ایک ٹرمپ ٹاور اسلام آباد میںہو جائے؟

ہم محض ایک مشورہ دے رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دل کا رستہ ویسے بھی رئیل اسٹیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ سو، اگر ہم امریکی مہربانیاں سمیٹنا چاہتے ہیں توکیوں نہ نو منتخب امریکی صدر کو اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں زمین کا ایک بیش قیمت ٹکڑا پیش کر دیا جائے تاکہ وہ وہاں ایک ٹرمپ ٹاور کھڑا کر دیں۔سچی بات ہے، پاکستان کو اس سے بڑا ہی فائدہ ہوگا۔ سرتاج عزیز صاحب، کیا آپ سُن رہے ہیں؟ ہمارے اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کاروباری سودوں کا بڑا ہی شوق ہے۔اس سے پہلے کہ دنیا کے دیگر ممالک اسی خیال کو اپنا تے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کاروباری سودے کرنے کے لئے طویل قطار بنا لیں، میاں صاحب کو فی الفورجہاز میں سوار کروا کے مجوزہ جائیداد کے بلیو پرنٹس سمیت امریکہ بھجوا دینا چاہئے۔ترکی، عرب امارات، برطانیہ ، کینیڈا، پانامہ، دبئی، فلپائن، جنوبی کوریا اور یورا گوئے میں پہلے ہی سے ان کے کاروبار موجود ہیں۔اس کھیل میں ویسے بھارت پہلے ہی سے سبقت حاصل کر چکا ہے۔اپنے چنائو کے ایک ہفتے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تین بچوں سمیت اپنے بھارتی کاروباری ساتھیوں ساگر اور اتل چورڈیہ اور کپلیش مہتہ کا نیویارک میں بڑی گرمجوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا۔یہ لوگ پُونا میں ٹرمپ ٹاورز کے ڈویلپرز ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ ایسی جائیداد کی ملکیت پانے کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں جس پہ امریکی صدر کے نام کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔مستقبل قریب میں بھارت میں مزید ٹرمپ ٹاورز کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے ناقدین بھلے ہی کہتے رہیں کہ اپنے ذاتی کاروبار اور اس کے نتیجے میں ذاتی مالی اثاثوں کے بڑھاوے کے لئے یوں امریکی صدارتی عہدے کا استعمال کرنا نہایت غیر اخلاقی بات ہے ، مگر ان کی پروا کسے ہے؟اب اگر پاکستان یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی ان قربتوں کا کچھ علاج ہو تو اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید دولت کمانے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔لاہور میں گولف کورس کی تعمیر یا پھر کراچی میں عظیم الشان ہوٹل بنانے کی دعوت اسے دے دینی چاہئے جن پہ اس کا نام زریں نقوش میں کندہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ جس طرح تیزی کے ساتھ اپنے افرادِ خانہ پر مبنی ایک سیاسی سلطنت تعمیر کر رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے زیادہ تر امریکی تشویش کا شکار ہو رہے ہیں۔ستر سالہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی سے ارب پتی ہے لیکن اپنی صدارت کے دوران اگر کروڑوں مزید کمانے کا اسے موقع مل رہا ہے تو اس میں ایسی کون سے قباحت ہے؟ ٹرمپ اور اس کی اولاد آنے والے چار برسوں میں کتنا مال مزیدکمائیں گے، یہ ہمیں کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکے گا۔ اس نے اپنی ٹیکس کی ادائیگیاں ویسے بھی خفیہ رکھی ہیں۔ہمیں یہ البتہ ضرور معلوم ہے کہ موصوف کاروباری سودوں، ووڈکا، مردوں کی ٹائیوں اور ملبوسات کے بے حد شوقین ہیں، اور یہ سب چیزیں چین سے ہونی چاہئیں!دنیا بھر میں بڑی تیزی کے ساتھ وہ اپنے تعمیراتی شوق کی تکمیل میں بھی مصروف ہیں اور جگہ جگہ گولف کورس اور لگژری ہوٹلوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی ملانیہ ٹرمپ اپنے نام کی جیولری اور گھڑیاں بناتی ہے لیکن بیچتی انہیں صرف QVCکے ذریعے ہے جو گھریلو خریداری پر مرکوز ایک ٹی وی نیٹ ورک ہے۔جلد کی نگہداشت کے لئے بیش قیمت مصنوعات بھی وہ بیچتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکاٹرمپ بھی سونے اور ہیروں کے ایسے رنگ برنگی زیوارات بیچتی ہے جسے صرف بے حد مالدار لوگ ہی خریدتے ہیں۔ امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی صرف دو پہلوئوں کی حامل معلوم ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ انہیں صدارتی عہدہ استعمال کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا ہے ، جیسا کہ وہ کہہ بھی رہے ہیں کہ بیس جنوری سن دو ہزار سترہ کے بعد سے وائٹ ہائوس کے دروازے''کام‘‘ کے لئے کھلے رہیں گے۔ دوسرے انہیں صدارتی انتظامیہ میں اہم ذمہ داریاں اپنی اولاد کو سونپ کر ایک سیاسی سلطنت قائم کرنی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ساتھ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا لہجہ کافی غیر معذرت خواہانہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں قانوناً ایسی کوئی دقت درپیش نہیں کہ جس کی وجہ سے انہیں اپنی کاروباری سلطنت اور وائٹ ہائوس کے درمیان کسی قسم کی حدبندی کرنے کی ضرورت ہو گی۔''قانون بالکل میری ہی طرف داری کرتا ہے۔‘‘ جب انہیں یاد دلایا گیا کہ مفادات کا تصادم اور اخلاقی قوانین بھی کوئی چیز ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر سب کی بولتی بند کر دی کہ ''مفادات کا تصادم کبھی بھی صدر کے آڑے نہیں آ سکتا۔‘‘ اپنے کاروباری ساتھیوں کو وائٹ ہائوس مدعو کرکے ان کے ساتھ مصافحوں اور مسکراہٹوں کے تبادلے کی تصاویر کھچوانے کا وہ پورا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا برانڈ اب پہلے سے بھی زیادہ مقبو ل ہو چکا ہے۔ یہ میاں نواز شریف کے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے سے متعلقہ تجاویز کو تحفے کے طور پر وائٹ ہائوس جا کر ڈونلڈ ٹرمپ کی خدمت میں پیش کریں اور وہاں سے پھر امریکی امداد سے مالا مال ہو کر لوٹیں۔ اقتدار کی منتقلی کی عبوری مدت میں پہلے ہی سے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کے چنائو کی ذمہ داری انہیں سونپی جا چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ہوئی تو ملاقات کے دوران ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا اپنے شوہر جیرڈ کشنر سمیت بیٹھی دکھائی دی۔کون جانے کب ٹوکیو میں بھی ایک ٹرمپ ٹاور نمودار ہو جائے! دوسری طرف واشنگٹن میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل میںسفارتکاروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طور نو منتخب صدر کی نظر ان پہ مہربان ہو جائے۔ واشنگٹن میں ہمارے سفیر پہلے ہی سے ساجد تارڑ کے ساتھ رابطہ کر چکے ہیں۔ ساجد تارڑ ڈونلڈ ٹرمپ کے زبردست حامی ہیں۔ ہمارے سفیر کو امید ہے کہ ساجد تارڑ کی وجہ سے ہو سکتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے کسی حد تک نرمی کا اظہار کر دیں۔ ساجد تارڑ ہو سکتا ہے کہ ایک بہترین پیغامبر ثابت ہوں۔کیوں نہ ان ہی کے ذریعے اسلام آباد میں ٹرمپ ٹاور کی تعمیر کی تجویز ڈونلڈ ٹرمپ کو پہنچا د ی جائے؟ ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ وفاداری کا انعام بہت بڑا دیتے ہیں اس لئے ساجد تارڑ پہلے ہی سے انعام کے مستحقین کی فہرست میں اونچے درجے پہ موجود ہیں۔ماہِ اگست میں ٹرمپ کنونشن کے دوران موصوف نے دعا کروائی تھی کہ خدا امریکہ پر اور ڈونلڈ ٹرمپ پہ اپنی رحمت نچھاور کرے۔ ساجد تارڑ خود کو ان امریکیوں میں شمار کرتے ہیں جو روایتی سیاستدانوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ناکارہ اور بے کار انتظامیہ سے اکتا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں کچھ کر دکھانے کی ہمت موجود ہے۔ وہ داعش جیسے دہشت گردوں سے سختی کے ساتھ نمٹیں گے، جن کے خلاف براک اوبامہ کمزور ثابت ہوئے۔وہ اس نظام سے باہر کے آدمی ہیں۔ وہ وہی کہتے ہیں جو ان کے دل میں آتا ہے ۔ان کی تقریریں کسی اور کی لکھی نہیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے جو بھی دل میں آئے کہہ دیتے ہیں۔ ساجد تارڑ کو یقین نہیں کہ یہ بات بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی نے کہی تھی کہ ''اسلام ہم امریکیو ں سے نفرت کرتا ہے۔‘‘پچھلے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک فلپائنی مہمان اور اس کے بچوںسے نیویارک کے ٹرمپ ٹاور میں ملاقات کی۔ مسٹر انطونیواو ر ڈونلڈ ٹرمپ کے بچے بھی اس ملاقات میں شریک تھے کیونکہ دونوں ہی شروع سے منیلا پراجیکٹ میں ملوث رہے۔ٹرمپ اور انطونیو کے درمیان مزید کاروباری شراکت بھی متوقع ہے۔ خاص طور پر فلپائن میںٹرمپ کے برانڈ کے نام سے وسیع و عریض تفریح گاہوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔پاکستان کو بھی اب اس ضمن میں کچھ سرعت دکھانی ہو گی۔ نجانے ہمیں انتظار کس بات کا ہے۔اس سے پہلے کہ دیگر ممالک ڈونلڈ ٹرمپ کو کاروباری سودو ں کی تجاویز دینے کے لئے ایک ہجوم بنا لیں، ہمیں خود کچھ حرکت کرنی ہی ہو گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں