ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیویار ک سٹی اور نیو جرسی میںبم دھماکوں کا مبینہ ملزم احمد خان راحمی اور اسی کی طرح کے دیگر ممکنہ دہشت گردوں کا اصل مقصد ڈونالڈ ٹرمپ اور اس کے مسلمان مخالف جتھے کی مدد کر کے اس امر کو یقینی بناناہے کہ کسی طور امریکہ میں مسلمانوں کو دیوار کی جانب دھکیل دیا جائے۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے۔ مزید برآں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ افغانی نژاد احمد راحمی نے وطن ترک کر کے امریکی شہریت حاصل کی تھی اور ایک سال اس نے پاکستان میں بھی گزارا ہے اور پاکستان میں قیام کے دوران ہی اس نے شادی بھی کی۔اطلاعات کے مطابق حال ہی میں وہ کوئٹہ بھی گیا تھا۔امریکی اہلکار کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ احمد خان راحمی نے بم سازی کی تربیت افغانستان اور پاکستان میں اپنے حالیہ دوروں میں پائی ہو۔اس وقت وہ زخمی ہے اور امریکہ میں زیرِ علاج ہے۔اس ضمن میں ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ہی سے اوباما انتظامیہ پہ کافی نکتہ چینی کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک کے قابل ترین معالج اس شخص کو بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، اور اسے ''روم سروس‘‘ مہیا کر کے اس کے ناز نخرے اٹھائے جا رہے ہیں،عدالت میں اس کی پیروی بھی قابل ترین وکلاء کریں گے، مطلب یہ کہ سالوں تک یہ مقدمہ عدالت میں چلتا رہے گا اور نتیجہ اس کا کچھ بھی سامنے نہیں آئے گا۔ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلسل اپنے حامیوں کو یہی کہا جا رہا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔دوسری طرف مینیسوٹا میںاللہ اکبر کے نعرے لگا تے ہوئے نو افراد پہ حملہ کرنے والے صومالی مسلمان اور احمد راحمی جیسے جنونیوں کی کارستانیاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید مہمیز کرتی جا رہی ہیں۔ اسلام کو ایک تشدد پسند مذہب اور تمام مسلمانوں کو انتہا پسندوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔امریکیوں کے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ راحمی ایسی کارروائیوں میں تنِ تنہا مصروفِ عمل نہیں تھا بلکہ وہ ایک ایسے گروہ کا رکن ہے جس نے نیویارک جیسے شہر میں، جسے دنیا میں میڈیائی دارالحکومت کا درجہ حاصل ہے، مزید دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ اعلان کر چکا ہے کہ اگر وہ امریکی صدر بنا تو امریکہ میںمسلمانوں کو ''انتہائی چھان بین‘‘ کے بعد داخلے کی اجازت ملا کرے گی۔یہ سارا عمل کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوگا؟ اس بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا حتیٰ کہ خود ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی فی الحال اس کی کچھ خبر نہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ زیادہ تر ایسے ہی بیانات دیتا ہے جس سے اسے اپنے حامیوں کی مزید حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے حامی بھی بس اسے چاہتے ہیں حالانکہ اپنے منصوبوں کے بارے میں کوئی ٹھوس خیالات وہ پیش نہیں کرتا ۔ جہاں تک ان مسلمانوں کا تعلق ہے جو پہلے ہی سے امریکہ میں مقیم ہیں تو ان کے لئے بھی منصوبہ یہ ہے کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اپنی رجسٹریشن کرانا ہو گی تاکہ ان کی اقامت گاہوں اور سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے۔امریکہ میں کہیں بھی دہشت گردی کا امکان ایک حقیقی خطرے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور انٹیلی جنس ادارے اس سلسلے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوںاور خاص طور پر مساجد کی اضافی نگرانی کر رہے ہیں۔تاہم اس وقت مسلمانوں کے خلاف جس ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے یہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سے اب تک پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔تحقیق کار کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی کارروائیوں کو خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کی تفرقہ انگیز ہرزہ سرائیوں کی بدولت ہوا ملی ہے۔ان رجحانات کو دیکھتے ہوئے نفرت پر مبنی جرائم کا مطالعہ کرنے والے تحقیق کار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تشویش کا شکار ہیں۔یہ لوگ سال دو ہزار پندرہ کے اوائل سے لے کر اب تک مساجد کو نشانہ بنانے، آگ لگانے ،مسلمانوں پہ حملے فائرنگ اورانہیں دھمکائے جانے کے سینکڑوں واقعات کا دستاویزی اندراج کر چکے ہیں۔حال ہی میں موٹر سائیکل پہ سوار ایک شخص نے فلوریڈا کے اسلامک سینٹر پہ آتشی مواد پھینکاجس کی بدولت بھڑکنے والی آگ نے پورے سینٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ماہِ جون میں اورلینڈو کے پلس نامی نائٹ کلب میں قتلِ عام کے مرتکب عمر متین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس اسلامک سینٹر میں کچھ عرصے تک وہ نمازیں پڑھتا رہا تھا۔پولیس نے اس واقعے کو ایک افسوسناک المیہ قرار دیا ہے اور ایک مقامی فردکی شبہے کے تحت گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ یہ شخص سوشل میڈیا پہ اپنے پیغامات اور تبصروں میں اسلام پہ نکتہ چینی کرتا رہا تھا۔محمد مالک ایک تینتالیس سالہ بزنس مین ہیں اور تقریباً ایک عشرے سے اسی مسجد میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ ۔ وہ کہتے ہیں کہ آتش زدگی اورنمازیوں پر حملوں جیسے واقعات کی بدولت نماز کے لئے آنے والے مسلمان خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منفی بیان بازیاں بہت ہو رہی ہیں اور انہی منفی بیان بازیوں کی بدولت نفرت کو ہوا مل رہی ہے اور یہی نفرت پھر پُر تشدد واقعات کا سبب بنتی ہے۔ پچھلے سال نارتھ کیرولائنا میں تین مسلمان طلبہ کا قتل ہوا لیکن حکام نے حراست میں لئے گئے ملزم پہ نفرت پہ مبنی جرم کے ارتکاب کا الزام نہیں لگا یا، حالانکہ مسلمانوں کی جانب سے اس کا مطالبہ کیا جا رہاتھاکیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ پُر تشدد واقعہ مذہبی منافرت کا رنگ رکھتا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں جب پیرس میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تو ٹیڈ ہیکی جونیئر نامی ایک سابق امریکی فوجی نے اپنے دوست کے نام ایک فیس بک پیغام میں لکھا کہ I hate ISLAMیعنی مجھے اسلام سے نفرت ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس کے چند گھنٹے بعدنشے کی حالت میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اس نے اپنے گھر کے قریب ہی ایک مسجد پر رائفل کے چا ر فائر داغے۔ عدالت میں اعترافِ جرم کے بعد اسے چھ ماہ جیل کی سزا سنائی گئی۔ پویس کے مطابق اسی ماہ کے دوران بروکلین میں دو خواتین پر ایک عورت نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے بچوں کو سٹرولرز میں بٹھاکر سیرکروانے باہر نکلی تھیں۔ ان پہ حملہ کرنے والی عورت مسلمانوں کے خلاف نعرے لگارہی تھی اور اس نے ان کے نقاب پھاڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔ کوئینز میں بھی ماہِ اپریل کے دوران تین نامعلوم افراد نے ایک شخص کو مارا پیٹا ۔مار پیٹ کے دوران وہ ''ISIS, ISIS‘‘ چلاتے رہے تھے۔مینیپُلِس میں حکام کہتے ہیں کہ ماہِ جون کے دوران ایک شخص نے اسلام کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے روایتی اسلامی لباس میں ملبوس دو افراد کو گولی ماری۔ سینٹ لوئس میں بھی پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے کیونکہ اس نے اپنے بلاک میں خریداری میں مصروف ایک مسلمان جوڑے پہ بندوق تانتے ہوئے انہیں یہ کہا تھا کہ ''تم سب کو مرجانا چاہئے۔‘‘ گزشتہ ماہ کوئینز میں ایک مسجد کے امام اور ان کے نائب کو قتل کیا گیا۔ایک پینتیس سالہ شخص کو اس واقعے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن ابھی تک ملزم کے محرکات کا تعین پولیس نہیں کر پائی ہے چنانچہ یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا کہ آیا یہ جرم مذہبی منافرت کا نتیجہ ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں۔مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پہ امریکی محکمہ انصاف بھی مشوّش ہے ۔متعلقہ محکمے کے اہلکار بتاتے ہیں کہ'' ہم مساجد کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے خطرات، سکولوں میں ہراساں کئے جانے کے واقعات اور امریکی مسلمانوں، سکھ، عربی النسل اورجنوب ایشیائی خطے سے آئے لوگوں اور انہی گروہوں میں شامل سمجھے جانے والے افراد کے خلاف تشدد پہ مبنی کارروائیاں ملاحظہ کر رہے ہیں۔‘‘ منافرانہ جرائم کے شعبے کے ماہرین ڈونالڈ ٹرمپ کو ان تمام حالات کا ذمہ دارسمجھتے ہیں کیونکہ اس کی ہرزہ سرائیوں کی بدولت اس کے حامیوں کا ایک گروہ مسلمانوں کو دھمکانے اور ان کے خلاف تشدد کی حد تک جانے کو باجواز سمجھنے لگا ہے۔ واشنگٹن میں پولیس نے ماہِ مئی میں ایک ویڈیو ٹیپ جاری کی ہے جس میں ایک عورت کو ایک مسلمان خاتون پہ ایک محلول چھڑکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ عورت اسلام کے خلاف گالیاں بکتے ہوئے اعلان کرتے دکھائی دیتی ہے کہ وہ ووٹ ڈونالڈ ٹرمپ کو دے گی تاکہ وہ'' تم سب کو واپس وہاں بھیج دے جہاں سے تم لوگ آئے ہو۔‘‘ ہیلری کلنٹن جس قدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو تحریک دینے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اسی قدر ٹرمپ کے حامیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔آٹھ نومبر کو امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات سبھی کو نروس کئے ہوئے ہیں۔