ہمیں ایک ای میل موصول ہوئی ہے۔ ای میل بھیجنے والے ہمارے دوست رہتے امریکہ میں ہیں لیکن آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک ڈاکٹر ہیں اور تعلق ان کا خیبر پختونخوا سے ہے۔ ذیل میں ہم وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں ان کے خیالات نقل کر رہے ہیں۔ ہمارے یہ دوست میاں صاحب کو شہنشاہِ پاکستان قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران کا فرمانا ہے کہ ہم سوچیں کہ اسلام آباد کو بند کر دینے کی قیمت کیا ہو گی، بات تو ٹھیک ہے لیکن کیوں نہ ہم یہ سوچ لیں کہ اسلام آباد کو بند نہ کرنے کی قیمت کیا ہو گی! یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں ہم محب وطن پاکستانیوں کے فائدے کے لئے کچھ کہنا چاہیں گے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا تو بالکل ایک منطقی امر ہے کہ اگر اسلام آباد بند کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ معاشی مصائب چھوٹے کاروباریوں، خود روزگار کمانے والوں اور روزانہ اُجرت پہ کام کرنے والوں کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ یہ ہمارے معاشرے کے وہ لوگ ہیں جن کے لئے اپنی آمدن میں ذرہ بھر خسارہ سہنا بھی سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ انتہائی کرپٹ اور ایسی ہی دیگر آلائشوں سے آلودہ نظام میں کاروبار کرنے والوں کو کھانے کے لئے صرف اتنا ہی میسر آتا ہے کہ وہ اور ان کے بچے فاقوں کے ہاتھوں مرنے سے بچ جاتے ہیں۔ اتنی کمائی ان کی نہیں ہوتی کہ جس کے ذریعے وہ اپنی بڑھوتری کے تعطل اور نسلی تفاوت جیسی
بلائوں کا مقابلہ کر سکیں؛ تاہم ایک کرپٹ حکومت کا خاتمہ اور اسلام آباد کو بند کرانا بالکل الگ باتیں ہیں۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ہمارا دارالحکومت بند نہیں ہو سکتا اور کوئی بند کرے گا بھی نہیں، البتہ پاکستان کا خون چوسنے والی ٹولی کا احتساب لازمی ہے۔ صرف اس لئے نہیں کہ انہوں نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے پاکستانیوں کی ایک ایک بڑی تعداد کے بچوں کے منہ سے نوالہ، ہاتھ سے کتاب اور دل سے مستقبل کی امنگ چھینی ہے۔ اس وقت صرف اسلام آباد میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی صرف یہی نہیں کہ سیاسی کارکن گرفتار کئے جا رہے ہیں بلکہ کنٹینرز لگا کر، بندشیں کھڑی کرکے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو دشوار بنایا جا رہا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات اس لئے نظر نہیں آتی کہ جن کی رگوں میں فسطائیت رچ بس چکی ہے، انہیں یہی کچھ سوجھ سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے جتھے والوں نے صرف وکیل نہیں بلکہ عدلیہ کو بھی اپنی طرف کر لیا ہے، اسی لئے تو ہمارا عدالتی نظام بھی پاناما دستاویزات، وسیع پیمانے پہ پھیلی کرپشن، کالے دھن کی سفیدی، احتسابی اداروں پہ اثر انداز ہونے اور اعلیٰ ترین سطحات پہ فنڈز کی خورد برد جیسے معاملے پہ کوئی سوال اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ ایک عدالت نے دو نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو روکنے کے احکامات فی الفور ہی جاری کر دیے ہیں‘ اور مؤقف یہ اختیار کیا ہے کہ دارالحکومت کو بند کرانے کی کوشش خلافِ قانون ہے۔ لوگوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا وہ شہر بند کرائیں گے یا پھر عدالتی حکم مانیں گے؟ سوال تو یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر کس قانون کے تحت PTI, APML اور PAT کے سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے مار پیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی مخالفین کی گرفتاری کے لئے لوگوں کے گھروں پہ چھاپے کیوں مارے جا رہے ہیں اور بغیر کسی الزام کے لوگوں کو اڈیالہ جیل کیوں بھجوایا جا رہا ہے۔ ہم یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ کس قانون کے تحت ہتھیار لہراتے ایف سی کے اہلکاروں کو عمران خان کے گھر بھجوا
کر انہیں نظر بند کرایا گیا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی گرفتاری کے لئے پولیس کی چالیس سے زیادہ ٹیمیں بنائی گئی ہیں‘ جن میں انسدادِ دہشت گردی فورس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔انتہائی تربیت یافتہ انسدادِ دہشت گردی فورس کے اہلکاروں کو وہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے لئے استعمال کر رہے ہیں! جتنے وسائل شریفوں کی سکیورٹی پہ خرچ کئے گئے ہیں‘ ان کا دسواں حصہ بھی کوئٹہ میں شہید ہونے والے اکسٹھ ایماندار اور محبِ وطن پاکستانیوں کی جان بچانے کے کام آ سکتا تھا۔ ذاتی وقعت کا احساس اور سر بلند رکھنے کی فطرت ایسی چیزیں نہیں‘ جو ٹیکے میں لوگوں کو لگائی جا سکتی ہوں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کم از کم ایک کوشش کرکے اپنے بچوں کو ایک موقع فراہم کر دیں کہ وہ تعلیم، ملازمت، ایک اچھی زندگی اور اس ملک میں سب کے لئے یکساں قوانین لانے کے لئے ایک جنگ تو لڑ لیں۔ شروعات کے طور پر ہم فقط یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں زرداریوں اور شریفوں کی اولادوں کو ہی اگلے حکمرانوں کے طور پر کیوں سامنے لایا جاتا ہے؟ ہم ایسی تقدس مآب ہستیوں کی ایک پوری نسل کو پروان چڑھنے دے رہے ہیں جو اقتدار پہ قابض ہونا اور قانون سے بالا تر رہنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ کوئی انسان بھی بقائمی ہوش و حواس یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان میں غریبوں کو انصاف میسر ہے یا پھر پاکستان میں قوانین کرپٹ حکمرانوں پہ بھی یکساں طو ر پر لاگو ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی مثال اس ضمن میں سامنے ہے۔ سو اپنے اسی سوال کی طرف ہم واپس آئیں گے کہ اسلام آباد کو بند نہ کرنے کی قیمت کیا ہو گی؟ پاکستان کے مالدار اور کرپٹ طبقے کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے لئے ہم کیا قیمت چکانے کے لئے تیار ہیں؟ اگر شریف اور زرداری اس ملک کو جونکوں کی طرح چمٹیں رہیں تو گرتا پڑتا یہ ملک چلتا ہی جائے گا‘ لیکن سوچنا چاہئے کہ کیا یہی وہ کل ہے جس کی امید میں ہمارے بزرگوں نے اپنے آج کی قربانی دی تھی؟ ہم کیا قیمت دے سکتے ہیں جس کے بدلے میں ہمارے بچے پھر بھوکے نہیں رہیں گے اور مستقبل کے لئے حقیقی امید بھی ان کے دل میں روشن رہے گی؟ دو نومبر کو کوئی بھی اسلام آباد بند نہیں کرائے گا‘ لیکن اس کرپٹ حکومت کے سربراہ کو اقتدار چھوڑنے اور احتساب کے کٹہرے میں آنے کے لئے مجبور کرنے کی خاطر ہر پاکستانی کو ایک کوشش ضرور کرنا ہو گی تاکہ ہمارا ملک ہمیں واپس ملے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے بعد ہر کرپٹ سیاستدان کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے ایک طویل سلسلے کی یہ پہلی کڑی ثابت ہو گی۔ پاکستان کبھی بند نہیں ہو سکتا لیکن کرپٹ اداروں کی بندش، متعلقہ تحقیقات اور پھر تطہیر لازمی ہے تاکہ یہ ادارے تمام پاکستانیوں کی قانون کے مطابق یکساں خدمت کر سکیں۔
ان تمام خیالات کا اظہار کرنے والے ہمارے یہ دوست دو نومبر اور اس کے نتائج کے منتظر ہیں۔