحوں کو جب بھی موقع ملتا ہے تو مسلمانوں پہ وار کرنے سے وہ چوکتے نہیں۔ نفرت انگیزی پہ مبنی جرائم کی شرح قابو سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ نیویار ک کے علاقے کوئینز میں ایک امام اور ان کے نائب کو قتل کیا جا چکا ہے۔ نیویارک سٹی میں اس بار مساجد نے عید کی نمازوں کا انتظام کھلے میدانوں اور عوامی مقامات کی بجائے چاردیواریوں کی اندر کیا تھا۔ عید کی نماز کے بعد جب گھر پہنچے تو ہم نے نیویارک ٹائمز کا ادارتی صفحہ کھولا۔ ہماری نظر ایک کالم پہ پڑھی جس کا عنوان تھا "How to Celebrate Eid al-Adha Like an American" یعنی ایک امریکی کے طور پر عیدالاضحی کیسے منائی جائے۔ یہ وجاہت علی کی تحریر تھی۔ انہوں نے اپنے لڑکپن کے زمانے کی یادیں قلمبند کی ہیں جب وہ اپنے خاندان سمیت کیلی فورنیا میں رہا کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''عید کے دن ہم صبح سویرے اٹھ کر شلوار قمیص زیب تن کرکے نماز پڑھنے مسجد یا پھر ان میدانوں کا رخ کرتے جہاں عموماً میلے وغیرہ منعقد ہوتے ہیں۔ عیدالاضحی چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جذبہء قربانی کی یادگار ہے جب وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے لہٰذا اس عید پہ قربانی بھی کی جاتی ہے یعنی ایک حلال جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت خاندان والوں، ہمسایوں اور غربا میں بانٹا جاتا ہے؛ تاہم ہمارے گھر میں قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اب ہمیں ہفتوں تک دنبے کے گوشت کی مزیدار بریانی میسر ہو گی‘‘۔ وجاہت علی لکھتے ہیں کہ اس وقت بھی انہیں اپنے تحفظ کا دھڑکا لگا رہتا تھا اوروہ سوچتے تھے کہ نجانے عید سرعام منائی جانی چاہئے یا نہیں؛ تاہم وہ مناتے تھے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ''اگر ہم لوگوں کو آرام اور تحفظ کا احساس دینے کے لئے اپنی مذہبی آزادی کو قربان کریں تو یہ وہ قربانی نہیں جو خدا کے دربار 
میں مقبول ہو کر اس کے فضل سے کسی دنبے سے بدل جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تو 'امریکی خواب‘ کی صرف خالی خولی لاش ہی ہمارے ہاتھ آتی ہے‘‘۔ اسی لئے اس برس انہوں نے بڑے زور و شور سے عیدالاضحی منائی ہے۔ انہوں نے اس دن کام سے چھٹی لی، صبح سویرے اٹھ کر انہوں نے اور ان کے بچوں نے بھی روایتی پاکستانی لباس زیب تن کیا اور قریب ہی واقع ایک بینکویٹ ہال جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ عید منائی۔ مسلمان امریکی آبادی کا صرف ایک فی صد ہیں۔ اس کے باوجود اگر مسلمان وہاں خوف کی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ اسلام ترسی کے شکار اور تعصب سے بھرے ڈونالڈ ٹرمپ کی مہربانی ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کو پندرہ سال گزر چکے ہیں اور امریکہ میں اسلام ترسی اس وقت عروج پر ہے۔ ایف بی آئی کے مطابق مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم 2001ء کے مقابلے میں آج پانچ گنا بڑھ چکے ہیں۔ سالِ رفتہ تو اس لحاظ سے اور خاص طور پر یورپ میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور سان برنارڈینو میں مسلمان جوڑے کی کارروائی کے بعد کافی بُرا گزرا تھا۔ مساجد کی توڑ پھوڑ اور مسلمانوں پہ حملوں کی خبریں بڑھتی جا رہی ہیں، اور اس کی وجہ مسلمانوں کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کی زہر افشانی ہی ہے جس کی بدولت امریکہ میں اسلام مخالف جذبات کو کافی تحریک ملی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں