کرکٹ کی دنیا کا ایک عظیم نام

چاروں طرف سمندر کی لہریں ہوں اور وہیں تقریباً بیس دن گزارنے ہوں تو ایسے میں ایک چھوٹی سی بچی کا واحد مشغلہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد مسافروں کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لیتی رہے۔ یہ 1954ء کی بات ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم انگلستان کا پہلا دورہ کرنے جا رہی تھی۔ تمام کھلاڑی پی اینڈ او لائنز نامی کمپنی کے بحری جہاز میں سوار تھے جس کا نام Batory تھا۔ جہاز جب بحیرہ عرب میں داخل ہوا تو تیز ہوائوں کے جھکڑ چلنے لگے، چنانچہ سبھی مسافر اپنے اپنے کیبنوں میں پناہ لینے پہ مجبور ہو گئے تھے؛ تاہم بحیرہ روم کی پُرسکون لہریں پھر ہمارے کرکٹروں سمیت سبھی مسافروں کو عرشے پہ نکال لائیں۔ ہمارے والد ان دنوں کرکٹ ٹیم کے مینجر تھے‘ لہٰذا اپنے ان ستاروں کو قریب سے دیکھنے کا ہمیں خوب موقع ملا۔ وکٹ کیپر امتیاز احمد اپنے ساتھیوں محمد ابراہیم زین الدین غزالی، خان محمد اور شجاع الدین کی مہذب صحبت میں وقت گزارتے۔ یہ تینوں پینے پلانے کی ان محفلوں سے دور رہا کرتے تھے جو ہر شام کو سجا کرتی تھیں اور وجیہہ و شکیل فضل محمود جن کی جان ہوا کرتے تھے۔ ہماری والدہ اور دونوں بڑے بھائی بڑی دل چسپی سے وہ نظارے دیکھا کرتے تھے کہ کس طرح خوبصورت لڑکیاں نیلی آنکھوں والے فضل محمود کو گھیرے میں لے لیا کرتی تھیں۔ وہ اپنے سگریٹ کے مرغولے جب ہوا میں چھوڑتے تو ہم سب مسحور ہو کر انہیں دیکھتے رہ جاتے۔ ہم بچوں سے بات کرنے وہ ہمارے صوفے تک بھی آتے تھے۔ جہاز کے عرشے پہ ہر صبح ہمارے کھلاڑیوں کے لئے پریکٹس کا انتظام بھی ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ یہی وہ دورہ تھا جس میں پاکستان نے انگلستان کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ جیتا۔ یہ ایک تاریخ ساز فتح تھی۔ اس سے پہلے کسی بھی ملک نے انگلستان میں اپنی پہلی ہی سیریز میں کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا تھا۔ کرکٹ کی دنیا کے قدیم اور معتبر ترین جریدے Wisden نے بھی اس ٹیسٹ کے بار ے میں لکھا تھا کہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں سترہ اگست 1954ء منگل کا دن تادیر یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہی وہ دن ہے جب پاکستان اوول کے میدان میں انگلستان کو پہلے ہی دور ے میں ٹیسٹ میچ میں ہرانے والا پہلا ملک بنا۔ اس ابتدائی دور میں چار کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کے بنیادی ستون سمجھے جاتے تھے یعنی امتیاز احمد، حفیظ کاردار، فضل محمود اور حنیف محمد۔ امتیاز احمد نے اپنے دیگر تینوں ساتھیوں سے طویل تر عمر پائی اور دوستوں و رشتہ داروں کے جھرمٹ میں ایک بھرپور زندگی گزاری؛ تاہم سال دو ہزار سترہ کی پہلی صبح کا نظارہ ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ سال دو ہزار سولہ کے آخری دن وہ انتقال کر گئے۔ ان کے دوست نجم لطیف‘ جو ان کے مداح بھی تھے، اکثر لاہور میں واقع ان کے گھر جا کر ان سے کرکٹ کے موضوع پہ بات کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ہم نے نجم لطیف سے ان کے دوست اور ہیرو کی شخصیت پہ تبصرہ چاہا تو انہوں نے بذریعہ ای میل ہمیں بتایا کہ امتیاز احمد سے ان کی آخری ملاقات بیس نومبر 2016ء کو ہوئی تھی۔ اس آخری ملاقات میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان سے زیادہ زیادہ ملا کریں کیونکہ ماضی کی یادیں تازہ کرنا انہیں بہت پسند تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں چکر بہت آتے ہیں لیکن ویسے وہ بظاہر ٹھیک ہی لگ رہے تھے۔ ''جب میں نے ان سے رخصت طلب کی تو اپنی روایتی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ صدر دروازے تک مجھے رخصت کرنے آئے۔ ہم نے ہاتھ ملائے اور جب تک میں وہاں سے ڈرائیو کرکے رخصت نہیں ہوا، وہ وہیں کھڑے رہے 
تھے۔ اس وقت مجھے خیال تک نہیں گزرا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہو گی۔ اگلی دفعہ جب میں ان کے گھر گیا تو سال 2017ء کے ماہِ جنوری کی چار تاریخ تھی، ان کی قبر ان کے گھر قریب ہی واقع ہے، جس پہ میں پھول رکھ آیا ہوں‘‘۔ نجم لطیف ایک مؤرخ ہیں اور کرکٹ کے موضوع کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ لاہوریوں کو شاید باغِ جناح‘ جسے پہلے لارنس گارڈنز پکارا جاتا تھا، کی سرخ ٹائلوں والی کرکٹ پویلین یاد ہو گی۔ قذافی سٹیڈیم کی تعمیر سے پہلے زیادہ تر اہم میچز یہیں کھیلے گئے تھے۔ 
نجم لطیف ہی کی کاوشوں کی بدولت وہ سال خوردہ پویلین محفوظ کر لی گئی ہے اور اب وہاں پاکستان کا پہلا کرکٹ میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ نجم لطیف کہتے ہیں کہ امتیاز احمد کے عروج کا آغاز 1945ء میں اس وقت ہوا جب سترہ برس کی عمر میں لاہور میں لینڈسے ہیسٹ کی قیادت میں کھیلنے والی آسٹریلین سروسز ایلیون کے خلاف انہوں نے 135 رنز بنائے تھے۔ اس ٹیم میں کیتھ ملر اور سیسل پیپر جیسے کھلاڑی بھی شامل تھے۔ اس کے بعد وہ واحد وکٹ کیپر بیٹسمین تھے جنہوں نے 1952ء میں انڈین پرائم منسٹر ایلیون کی جانب سے کھیلتے ہوئے دولتِ مشترکہ کی ٹیم کے خلاف بمبئی میں تین سو رنز بنائے۔ پاکستان کے پہلے انتالیس ٹیسٹوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس میں امتیاز احمد شامل نہیں ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے کل اکتالیس ٹیسٹ میچ کھیلے۔ 1955ء میں جب نیوزی لینڈ کی ٹیم لاہور آئی ہوتی تھی اور امتیاز احمد‘ وقار حسن کا ساتھ دینے آٹھویں 
نمبر پہ بیٹنگ کرنے آئے تو ہماری ٹیم سخت مشکلات کا شکار تھی۔ ان دونوں نے تین سو سات رنز بنا کر ایک تاریخ رقم کی۔ امتیاز احمد نے اکیلے دو سو سات رنز بنائے تھے اور یوں وہ کرکٹ کی تاریخ میں ڈبل سنچری سکور کرنے والے پہلے وکٹ کیپر بنے۔ بعد میں انہوں نے نجم لطیف کو یہ بھی بتایا تھا کہ نیوزی لینڈ والے انہیں آئوٹ کر ہی نہیں سکتے تھے، وہ خود اکتا گئے تھے اور تھک بھی گئے تھے اس لئے ایک بری گیند پہ بڑا آسان کیچ انہوں نے دے دیا تھا۔ اپنے دور کے تیز ترین بولروں کے خلاف کھیلتے ہوئے بھی انہوں نے کبھی ہیلمٹ یا تھائی پیڈز نہیں باندھے تھے۔ وہ اپنے فن کے ماہر تھے، مدِمقابل کے طور پر کسی سمجھوتے پہ وہ تیار نہ ہوتے، میچ انہیں ہر حال میں جیتنا ہوتا تھا۔ بعض لوگ گیند کو میدان سے باہر پھینکنے کے عادی ہوتے ہیں لیکن انہیں گیند کو میدان میں اتارنے کا ہنر آتا تھا۔ ذاتی طور پر وہ کسی سے پرخاش نہیں رکھتے تھے۔ 1962ء میں انہوں نے جاوید برکی کی قیادت میں دورہ انگلستان میں شمولیت بھی قبول کر لی تھی حالانکہ وہ جاوید برکی سے زیادہ اس بات کے حقدار تھے کہ انہیں ٹیم کا کپتان بنایا جاتا۔ وہ ان کا آخری ٹیسٹ میچ تھا۔ نجم لطیف کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار ان سے پوچھا تھا کہ عظیم بائولر جم لیکر کے بار ے میں ان کی کیا رائے تھی۔ اس پہ انہوں نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا کہ انہیں کھیلنا مشکل نہیں تھا کیونکہ ہمیں ذوالفقار احمد کو کھیل کھیل کر آف سپن کھیلنے کی بڑی پریکٹس ہو گئی تھی۔ ذوالفقار احمد نے انگلستان کے خلاف1954ء کی ٹیسٹ سیریز میں بھی اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اپنی بہترین کارکردگی انہوں نے1955ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میںکھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں دکھائی تھی جس میں انہوں نے اناسی رنز دے کر گیارہ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ امتیاز احمد کی عظمت کو سلام پیش کرنے نجم لطیف ان کی سوانح تصنیف کر رہے ہیں جو یقینا ان کے زمانے کی قیمتی یادوں کا ایک قابلِ قدر مجموعہ ہو گا۔ کرکٹ کے شائقین کو اس کتاب کا انتظار رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں