جب زمین کی زبان نے پہلے انسان کے لہو کا ذائقہ چکھا تووہ حسد پر برس پڑی اور اسے سخت برا بھلا کہا: ''تیرا کچھ نہ رہے تو نے قابیل کے دل میں جنم لیا اور اس کے ہاتھوں اپنے ہی بھائی کا خون کروا ڈالا‘‘۔حسد نے دہکتی ہوئی شعلہ فشاں آنکھوں سے زمین کو گھورا اور ایک تاریخ ساز جملہ کہا: ''دل کی کھیتی کو صبر اور شکرکے آنسوؤں کا پانی نہ لگایا جائے تو حسد کی آگ اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہے‘‘۔زمین نے نفرت سے رخ پھیر لیا‘ کچھ توقف کے بعد حسد پھر گویا ہوا: ''ابھی تو تمہیں فقط ہابیل کا لہو پلایا اور تم مجھ سے خفا ہوگئی ‘ میرا وجود آگ سے بنا ہے جو ابن آدم بھی مجھے دل میں جگہ دے گا اس کادل جلاکرراکھ کر دوں گا‘ پھر وہ اس جلتے ہوئے دل کو اپنے سے بہتر انسان کے لہو سے ٹھنڈا کرے گا اور تمہاری زبان کا ذائقہ خونِ انساں سے بدلتا رہے گا‘‘۔زمین نے خاک اڑائی اور قرآن مجید کی سورۃ الفلق کی آیات کریمہ پڑھیں! میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی...اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
حسد نے آگ کا لباس پہنا اور انسانی بستیوں کا رخ کیا۔ اس بار حسد کا نشانہ ایک نہایت خوبصورت ملکہ بنی جو خود کو اس دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت سمجھتی تھی اور جادوئی آئینے سے روزانہ یہ سوال پوچھا کرتی۔''ذرا بتاؤ! اس دنیا کی سب سے حسین عورت کون ہے؟‘‘جادوئی آئینہ ہر بار یہ جواب دیتا: بلاشبہ ملکہ عالیہ آپ ہی ہیں۔ آپ حسن کی دنیا کی بے تاج ملکہ ہیں۔ حسینائیں آپ کے سامنے پانی بھرتی ہیں۔ملکہ ایک ادا سے مسکرا دیتی اور خودپسندی میں پہلے سے بڑھ کر مبتلاہوجاتی۔وہ صبح غیر معمولی تھی جب بنی سنوری ملکہ آئینے کے روبرو آئی اور ازل کی متکبرانہ آواز میں کئی بار کا کیا ہوا سوال دہرایا!''اے آئینے بتا!اس دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت کون ہے؟‘‘آئینہ خاموش رہا۔ملکہ نے بے چینی محسوس کی اور اس بار قدرے اونچی آواز میں استفسار کیا:خاموش کیوں ہو؟ بتاؤ! کون ہے اس دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت؟آئینے نے جواب دیا: ''آپ کی سوتیلی بیٹی شہزادی ماہ رخ اس دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت ہے‘‘۔حسد جو انتہائی دلچسپی سے آئینے اور ملکہ کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ سن رہا تھا اس نے اپنا سامان وہیں رکھ دیااور گنجائش پا کر ملکہ کے دل میں جا گھسا اور اسی کو ٹھکانہ بنا لیا۔ ملکہ کا دل اب حسد کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ وہ دیوانہ وار چیخنے لگی۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا‘ ماتھے کی رگیں غم و غصے سے تن چکی تھیں۔ ملکہ حلق کی پوری قوت سے چلائی اور قہر برساتی نظروں سے آئینے کو تکتے ہوئے مخاطب ہوئی!بتا دنیا کی سب سے حسین عورت کون ہے؟آئینہ پھر گویا ہوا:آپ کی سوتیلی ... ابھی آئینے کا جواب مکمل نہیں ہوا تھا کہ ملکہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور اس نے پتھر کا ایک چھوٹا سا مجسمہ پوری قوت سے آئینے کی طرف اچھال دیا۔ سچائی کا آئینہ ایک چیخ کے ساتھ کرچی کرچی بکھر گیااور کچھ ہی دنوں بعد دنیا کی سب سے حسین عورت شہزادی ماہ رخ حسد کے زہر سے بھرا ہوا سیب کھلائے جانے پر منوں مٹی تلے جاسوئی۔ زمین نے ایک بار پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر حسد کو بددعا دی اور خوبصورت شہزادی کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
حسد نے معصوم شہزادی کی ویران قبر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور شاہ جہان کے محل کا رخ کیا۔مغلیہ حکومت کا طاقتور بادشاہ اب بوڑھا ہوچکا تھا ‘آج اس نے اپنے بیٹے اورنگزیب کے سامنے اپنے دوسرے بیٹے داراشکوہ کی ذہانت کی تعریف کرکے اور اسے تخت کیلئے موزوں قرار دے کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر لی۔ حسد نے موقع غنیمت جانا اور بجلی کی سی تیزی سے اورنگ زیب کی آنکھوں میں کوند گیا۔ شاہجہان نے کمزور لہجے میں کہا :وعدہ کرو تم تخت کے حصول کیلئے اپنے بھائی کو ہرگز قتل نہیں کرو گے۔اورنگ زیب کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ کھیلنے لگی اور وہ کوئی جواب دئیے بغیر پلٹ آیا۔اس حسد نے اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں دوسرے بھائیوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں۔ یہ حسد کی آگ ہی تھی جس نے دل آرام کو بے آرام کیا اور پھر اس نے شہزادہ سلیم کی محبوبِ نظر نازک اندام انار کلی کے گرد سازشوں کے ایسے جال بنے کہ انجام کار اسے حسد کی دیوار میں چنوا دیا گیا۔
آج کے اس تیز رفتارمادہ پرست معاشرے میں حسد کی آگ بہت تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اگر آپ ذہین ہیں تو کسی بھی لمحے ایک کند ذہن انسان کے دل میں جلتی ہوئی حسد کی آگ کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ یہ حسد ہے جو ایک ہی خاندان کے افراد کو ایک چھت تلے نہیں رہنے دیتا ۔ تیرا مکان میرے مکان سے اونچا کی سوچ حسد کی پیداوار ہی تو ہے جس نے انسان کا دھیان زندگی کے اصل اور اہم مقاصد سے ہٹا کر اسے خود غرضی‘ اناپرستی اور عجیب نفسیاتی کشمکشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ گھروں کے ماتھے پر نظر آنے والا ماشا اللہ اور حسد سے بچنے کی آیات اسی نفسیاتی کشمکش کا شاخسانہ ہی تو ہیں۔ نند سے حسد کرنے والی بھابی کا اس کے دو سال کے بیٹے کا قتل کر نا ہو یا یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے واے ایک ذہین طالب علم کو اسی کے کلاس فیلو کی جانب سے اغوا کر کے اس کے جسم میں انجکشن کے ذریعے نشے کو داخل کر کے اسے نشے کا عادی بنا کر اس کا مستقبل تباہ کرنا‘ حسد کی آگ ہر جگہ بپھری ہوئی نظر آتی ہے۔یہ آگ اس وقت بھڑک اٹھتی ہے جب انسان اللہ کی تقسیم سے اختلاف رکھنے لگتا ہے اور اپنے سے بہتر لوگوں کواپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہرانے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے وہ سب کر گزرتا ہے جو قابیل نے ہابیل‘ ملکہ نے ماہ رُخ‘ اورنگزیب نے داراشکوہ اور دل آرام نے انار کلی کے ساتھ کیا تھا۔
دراصل حاسد بڑا بدبخت واقع ہوا ہے۔ وہ ہر لمحہ ایک نئے عذاب ‘ نئی الجھن اور انوکھے درد سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ آگ اور خون کے خطر ناک کھیل میں نفرت کے سلگتے انگاروں کی حدت سے اپنے قلب وروح کو تڑپا کر دوسروں کی خوشی‘ خوشحالی‘ عزت اور آبرو کو پامال کرنے پر تل جاتا ہے اور یوں اپنے حریف کو ہر صوت گرانے‘ ہرانے اور نیچا دکھانے کے مختلف حربے اور ہتھکنڈے سوچتا رہتا ہے۔ وہ ایک غیر اعلانیہ جنگ لڑنا شروع کردیتا ہے اور اپنی تمام تر ذہانت‘ وقت‘ توانا ئیاں‘ صلاحتیں اور وسائل اپنے ٹارگٹ کے حصول میں صرف کر دیتا ہے۔ اس بدنصیب کے دن کا چین اور رات کی نیند اکارت ہو جاتی ہے ۔ حاسد کسی کا لال چہرہ دیکھ کر اپنا منہ خود ہی تھپڑ مارکر سرخ کر لیتا ہے۔ جسے وہ اپنی ذہانت‘ صلاحیت اور قابلیت سے حاصل نہیں کرپاتا یا کسی کو اپنے سے بہتر مقام ومرتبہ پر فائز ہوتا نہیں دیکھ سکتا تووہ اسے حسد کی کمین گاہ میں گھیر لاتا ہے اور اپنے سارے تیر ترکش سے نکال کر اپنے حریف کا سینہ چھلنی کر دیتا ہے۔ کبھی وہ اس کے خلاف زبانی وار کر کے غیبت‘ دروغ گوئی‘ گالم گلوچ‘ اور الزام تراشی کا جھوٹا سہارالے کر کو نشانہ بناتا ہے تو کبھی اس کے خلاف جھوٹی گمنام درخواستیں دیتا ہے اور مقدمہ بازی میں الجھا کر اپنی نفرت اور جھوٹی انا کی تسکین کے بہانے تلاش کرتا ہے۔
بلاشبہ حسدانسانی جبلت میں شامل ہے اور روزِ اوّل سے انسان دوسروں پر سبقت لے جانے‘ ان سے زیادہ معتبر اور معزز کہلانے میں اکثر اوقات ناکام رہنے کی صورت میں حسد کی پناہ میں آ کر خود سے بہتر مقام ومرتبہ پر فائز شخص کو نیچا دکھانے پر کمر کس لیتا ہے اور یوں اپنے جسم وروح کو حسد کی آگ کے دریامیں جلا کر خود کو جِلابخشتاہے۔ مگر اس بدنصیب کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے اپنے اختیار میں ہے اور کسی فرد کی مجال کہاں کہ وہ کسی کا بال بھی بیکا کر سکے جسے مسندِ توقیر اللہ نے عطا کی ہو۔