مذہبی تہوار ہوں یا قومی تقریبات‘ ملکی سلامتی، ملی یکجہتی اور قومی ہم آہنگی میں ان کا کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔ یہ مواقع قوم کے اندر پائے جانے والے خلفشار، انتشار اور نظر نہ آنے والے بگاڑ کی درستی کا سبب بنتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرتے ہیں اور انسانی معاشرے میں باہمی روابط مضبوط خطوط پر استوار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تمام معاشرے اور سبھی ممالک اپنا قومی دن بڑے تپاک کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال بھر کسی نہ کسی ملک کے قومی دن کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیاں اور تقریبات بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ہمیں ان رنگا رنگ تقریبات کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اگست کا مہینہ پاکستان کی آزادی کے حوالے سے بہت محترم ہے جس کا سال بھر انتظار کیا جاتا ہے اور یکم اگست سے ہی ملک بھر میں پاکستانی پرچم، جھنڈیاں، رنگا رنگ پھلجھڑیاں اور مختلف انواع و اقسام کے بینرز سے مزین سٹالز سجا دیے جاتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یومِ آزادی کی تیاریاں بامِ عروج کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ کراچی سے خیبر اور لاہور سے لورالائی تک‘ پاکستانی پرچم تمام نمایاں مقامات‘ سرکاری اور غیر سرکاری عمارات پر لہراتا نظر آتا ہے۔ یومِ آزادی کے حوالے سے لوگ اپنی گاڑیوں کو بھی پاکستانی پرچم اور خوبصورت بینرز کے ساتھ سجا لیتے ہیں اور دیگر فروعی، لسانی، فرقہ وارانہ، صوبائی، علاقائی، رنگ و نسل اور معاشی تفاوت و تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک ہی آواز میں ملی نغمے، گانے اور ترانے گاتے ہیں اور نوجوان فرطِ جذبات سے سرشار کہیں شہنائیاں بجاتے نظر آتے ہیں تو کہیں بلند آواز سے باجے بجاتے، سر دھنتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی اس یومِ آزادی کی اصل طاقت ہے اور ہماری قومی سوچ کا مظہر بھی۔
ہمارے قومی تناظر میں 14 اگست کی اپنی منفرد حیثیت ہے اور اسی حوالے سے اس قومی تہوار کی ہماری قومی تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی حیثیت بھی رہی ہے۔ ہمارے نوجوان اپنی بے روزگاری، معاشی پسماندگی اور سماجی تقسیم اور تفریق کو بھلا کر اس دن قومی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں اور ''میری پہچان پاکستان ‘‘کے راگ الاپتے، ترانے گاتے ہیں اور شادیانے بجاتے ہیں تو ان کا جوش و خروش یقینا ان کے سچے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی اٹھکیلیاں، اُن کے ناچ گانے اور شرارتیں انہیں اپنے رنج و غم سے آزاد کر کے محض پاکستانی بن کر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور ان کے انگ انگ سے پاکستانیت جھلکتی ہے۔ چند من چلے شاید تہذیب اور شائستگی کے آداب کی حدیں پھلانگ بیٹھتے ہیں مگر ان کا محاسبہ بھی جلسے جلوسوں میں شامل دیگر نوجوان کرتے نظر آتے ہیں۔ قومیں اسی طرح اجتماعی رویوں کو فروغ دیتی ہیں، اجتماعی شعور کو اجاگر کر پاتی ہیں۔ اسی طرح انفرادی کردار کی صحیح سمت میں تعمیر و تشکیل کی جاتی ہے۔ جہاں کوئی مروجہ سماجی آداب و اقدار سے انحراف کرتا نظر آئے، وہیں اس کی اصلاح کردی جائے اور سماجی دبائو میں لا کر ایسے رویوں کی درستی کر دی جائے تو یہ عمل زیادہ با وقار ہے۔ نہ کہ بلاوجہ ایسے منچلوں کو لعن طعن کر کے مزید بغاوت پر اکسایا جائے اور ان کے بگاڑ کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا جائے۔ مثبت سوچ سے ذہن سازی کرنا اور ترغیب سے نوجوانوں کو راہِ راست پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی اگست کے آغاز سے ہی ملک بھر میں یومِ آزادی کے حوالے سے تیاریوں کا عمل شروع ہو گیا۔ اگرچہ مسلسل بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے کئی مقامات پر ہمیں جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار کیا‘ بالخصوص بلوچستان کے سیلاب زدگان زیادہ تکالیف اور پریشانیوں میں گھرے نظر آئے۔ انہی سیلاب زدگان کی امدادی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل کور کمانڈر کوئٹہ اپنے ساتھیوں سمیت ایک افسوسناک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے اور چھ قیمتی جانوں کا نذرانہ ملک و قوم کو سوگوار کر گیا۔ ان واقعات نے یومِ آزادی کا روایتی جوش و خروش نسبتاً کمزور کر دیا اور وہ خوشیاں کافی حد تک ماند پڑ گئیں جو 14اگست کی شان و شوکت کو دوبالا کرتی تھیں؛ تاہم اس کے باوجود ملک بھر میں سرکاری سطح پر یومِ آزادی کو پورے جوش و خروش اور پورے زور و شور سے منانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس سال پاکستان 75برس کا ہوا تو اس حوالے سے ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے خصوصی تقریبات ترتیب دی گئیں اور 75سالہ قومی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے مختلف مذاکرے، سیمینارز اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ صاحبانِ علم و دانش اس 75سالہ قومی سفر نامے کا جائزہ لیتے نظر آئے۔ اخبارات میں کالم نگاروں نے جہاں پاکستان کی شاندار کامیابیوں کا احاطہ کیا تو وہیں ہماری ناکامیاں بھی اجاگر کی گئیں، یہی مکالمے ہمیں مختلف ٹیلی وژن چینلز پر بھی نظر آئے۔
میرے پیشوا و مربی پروفیسر رحمت علی ہر سال یومِ آزادی کے حوالے سے 14اگست کی صبح ایک شاندار تقریب کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ان کے تمام چاہنے والے، مریدین، چیلے اور چند قریبی احباب شریک ہوتے ہیں۔ پاکستانی پرچم کی مناسبت سے سبز و سفید رنگ کا ایک خوبصورت کیک کاٹا جاتا ہے۔ پھر باقاعدہ پرچم کشائی کی جاتی ہے اور پروفیسر صاحب عرف بابا جی اپنے مخصوص لباس میں سٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور سفید شلوار قمیص پر کالی شیروانی اور جناح کیپ کے ساتھ ان کی وجاہت مزید اجاگر ہو جاتی ہے۔ وقت کی پابندی بابا جی کے آستانے کا بنیادی اصول ہے۔ لہٰذا میں اس مرتبہ بھی صبح سویرے تیار ہو کر ٹھیک آٹھ بجے مقررہ مقام پر پہنچ گیا اور جیدی میاں ہمیشہ کی طرح اپنی استقبالیہ ٹیم کے ساتھ چاق و چوبند نظر آئے۔ تمام مہمانانِ گرامی وقت پر پہنچ چکے تو تقریب کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پرچم کشائی اور کیک کاٹنے کے بعد باباجی کا خطاب اس محفل کا اصل حاصل ہوا کرتا ہے۔ باباجی پاکستانیت کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔ ان کے خطاب کا مرکز و محور ہمیشہ پاکستان سے سچا پیار اور بے لوث وفا کا درس ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ان کی گفتگو میں ''میری پہچان پاکستان‘‘ کا رنگ نمایاں تھا۔ فرمانے لگے '' پاکستان ہمارے اسلاف کی امانت ہے جسے پوری دیانت سے ہم نے اپنی اگلی نسل کے سپرد کرنا ہے مگر اس سے پہلے اس چمن کی آبیاری میں‘ اس فصلِ گل کی تیاری میں ہمیں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھنی اور نہ ہی کوئی کوتاہی برتنی ہے۔ پاکستان ہماری سب سے مستند پہچان ہے، یہی ہمارا سب سے معتبر حوالہ ہے۔ اس میں ہمارے ہزاروں شہیدوں کا خون ہے اور لاکھوں غازیوں کی قربانیوں کی لازوال داستانیں ہیں۔ اس کی بقا اور سلامتی میں ہم سب کی فلاح کا راز مضمر ہے‘‘۔
اس خطاب کا سب سے منفرد پہلو جیدی میاں کی مکمل یکسوئی اور خاموشی تھی کیونکہ دیگر مواقع پر وہ بابا جی کے ساتھ نوک جھوک اور تندو تیز جملوں کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات اُن کے مابین طویل فکری بحث چھڑ جایا کرتی ہے اور دونوں طرف سے دلائل اور حوالوں پر مشتمل ٹھوس وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں مگر اس قومی دن کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس موقع پر جیدی میاں کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہوتے ہیں۔ یومِ آزادی کے موقع پر بابا جی کی گفتگو اور اس کے سیاق و سباق سے جیدی میاں بھی ہمیشہ متفق نظر آتے ہیں کیونکہ وہ بھی ایک سچے پاکستانی کی طرح ''میری پہچان پاکستان‘‘ کے قائل اور اس پہچان پر فخر کرنا اپنے لیے باعثِ صد افتخار سمجھتے ہیں۔