اوباما اور ٹرمپ، ماضی اور حال

امریکی صدر بارک اوباما کے اوول ہائوس پہنچنے کے سال بھر بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو حال ہی میں ان کے جانشین کے طور پر منتخب ہوئے ہیں، ''برتھر بریگیڈ‘‘ کی کمان سنبھال لی تھی۔ یہ اصطلاح یعنی برتھر بریگیڈ ان لوگوں کے لئے استعمال ہوتی تھی جو صدر اوباما کی جائے پیدائش کو بنیاد بنا کر ان کی ''امریکیت‘‘ کو مشکوک گردانتے تھے۔ یہ ایسے جنونی قسم کے سفید فاموں کا ایک جتھہ تھا جو مُصر تھے کہ بارک اوباما چونکہ کینیا میں پیدا ہوئے اس لئے وہ کینیا کے ہیں، اور یوں امریکی صدر اور سپریم کمانڈر کے طور پر امریکہ کی قیادت کرنے کے وہ اہل نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان لوگوں کی صفوں میں پیش پیش تھے اور کہتے تھے کہ اوباما ایک ناجائز صدر ہیں۔ امریکی دستور کہتا ہے کہ صرف وہی لوگ ملک کے اس اعلیٰ ترین عہدے پہ متمکن ہو سکتے ہیں جن کی پیدائش یہیں پہ ہوئی ہو۔ سازشی نظریات کے پرچارک بھی ان لوگوں کی صفوں میں آ ملے تھے جو یہ کہتے تھے کہ بارک اوباما ایک خفیہ مسلمان ہیں کیونکہ ان کا درمیانی نام ''حسین‘‘ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ سن دو ہزار نو میں ہم نے اس بارے میں ایک کالم بھی لکھا تھا کہ نجانے صدر اوباما سفید فاموں کی نفرت کے اس سیلاب کا سامنا کر پائیں گے یا پھر یہ سیلاب ایک سونامی کی شکل اختیار کرکے انہیں بہبودِ عامہ کے ان کے تمام تر منصوبوں سمیت غرقاب کر دے گا۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پہ ہم نے امریکہ میں جنونیت، حماقت، نسلی تعصب، نفرت، گالی گلوچ اور عدم برداشت کی ایک الگ ہی دنیا کا آغاز ہوتے خود دیکھا ہے۔ یہ ''برتھر‘‘ قسم کے لوگ اگر پاکستان میں ہوتے تو ان کی بدولت یہاں گمشدہ افراد کی فہرست مزید طویل ہو چکی ہوتی۔ متحرک انٹیلی جنس ادارے ان سے نمٹ چکے ہوتے۔ محکمہ داخلہ کے اس وقت کے زار رحمان ملک ان پہ بھی پابندی لگا چکے ہوتے جیسا کہ انہوں نے زرداری صاحب کے حوالے سے اہانت آمیز ایس ایم ایس پیغامات کے سلسلے میں کیا تھا۔ مگر یہ امریکہ کی بات تھی جہاں اوباما کے خلاف کچھ بھی انتہائی حد تک کہا جا سکتا تھا۔ لوگ انہیں نسلاً مسلمان سمجھ کر انہیں قابلِ مواخذہ کردار کا حامل پکار سکتے تھے۔ انہیں کمیونسٹ اور نازی بھی کہا جا سکتا تھا اور ایک جوکر بھی۔ ان کے افریقی النسل ہونے کی کھوج بھی اس امید کے ساتھ کی جاتی تھی کہ شاید ان کا خون بھی سیاہ نکل آئے۔ یہ سب کچھ ہوتا تھا لیکن صدر اوباما یا ان کے آدمیوں سے یہ توقع نہیں کی جاتی تھی کہ وہ بھی جواباً کچھ کہیں گے یا کریں گے۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بڑا ہی ناز ک ہے۔ ان پہ اگر کوئی نکتہ چینی کی جرأت کرے تو وہ فوراً ہی اس پہ چڑھ دوڑتے ہیں اور ٹویٹر پہ اسے''لوزر‘‘ کے لقب سے نواز دیتے ہیں۔ خود پہ کسی قسم کی تنقید ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ دنیا کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ سن دو ہزار تیس تک امریکہ، ''حسین‘‘ امریکہ رنگدار لوگوں کی اکثریت کا حامل ملک بن جائے گا۔ اسی لئے تو سفید فاموں سے وائٹ ہائوس میں کوئی سیاہ فام برداشت نہیں ہو رہا تھا، نہ ہی انہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ میںکسی ہسپانوی عورت کا وجود گوارا تھا۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ جسٹس سونیا سوٹومائر کہہ چکی ہیں کہ ان کے خیال میں ایک ہوشیار لاطینی عورت کسی بھی سفید فام مرد سے زیادہ بہتر فیصلے کر سکتی ہے۔ امریکہ میں تبدیلی قریب تھی اور تبدیلی کا یہ سارا عمل نصف امریکہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے زن بیزار، متعصب اور نسل پرست شخص کے حق میں ووٹ دئیے جانے تک ہی دل چسپ اور ہیجان خیز رہا۔ وائٹ ہائوس میں اپنی آمد کے وقت بارک اوباما کی عمر سینتالیس برس تھی۔ اپنی صدارت کے آٹھ برسوں بعد وہ ضعیف و نزار دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ عوامی تقاریب میں اسلحے سمیت آنے پہ کوئی پابندی وہاں نہیں اس لئے ٹائون ہالوں میں اوباما خلاف مجلسوں میں لوگ اسلحے سمیت آنے لگے۔ بعض لوگ اوباما کی تصویروں کے سامنے اشتراکیت کے نشان یعنی درانتی اور ہتھوڑا یا پھر نازی علامت سواستیکا لگانے لگے۔ صدر اوباما پہ ان لوگوں کا الزام یہ ہے کہ وہ امریکہ کو ایک اشتراکی ریاست بنانا چاہتے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کی خواہش تھی کہ انتہائی مالدار طبقے کی قیمت پہ تمام امریکہ کے لئے ہیلتھ کیئر کا نظام لایا جائے۔ یہی برتھرز ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کے لابسٹ عناصر اور ری پبلکن پارٹی والوں کے ساتھ مل کر صدر اوباما کے لئے مشکلات تخلیق کرتے گئے کیونکہ ان کے خیال میں انہیں تاحال یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ امریکی شہری ہیں۔ ایک ری پبلکن قانون ساز نے تو کانگرس میں ایک بل بھی متعارف کرا دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدارتی امیدوار کے لئے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہونا چاہئے اور یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ اس بل کو دو ہزار بارہ سے پہلے مؤثر ہو جانا چاہئے تاکہ صدر اوباما کو دوبارہ انتخاب سے پہلے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرنے پہ مجبور کیا جا سکے۔ ایک مبصر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اس وقت دو پارٹیاں ہیں، ایک اوباما پارٹی اور دوسری فاکس (نیوز) پارٹی۔ ''اوباما پارٹی گو بڑی ہے لیکن ارتکاز اس میں نہیں اور اس کے لوگ بھی محض شکایتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف فاکس پارٹی جتھہ بنا کر سیاستدانوں کو ہراساں کرتی ہے اور شور مچاتی رہتی ہے اور سادہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے فن میں طاق ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی وزیر تعلیم کے طور پر بیٹسی ڈیووس کو نامزد کر چکے ہیں۔ ان خاتون کے بھائی کا نام ایرک پرنس ہے۔ موصوف بدنامِ زمانہ کمپنی بلیک واٹر کے بانی ہیں۔ کئی ممالک کی جانب سے دنیا بھر میں اس کمپنی کو امریکی حکومت کی جانب سے اربوں ڈالروں کے ٹھیکے دیئے گئے تھے۔ پاکستانیوں کے لئے بھی بلیک واٹر کا نام نامانوس نہیں۔ اس بدنامِ زمانہ کمپنی کے بانی ایرک پرنس نے نئے منصوبوں، نئے شعبوں اور نئے کسٹمرز کی تلاش میں سالوں محنت صرف کی تھی۔ یہ کمپنی اب Xe کہلاتی ہے۔ زرداری دور میں سی آئی اے والوں نے پاکستان میں پریڈیٹر ڈرون طیاروں میں پانچ سو پائونڈز کے لیزر گائیڈڈ بم اور ہیل فائر میزائیل لوڈ کرنے کے لئے بلیک واٹر کمپنی کی ہی خدمات حاصل کیں تھیں۔ معروف صحافی شاہد آر صدیقی نے پاکستان میں بلیک واٹر کے مشکوک اور خطرناک کردار کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا۔ پاکستان کے معاملات میں گہری در اندازی اور مداخلت کی خبریں میڈیا میں آنے لگی تھیں۔ زرداری حکومت پہ دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ اس بدنامِ زمانہ کمپنی کو ملک سے نکال دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے بلیک واٹر کے سینکڑوں گارڈز کو پاکستان میں کام کرنے کے لئے ویزہ دیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے تو سرعام یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر بلیک واٹر پاکستان میں کہیں بھی کام کرتی دکھائی دی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ ظاہر ہے وہ جھوٹ بول رہے تھے! پاکستان میں اس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن نے بھی پاکستان میں بلیک واٹر کی کارروائیوں سے متعلق الزامات کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ بلیک واٹر پاکستان میں کام نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافیوں کا ایسا کہنا انتہائی غلط ہے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ایسا کہہ کر پاکستانی صحافی پاکستان میں امریکی اہلکاروں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس کے کچھ عرصے بھی جب سیکرٹری کلنٹن پاکستان کے دورے پہ آئیں تو انہوں نے بھی اس موضوع پہ سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا؛ تاہم شاہد صدیقی کے مطابق بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کی ایک آڈیو ٹیپ ریکارڈ کی گئی ہے‘ جس میں اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کی یہ کمپنی واقعی پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ پاکستانیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کیونکہ ایرک پرنس کی بہن ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ہے۔ اس کی کمپنی بلیک واٹر کا نام اب Xe Services ہے اور عین ممکن ہے کہ ٹرمپ حکومت کی خفیہ ایجنٹ کے طور پر پاکستان میں یہ پھر ورود کر جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں